حیات بعد الموت کے بارے میں قرآنی استد لال

اگرچہ کے سائنسی تحقیق مثلاً تھرموڈائنا مکس کے دوسرے قانون سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کائنات میں موجود اشیاءتباہی کی جانب گامزن ہیں حتیٰ کے دو سیاروں کا باہمی ٹکراﺅ بھی کائنات کو تباہ کرسکتا ہے کائنات کا وجود انتہائی نازک اور لگا بندھا ہے۔ یہ ایسے اجزاءپر مشتمل ہے جن کا ایک دوسرے پر انحصار ہے ایک انسان کا جسم0 6ملین (6کروڑ)خلیوں پر مشتمل ہوتاہے لیکن کینسر کا ایک خراب خلیہ پورے بدن کو موت کی نیند سلاسکتا ۔اسی طرح پوری کائنات میں کسی جگہ پیدا ہونے والا بگاڑ پوری کائنات کو تباہ کرسکتا ہے۔ بعض اوقات اچانک کسی عقلی وجہ کے بغیر ہماری موت واقع ہوجاتی ہے ۔کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات اچانک غیر متوقع طور پر کسی عارضے یا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے نہیں مرے گی ؟ ہوسکتا ہے کہ ہماری دنیاقدیم بھی ہماری غلط کاریوں کی وجہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا میں چکی ہو۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت اوراختیارسے بھی کائنات کے دوبارہ وجود میں آنے کا اشارہ ملتا ہے ۔ قران بھی حیات بعد الموت کا ثبوت دیتا ہے ۔ انسان کو یہ باور کرانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اگلے جہاں میں کیا کچھ تخلیق کر سکتا ہے اور عقل انسانی کو یہ سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں کی جانے والی عظیم کائنات تخلیق کی مثال پیش کرتے ہیں جس میں کائنات میں موجودتمام چھوٹے بڑے اجزا شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ اس عظیم کائنات میں تخلیق کردہ حقیر سے لے کر عظیم چیزوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔

اس کائنات اور انسانیت کی پہلی مرتبہ تخلیق کی بنیاد پر اگلی دنیا کی تخلیق کا اشارہ ملتا ہے ۔قرآن کائنات کی تخلیق کو ”اولین تخلیق “(56:62)قرار دیتا ہے جبکہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کو ”ثانوی تخلیق “(53:47)کہتا ہے ۔حیات بعد الموت کو ثابت کرنے کیلئے قرآن ہماری توجہ ہماری تخلیق کی جانب مبذول کرواتا ہے ۔قران میں ارشاد ہوتا ہے :

”تم نے دیکھا تم کسی طرح پیدا کئے گئے نطفے کے ایک قطرے سے ایک قطرہ خون بنے جو رحم میں ٹھہرا رہتا ہے خون کے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنے اور گوشت کی بوٹی سے انسانی شکل میں آئے پھر تم دوسری زندگی کو کس طرح جھٹلاﺅ گے اور یہ (اللہ کے لئے) پہلے کی طرح یا اس سے بھی آسان ہے ۔“ (22:5,:23.13-16)

قرآن پاک حیات بعد الموت اور اس دنیا میں خدائی کاموں کے درمیان موازنے پیش کرتا ہے ۔ بعض موقعوں پر قرآن پاک اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کے کاموں کے بارے میں اس انداز میں بتاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں اس کے کمالات کا موازنا کرکے اس کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور اس کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ قرآن اس دنیا کے واقعات کا اگلی دنیا میں پیش آنے والے واقعات اور حیات بعد الموت کے درمیان موازنہ کرتا ہے اس کی ایک مثال درج ذیل ہے :

”کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑا لو بن کر کھڑا ہوگیا ۔ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ،اس سے کہو انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیاتھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے ۔وہی جس نے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی ،جس سے تم اپنے چولہے روشن کرتے ہو کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے کیوں نہیں جبکہ وہ ماہر خلاق ہے۔“ (36:77-81)

قرآن اس دنیا کے مثال ایک کھلی کتاب کی طرح پیش کرتا ہے ۔ آخر میں اللہ اسے لپیٹ دے گا ۔اسے فنا کرنا خدا کے لئے اس قدر آسان ہے جیسے کاغذ کے ورق کو لپیٹنا ۔جس طرح اس نے ابتداءمیں اسے کھول کر رکھا اسی طرح کسی مادی وجہ کے بغیر اسے لپیٹ دے گا اور اسے پھر سے ایک بہتر شکل میں وجود میںلے آئے گا قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :

”وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتداءکی تھی اس طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے ۔“ (21:104)

قرآن حیات بعد الموت کی مثال موسم سرما کے بعد موسم بہار میں زندگی لوٹ آنے کی صورت میں دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ایٹم اور مالیکیول کو ترتیب دیتا ہے اور مرحلہ وار ہماری تخلیق کے بارے میں بھی بتاتا ہے ۔ موسم سرما میں فطرت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے جبکہ موسم بہار زمین میں جان ڈال دیتا ہے ۔بے جان اور خشک لکڑی پر کو نپلیں پھوٹتی ہیں اور پہلے کی طرح پھل اگنے لگتے ہیں ۔زمین پر گرنے والے لا تعداد بیجوں سے پودے اگ آتے ہیں اور اس عمل میں کوئی بھول چوک نہیں ہوتی ۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مردوں کو اسی طرح زند ہ کر یں گے ۔

”اور اللہ کی نشانیوں میں ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہے اور پھر جو نہی ہم نے اس پر پانی برسایایکایک وہ پھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے ۔یقیناوہ خداجو اس زمین کو جلاِ اٹھاتا ہے وہ مردوں کو بھی زندگی بخشنے والا ہے یقیناوہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ “  (41:39)

اور ارشاد ہوتا ہے:

” دیکھو ،اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مردہ پڑی زمین کو وہ کس طر ح جلِااٹھاتا ہے۔یقیناوہ مردوںکو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادرہے۔“ (30:50)

سورئہ82,81اور 84میںاللہ تعالیٰ نے حیات بعدالموت کے بارے میںبتایا ہے ۔اس کے علاوہ عظیم تر تبدیلی کے عمل اورکمالات خداوندی کا ذکربھی ہے جو کے اس وقت سامنے آئیں گے اس کے لئے تشبیہا ت کا سہارا لیا گیا ہے ۔ انہیں ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں اور اگلی دنیا سے جوڑ سکتے ہی اور اس دنیا میںنظر آنے والے خزاںاور بہار کے مناظر کی تشبیات بھی استعمال کی گئی ہیں۔انسان ان مثالوں سے حیرت زدہ ہوکر رہ جاتا ہے اور سوچتا ہے کے کون ہے جواس پر ایمان نہ لائے ۔ اگر ان تین آیت مبارکہ کا مجمومی مفہوم بیان کیا جاتے تو اس پر بہت زیادہ وقت صرف ہوگا صرف ایک سورہ مبارک کا مفہوم بھی بیان کیا جائے تو اس پر بہت زیادہ وقت صرف ہوگا صرف ایک آیت مبارکہ کو دیکھتے ہیں ۔

”جب اعمال نامے کھولے جائےں گے۔“ (81:10)

اس کا مطلب یہ ہے کے اگلے جہاں میں پھر سے زندہ کرنے پر ہرایک کا نام اعمال نامہ کھول دیا جائے گا ۔

شروع میں یہ بات عجیب اور سمجھ میں نہ آنے والی لگتی ہے ۔ لیکن جیسا کے سورئہ مبارک میں اس کو ایک نئی زندگی سے تشبیہ دی گئی ہے اسی طرح کاغذوں کو پھیلانا ،بھی ایک واضح مثال ہے ۔ہر پھل داراور پھول دار درخت اور پودے کی اپنی خصوصیات اور صفات ہوتی ہیں ۔ یہ اپنے انداز میں اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور اس طرح یہ اسمائے حسنیٰ میں بیان کی گئی صفات ربانی کو ظاہر کرتے ہیں۔ہر پودے کی خصوصیات اور زندگی کا ریکارڈ ہر ایک بیج میں محفوظ ہوتا ہے جو کہ اگلے موسم بہار میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اپنی شکل اور صورت کی زبان سے یہ نئے درخت یا پھول اصل درخت یا پھول کی زندگی اور خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں اور اس کی شاخیں پتے اور پھل پھول اصل پودے کی خصوصیات اور حقائق کو پیش کرتے ہیں وہ ذات جو کہتی ہے کہ :

”جب اعمال نامے کھولے جائیں گے ۔“ (81:10)

وہی ذات ہے جس کی خصوصیات اور کمالات اس کے اسمائے حسنیٰ سے ظاہر ہیں مثلاً بڑی حکمتوں والا ،سب کا محافظ ،سب کو روزی دینے والا ،بڑا لطف وکرم کرنے والا ۔

قران پاک اپنی آیات کے ذریعے ہمیں بار بار خبر دار کرتا ہے کہ ہمیں محدود مقاصد کے لئے پیدا نہیں کیاگیا بلکہ اس لئے ہم جو کچھ کرنا چاہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم ذمہ دار مخلوق ہیں اور اس میں ہم جو کچھ کرتے ہیں اسی کا حساب لکھا جاتا ہے ۔ ایک قطرے سے ہماری تخلیق کا آغاز جو مختلف مراحل سے گزر کر مکمل ہوتی ہے ۔ اور ہماری دیکھ بھال پر دی جانے والی حد درجہ توجہ اور احتیاط اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہماری بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم اس دنیا میں جو کچھ کرتے ہیں اس کا حساب لیا جائے گا اور یہ کام اگلے جہان میں ہوگا ۔اس کے علاوہ مختلف مراحل میں ہونے والی ہماری تخلیق اللہ رب العزت کی قدرت کو ظاہر کرتی ہے جو مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔

حیات بعد الموت کے حق میں عمومی دلا ئیل :۔

اگر کائنات کے نظام پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دو مخالف عناصر ہر جگہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ ان کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں اور ان کے نتائج اچھے اور برے فائدہ مند اور نقصان دہ جامع اور غیر جامع ،روشن اور تاریک رہنماءاور گمراہ کن ایمان اور کفر ،اطاعت اور بغاوت اور خوف اور محبت دونوں طرح کے ہوسکتے ہیں۔اس مسلسل باہمی تصادم کے نتیجے میں تبدیلی اور انقلاب کا ایسا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے جو ایک نئی دنیا کی تخلیق کے لئے عناصر وجود میں لاتا ہے ۔

یہ مخالف عناصر ابدیت کی جانب رہنمائی کرتے ہیں اور مادی طور پر جنت اور جہنم کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ابدی دنیا اس فانی دنیا کے لازمی عناصر پر مشتمل ہوگی جنہیں ابدیت عطا کردی جائے گی ۔

جنت اور جہنم تخلیق کی دو شاخوں پر لگے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف ثمرات ہیں۔یہ سلسلہ تخلیق کے دو نتائج ہیں ۔ یہ مختلف معاملات اور واقعات کی جھیلوں سے نکلنے والی ندیاں ہیں ۔یہ دو مختلف قطبین میں جن کی طرف نبی نوع انسان کا بہاﺅ ہے ۔یہ دو مختلف جگہیں ہیں جہاں خدائی رحمت اور عذاب آشکارہ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا ئنات کو جھنجھوڑ یں گے تو دونوں( جنت اور جہنم)مکینوںسے بھر جائیں گے ۔

اس دنیا سے ظالم اس طرح رخصت ہوگا کہ اس کے ظلم وجبر میں کمی نہیں آئی ہوگی اور مظلوم مظالم تلے دبا ہوگا ۔یہ تمام مظالم اور زیادتیاں سب سے بڑے منصف کے حضور پیش کی جائیں گی کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات انہیں نظر انداز کرے تو وہ نا انصاف اور نا مکمل ہوگی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ قصور وار کو اس دنیا میں بھی سزا دیتا ہے ۔ماضی میں نافرمانوں پر نازل کردہ عذاب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مرضی سے سبق سکھا سکتا ہے لہٰذا جس طرح قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے ۔

”اور اے مجرمو! آج تم چھٹ کر الگ ہوجاﺅ ۔“ (36:59(

اللہ تعالیٰ کے انصاف کی جامعیت کا تقاضا ہے کہ اگلے جہان میں اچھائی اور برائی میں تمیز کرتے ہوئے ہر گروہ کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق سلوک کیا جائے ۔

مخلوقات میں ہمارا مقام سب سے جدا ہے کیونکہ ہمارے وجود میں کائنات کے مختلف پہلو موجود ہیں۔ہمارے عقلی اور روحانی پہلو فرشتوں والی خصوصیات اور روحانی دنیا کو ظاہر کرتے ہیں جو کہ غیر مادی حالت کی علامت ہیں لیکن سیکھنے کی پیدائشی صلاحیت اور آزادی عمل کی بدولت ہم فرشتوں سے بھی آگے نکل سکتے ہیں ہمارا جسمانی وجود نباتات اور حیوانات کی خصوصیات ظاہر کرتا ہے ۔ اگرچہ کہ ہم زمان ومکان کی قید میں ہیں اس کے باوجود ہماری روحانی اور دیگر طاقتیں ہمیں اس قید سے نکلنے کا موقع دیتی ہیں ۔ دیگر مخلوقات کے مقابلے میں اعلیٰ اور بر تر ہونے کے باوجود ہم میں سے بعض پیدائش کے وقت اور بعض جوانی میں ہی فوت ہوجاتے ہیں اس کے باوجود ہم ابدیت اور ابدی زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں اور ہمارے بعض احساسات اس سے کم پر راضی نہیں ہوتے ۔اگر ہمیں اس دنیا کی زندگی میں شدید مصائب کے بعد ابدی زندگی یا اس دنیا میں پر آسائش زندگی کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہونے میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنے دیا جائے تو غالباً ہم اول الذکر کا انتخاب کریں گے حتیٰ کہ ممکن ہے کہ ہم فنا ہونے کی نسبت جہنم کی ابدی زندگی کو بھی چن لیں ۔

اللہ تعالیٰ جوکہ انتہائی مہربان اور دانش والا ہے ، ہمیں فنا ہونے نہیں دے گا اور نہ ہی اس نے ہمارے اندر ابدیت کی ایسی خواہش رکھی جسے پورا کرنے کیلئے ہمیں شدید مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ابدی دنیا کی تخلیق کی ۔

یہ دنیا کسی فرد کی حقیقی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔ اگر چہ کہ ہمارا جسمانی وجود نسبتاً بہت مختصر ہے اس کے باوجود ہماری ذہنی اور روحانی صلاحیت پوری کائنات کا احاطہ کرسکتی ہے ۔ہمارے اعمال صرف اس دنیا تک محدود نہیں ہیں اسلئے انہیں زمان اور مکان کی حد میں قید نہیں کیا جاسکتا ۔ہماری فطرت اس قدر آفاقی ہے کہ دنیا کے پہلے انسان کے اعمال آخری انسان کی زندگی اور پورے عالم کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ انسان کو جسمانی وجود ،انتہائی مختصر زندگی ،مختصر دائرہ عمل تک محدود کرنا انسان کے اصل مقصد کے حوالے سے مکمل لا علمی اور سمجھ بوجھ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس دنیا کے پیمانے انبیاءاور ان کی کامیابیوں کو یا ان تباہیوں کو جو فرعون ہٹلر یا سٹالن جیسے انسانوں نے بر پاکیں نہیں ناپ سکتے اور نہ ہی دنیا کے پیمانے خالص ایمان اور روحانی خصوصیات کو ناپ سکتے ہیں ۔ اللہ کی راہ میں یا دوسرے انسانوں کیلئے شہید ہونے والے یا انصاف اور سچائی جیسی انسانی اقدار کیلئے شہید ہونے والے کے لئے جائز انعام کیا ہے یا خدا کو ماننے والے ایک سائنسدان کو کیا انعام دیا جاسکتا ہے جس کی پر خلوص اور انتھک تحقیق کے نتائج رہتی دنیا تک انسان کو فائدہ پہنچائیں ؟

صرف اگلی دنیا کے پیمانے جوکہ ذرہ برابر خیرو شر کو بھی ناپ سکتے ہیں ہمارے اعمال کا درست وزن کر سکتے ہیں قرآن میں آتا ہے ۔

”قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا جس کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں ۔“ (21:47)

اگر حیات بعد الموت کی ضرورت اور کسی وجہ سے نہ ہو تب بھی ہمارے اعمال کے حساب کیلئے یہ ضروری ہے تاکہ کامل انصاف قائم کیا جاسکے ۔

اگر چہ کہ خدا ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے اس کے باوجود اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔ اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو اسی کی دانائی اور حکمت حیات بعد الموت کی متقاضی ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں درج ذیل سوالات کے جوابات دینے ہوں گے ۔ کیا اس چیز کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ اللہ بزرگ وبرتر جس کی حاکمیت پوری کائنات پر ایک مکمل اور باترتیب نظام مقصد یت ،وانصاف اور توازن کی صورت میں ظاہر ہے ایمان والوں کو آخرت میں انعام نہیں دے گا ۔انہیںجو اللہ سے پناہ مانگتے ہیں جو اس کی حکمت اور انصاف پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی کی عبادت کے ذریعے اطاعت کا اظہار کرتے ہیں ۔کیا وہ ان نافر مانوں کو اس کی نشانیوں کو نظر انداز کرنے والوں کو جو اس کی حکمت اور انصاف کا انکار کرتے ہیں سزا کے بغیر چھوڑ دے گا ؟ اس فانی دنیا میں اس کی حکمت اور انصاف کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہے اس لئے اکثر بے اعتقاد سزا کے بغیر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اور اکثر اہل ایمان کو اس دنیا میں جزا نہیں ملتی ۔ اس لئے انصاف خداوندی روز آخرت میں لگنے والی عظیم تر عدالت تک موخر کر دیاگیا ہے وہاں ہمیں پورا پورا انعام یا سزا ملے گی ۔

المختصر ،ہمیں ایک آفاقی مقصد کے تحت پیدا کیاگیا ۔اس بات کا ذکر قران میں بھی موجود ہے :

”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول میں پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف نہیں پلٹنا ہے ۔پس بالا وبرتر ہے اللہ پادشاہ حقیقی کوئی خدا اس کے سوا نہیں مالک ہے عرش بزرگ کا ۔“ (23:115-16)

ہمیں محض کھیل تماشے کیلئے پیدا نہیں کیا گیا اور نہ ہی قبر میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فنا ہونا ہمارا مقدر ہے بلکہ ہمیں ایک ابدی زندگی کیلئے پیدا کیاگیا جسکا دار ومدار ہمارے اعمال پر ہوگا۔ جو لازوال حسن اور رحمت یعنی جنت کی شکل میں یا کرب وسزا یعنی جہنم کی صورت میں ہوگی ۔