کیااماں حواء حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیداہوئیں؟

انسان کسی ارتقا کانتیجہ نہیں،بلکہ اس کی تخلیق ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ہوئی ہے۔اس کا ظہور دوسری انواع کے ارتقا کے نتیجے میں ہوا،نہ اس کی خصوصیات ارتقائی مراحل کانتیجہ ہیں اور نہ ہی وہ خود فطری انتخاب کا نتیجہ ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی حیثیت سے اس کی تخلیق فرمائی ہے۔انسانی تخلیق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق کی مانندمعجزہ ہے،جس کی اسباب کی روشنی میں کوئی توجیہہ پیش کرناممکن نہیں،ابھی تک علمائے طبیعیات اورماہرین ارتقا زندگی کے ظہورپذیرہونے کی کیفیت کی مثبت اور صحیح اندازسے وضاحت نہیں کرسکے۔اس سلسلے میں انہوں نے جو نظریات پیش کیے ہیں ان کی بنیادیں کھوکھلی اور کمزور ہیں۔وہ کسی صحیح سائنسی بنیادپرقائم نہیں۔کڑے تنقیدی جائزوں کے نتیجے میں ان کی بے مائیگی واضح ہوچکی ہے۔اس موضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں۔

جب ہم اسباب کے دائرے میں اس موضوع پرگفتگوکرتے ہیں توہم ‘‘علت و معلول’’، ‘‘سبب اور مسبب’’اور‘‘علت کی مناسبت’’کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں،مثلاًہم کہتے ہیں کہ مشیت خداوندی کے بعد ایک چھوٹے سے بیج سے ایک قدآور درخت کے نشوونما پانے کے لیے مخصوص شرائط مثلاًمناسب آب و ہوا اور اچھی زمین کے ساتھ ساتھ بیج میں عناصرِحیات کاپایاجاناضروری ہے۔جب یہ تمام اسباب جمع ہو جاتے ہیں تو‘‘علت تامہ’’وجودمیں آتی ہے، جومعلول کے ظہورپذیرہونے کا باعث بنتی ہے،دوسرے لفظوں میں یہ اسباب اذنِ خداوندی سے بیج سے درخت اورانڈے سے چوزے کے پیداہونے کاذریعہ بنتے ہیں۔

پہلے انسان کی تخلیق ایک معجزہ ہے۔سبب اورمسبب کے پہلوسے ہم اس موضوع کادرج ذیل طریقے سے تجزیہ کرسکتے ہیں:

فرض کریں ہم ایک جانورسے دوسراجانورحاصل کرناچاہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہم نے پرندے اور مرغی نیزگھوڑی اور درازگوش میں جنسی ملاپ کرایا۔پہلی صورت میں کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا،جبکہ دوسری صورت میں خچرکی صورت میں ایک ایسا بانجھ جانورحاصل ہوا جو اپنی نسل کوجاری رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے،اس لیے ثابت ہوتاہے کہ علت ناقص تھی، دوسرے لفظوں میں‘‘علت کی مناسبت’’کے اصول کے تحت نتیجے تک پہنچنے میں کہیں کوتاہی ہوئی ہے،لیکن دوسری طرف مرداورعورت کے جنسی ملاپ کے نتیجے میں ایک کامل انسان وجودمیں آتاہے،کیونکہ عورت کے رحم میں مردکے ‘‘سپرم’’کے عورت کے ‘‘بیضہ’’کے ساتھ ملاپ کے وقت تمام اسباب مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں اورجنین اذنِ خداوندی اورمشیت الہٰیہ سے نشوونماپاتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتاہے اوربلاآخر ماں کے پیٹ سے اس عالم رنگ و بومیں آجاتاہے،دوسرے لفظوں میں تمام اسباب کے بیک وقت پائے جانے کی وجہ سے ہمیں حسبِ توقع نتائج حاصل ہوجاتے ہیں،گو اللہ تعالیٰ اس نظام کوتبدیل کرنے پربھی قدرت رکھتے ہیں اور بچے کوکسی دوسرے طریقے سے بھی پیدافرماسکتے ہیں۔{qluetip title=[1]}(۱) جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت۔(عربی مترجم){/qluetip}

یہ بات تواسباب کی حد تک تھی،لیکن جب کوئی واقعہ سبب و مسبب اورعلت و معلول کے دائرے سے باہرپیش آئے تواسے ارتقا اورفطری انتخاب کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے اسی صورت میں قبول کرناچاہیے،جس صورت میں اس کے وقوع پذیرہونے کی اللہ اوراس کے رسول نے ہمیں اطلاع دی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتے ہیں کہ زیرغور موضوع سے متعلق بعض معجزات بھی رونما ہوئے ہیں،جن کی کوئی عقلی یاسائنسی توجیہہ پیش کرنے سے ہم قاصرہیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے معجزانہ طورپرپیدافرمایا،جس سے ثابت ہوتاہے کہ اگراللہ تعالیٰ چاہیں توکسی بھی جاندار کو بغیر باپ یا بغیر ماں یا بغیر ماں باپ کے پیدا فرما سکتے ہیں،ایسے مواقع پر اسباب کی کڑیاں نہیں ملائی جا سکتیں۔قرآن کریم چیلنج کرتے ہوئے کہتاہے:﴿قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْفَ بَدَأ الْخَلْقَ﴾(العنکبوت:۲۰)‘‘کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے۔’’ کیونکہ عدم سے تخلیق کرنے کی کوئی سائنسی توجیہہ ممکن نہیں۔

اسی سے ملتی جلتی صورتِ حال حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کی ہے،جو ایک مستقل معجزہ ہے،کیونکہ اس صورتِ حال کی اسباب کے دائرے میں توجیہہ ممکن نہیں ہے،تاہم کسی چیزکومحض ناقابل توجیہہ ہونے کی بنیادپررد نہیں کیاجاسکتا،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بھی یہی صورتحال ہے:﴿إِنَّ مَثَلَ عِیْسَی عِندَ اللّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُون﴾(آلِ عمران:۵۹)‘‘عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے پہلے مٹی سے ان کو بنایا پھر فرمایا باشعور انسان ہو جا تو وہ ویسے ہی ہو گئے۔’’انسانیت تخلیق کے آغازکی حقیقت کوفراموش کر چکی تھی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت نے اس بھولی ہوئی حقیقت کو پھر سے انسانیت کے ذہن نشین کرایا۔

اب ہم حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔میرے خیال میں اس موضوع سے متعلق اور بھی سوالات ذہنوں میں جنم لیتے ہیں، مثلاًحضرت حواء علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی سب سے چھوٹی پسلی سے کیوں پیدا کیا گیا؟ پھر پسلی کا ہی انتخاب کیوں ہوا؟ نیز انہیں حضرت آدم علیہ السلام سے ہی کیوں پیداکیاگیا؟

تاہم سب سے پہلے میں آپ کی توجہ ایک اہم پہلو کی طرف مبذول کرانا مناسب خیال کرتاہوں، وہ یہ کہ انسان کے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے پراس کثرت سے مضبوط دلائل موجودہیں کہ انہیں ردکرناممکن نہیں۔یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کے وجود کی بھی کھلی دلیل ہے اورکائنات میں جاری قوانین،نظم ونسق اوراصول ومبادی اس حقیقت پر شاہدہیں،نیزانسان کی حقیقت،اس کی باطنی کیفیات،دل اور ابھی تک پردۂ خفا میں موجود دیگر لطائف بھی وجودِ باری تعالیٰ کی طرف مشیرہیں۔اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہزاروں مضبوط دلائل موجودہیں۔فلاسفہ،مفکرین اور علمائے کرام میں سے جس نے بھی ان دلائل کاسہارا لیاہے،وہ سلامتی کے ساحل پرجاپہنچا۔اگرآپ کے پاس ایسے ایک ہزار دلائل موجود ہوں تو آپ کا موقف کس قدر مضبوط ہو گا۔

آج بعض منکرینِ خدا اور بے دین لوگ ان تمام دلائل سے صر فِ نظر کر کے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش کو انکارِخدا اوربے دینی کے جواز کی دلیل کے طورپرپیش کرتے ہیں۔ایک عظیم مرشد{qluetip title=[(۲)]}(۲) بدیع الزمان سعید نورسی مرادہیں۔(عربی مترجم){/qluetip} ایسے لوگوں کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اے دوست!دراصل تمہارے دل میں اندھاپن ہے،جوآفتابِ حقیقت کے مشاہدے میں رکاوٹ ہے۔’’مشاہدے اورتجربے سے ثابت ہے کہ اگر اس قسم کے اندھے پن میں مبتلا لوگ کسی ماہرتعمیرات کے بنائے ہوئے عالیشان محل کو دیکھیں اور اس محل کے وجود پر بے شمار دلائل موجود ہوں،لیکن اگر انہیں اس محل میں کوئی ایک چھوٹا سا پتھر بھی غیرمتوازن صورت میں پڑا ہوا ملے تو وہ سرے سے محل کے وجود کا ہی انکار کردیتے ہیں۔اس سے ان کی جہالت،حماقت اور تخریبی ذہنیت کااندازہ ہوتا ہے۔‘‘یہ اندھی تقلید،بغیردلیل کے رائے قائم کرنے اور عقل و دانش کے فقدان کے سوا کچھ نہیں۔انفس و آفاق میں وجودِ باری تعالیٰ پرہزاروں دلائل کے ہوتے ہوئے اس قسم کی یک طرفہ سوچ رکھناکیا واضح غلطی نہیں ہے؟‘‘ پسلی سے پیدائش کاتذکرہ صحیح بخاری،صحیح مسلم اورمسنداحمدبن حنبل کی روایات میں موجود ہے۔ کتبِ حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش کے تذکرے کے علاوہ سورتِ نساء میں مذکورہے:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا﴾(النساء:۱)‘‘اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو،جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا یعنی اول اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں ضمیر ‘‘ھاء’’ آدم کی بجائے ‘‘النفس’’ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ایک اورآیت مبارکہ میں بھی یہ بات واضح طورپردکھائی دے رہی ہے:﴿خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا﴾(الزمر:۶) ‘‘اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘

یہ تعبیرقابل غورہے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی ذات کی بجائے ان کی ماہیت سے پیداکیا ہے۔یہ بہت باریک نکتہ ہے۔نفسِ آدم ماہیت آدم سے مختلف چیزہے،مثلاًانسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی لمبائی،وزن اور خدوخال ایسے ایسے ہیں،نیزاس کی ایک ماہیت،ظاہری عالم،باطنی عالم،فکراوراللہ تعالیٰ سے قرب یا بُعدہے۔جب انسان کو ذات کی حیثیت سے زیربحث لایاگیاہے تو اسے ماہیت کی حیثیت سے بھی زیربحث لایا جاناچاہیے،کیونکہ پہلی حیثیت تومحض اس کی ظاہری ہیئت سے عبارت ہے۔اس اعتبار سے ان کی ذات اورنفس ایک ہی چیزکے دو نام ہیں اوران کا جسم ان سے مختلف اوردوسری چیزہے۔قرآنِ کریم حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کے موضوع پرگفتگوکرتے ہوئے کہتاہے کہ ان کی تخلیق آدم کے نفس سے ہوئی ہے نہ کہ آدم سے۔

چونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث تواتر سے ثابت نہیں،بلکہ اخبارِاحادہیں،اس لیے ضروری ہے کہ ان کے مفہوم کا تعین قرآنی آیات کی روشنی میں کیاجائے۔آیات و احادیث کی تشریح و توضیح کے سلسلے میں یہ ایک اہم اصول ہے۔چونکہ زیربحث آیت مبارکہ متواتربھی ہے اوراللہ تعالیٰ کاکلام بھی ہے، اس لیے حدیث نبوی کے مبہم پہلوؤں کی وضاحت کے لیے آیت مبارکہ کی طرف رجوع کرناضروری ہے،نیزاس حدیث کے سیاق و سباق اورپس منظرسے واقفیت بھی ناگزیرہے۔

ارشادنبوی ہے:‘‘جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے،وہ اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ پہنچائے،عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کو قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔پسلی کاسب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والاحصہ ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگوگے تواسے توڑبیٹھوگے اوراگراسے یوں ہی چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔عورتوں کے بارے میں خیرخواہی کی نصیحت کوقبول کرو۔’’{qluetip title=[(۳)]}(۳) البخاری، النکاح،۸۰.{/qluetip} اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصدعورتوں کی تربیت اور گھر کے نظم ونسق کے بارے میں بتانا ہے،لہٰذا اگرآپ جلدی میں عورت کی اصلاح کی کوشش کریں گے توآپ اسے توڑ بیٹھیں گے اور اگر آپ نے اس کی اصلاح کو نظرانداز کر دیا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے آپﷺنے ایک بہت اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے،وہ یہ کہ عورتوں میں مردوں کی بہ نسبت کج روی کے پیداہونے کازیادہ امکان ہوتاہے،نیز نازک مزاج ہونے کی وجہ سے ان میں شکستگی کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت حدیث شریف کااصل مقصدحضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حواء علیہا السلام کی تخلیق کی وضاحت کرنانہیں ہے،بلکہ اس طرف اشارہ کرناہے کہ اگر عورت کو اپنے حال پرچھوڑدیاجائے تواس میں کج روی باقی رہتی ہے اوراگراسے جلدبازی میں سیدھاکرنے کی کوشش کی جائے تو اس کانتیجہ شکستگی کی صورت میں نکلتا ہے۔

مفہوم کی اس تعبیر میں حکمت پوشیدہ ہے۔رسول اللہﷺنے حدیث پاک میں ’’من ضلع‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔عربی زبان میں‘‘من’’ کا لفظ کبھی توتبعیض یعنی جزئیت پر دلالت کرنے کے لیے آتاہے اور کبھی‘‘بیان’’ یعنی جنس کی وضاحت کے لیے آتاہے، لہٰذاچونکہ رسول اللہﷺنے اس موضوع پر کوئی واضح موقف اختیارنہیں فرمایا،اس لیے اس تعبیر کی مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں۔

ذخیرۂ احادیث میں اس کی اور بھی بہت سے مثالیں ملتی ہیں،مثلاًارشادِنبوی ہے: ‘‘لا تصلوا فی مبارک الابل،فانہا من الشیاطین’’{qluetip title=[(۴)]}(۴) فیض القدیر،جلددوم،حدیث نمبر: ۱۹۴۸.{/qluetip} ‘‘اونٹوں کے باڑے میں نمازمت پڑھو،کیونکہ وہ شیاطین میں سے ہے۔’’جب رسول اللہﷺانسانوں کی طرح جانوروں کے لیے بھی شیاطین کا ہونا بتاتے ہیں تواس سے رسول اللہﷺکا مقصود یہ ہوتا ہے کہ جانور بعض اوقات شیطانی کام کرتے ہیں،یعنی ہمیں شیطانی تصرف سے آگاہ کرنا مقصود ہوتاہے۔جب ہم کسی بے حس اور موٹی عقل کے انسان کے بارے میں کہتے ہیں: ‘‘ھذا الرجل مخلوق من خطب’’ (یہ شخص لکڑی کابناہواہے۔) توہمارا مقصود یہ بتانا نہیں ہوتا کہ وہ واقعی لکڑی کا بنا ہوا ہے،بلکہ ہم مجازاً اس کی بے حسی،شعور کی کمی اور جذبات کی پژمردگی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں،اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص شیطان ہے توہم اس طرف اشارہ کرناچاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کوبہکاتا،گمراہ کرتا اور گناہوں کے راستے پرڈالتاہے۔

اب ہم آیت مبارکہ کی روشنی میں اس حدیث نبوی پرغورکرتے ہیں۔عورت کے آدم کی پسلی سے جنم لینے کامطلب یہ ہے کہ عورت آدم کا جوڑ اور اس کی ہم جنس ہے اور دونوں کے موروثی خواص ایک جیسے ہیں۔اگر مرد اورعورت کی جنس ایک نہ ہوتی توان کے درمیان توالدوتناسل کاسلسلہ نہ چل سکتا،کیونکہ آیت مبارکہ میں آگے چل کر ہے:﴿وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء﴾(النساء:۱)’’پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کر کے روئے زمین پر پھیلا دئیے۔‘‘یعنی اگردونوں کی جنس مختلف ہوتی تو ان کے درمیان توالدوتناسل کاسلسلہ جاری نہ ہوتا،اس لئے دونوں کا ہم جنس ہونا ناگزیر تھا۔حدیث میں مذکور لفظ ’’ضلع‘‘میں کج روی کی بہ نسبت کج روی کی طرف میلان اورسہولت سے کج روی کے پیداہونے کامفہوم زیادہ پایاجاتاہے۔

عورت کے مرد کی بہ نسبت کج روی کی طرف زیادہ مائل ہونے کی تعبیر کو رسول اللہﷺ نے بڑے اہتمام سے اختیارفرمایاہے۔اس معاملے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں،کیونکہ عملی صورت حال اس پرشاہد ہے۔غافل اورگمراہ لوگ دوسروں کوبہکانے کے لیے عورتوں کو آلہ کار کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔بیسویں صدی میں توعورت کو اس قدراستعمال کیاگیاہے کہ پہلے کبھی بھی اسے اس قدراستعمال نہیں کیاگیا۔اشتہارات کو مؤثر بنانے کے لیے اکثر اشتہارات میں عورت کااستعمال اور اسے آلہ کار بنانا حدیث شریف میں وارد عورت کے ضعف کی وجہ سے ہی ہے اوراس کی دلیل بھی ہے۔ بھلاگاڑیوں کے ماڈلوں،باتھ ٹپ اور حمام کے سامان،کٹے ہوئے گوشت اور ہام برگر کی تشہیر میں عورت کی تصویروں کے استعمال کا کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟عورت اور ان اشیاء کے درمیان آخرکیاتعلق ہے؟رسول اللہﷺنے ہمیں بتایاہے کہ عورت مردکے سب سے ٹیڑھے حصے سے پیدا ہوئی ہے۔عورت کادورحاضرمیں گمراہ لوگوں کے ہاتھوں میں آلہ کار بننا اس بات کی تائید ہے۔عورت نوع انسانی کے سب سے زیادہ ٹیڑھے پہلوؤں کی علامت بن چکی ہے۔بلاشبہ اس بات کی وضاحت کے لیے اس سے بہترتعبیر اختیارنہیں کی جاسکتی تھی۔

آئیے اس موضوع کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھتے ہیں۔تورات کے سفرتکوین میں واضح طورپرمذکورہے کہ حضرت حواء علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے پہلو سے پیدا کیا گیا ہے۔اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ایک معجزہ تھی اورجب حضرت آدم علیہ السلام ابھی آب و گل کی درمیانی کیفیت میں تھے،اس وقت اماں حواء کی تخلیق کے لیے ان کے جسم کے کسی حصے سے کچھ اجزاء لینے میں کوئی تعجب کی بات نہیں،کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام اوراماں حضرت حواء علیہا السلام دونوں پہلی تخلیق کامعجزانہ مظہرتھے۔

اس پہلی تخلیق کے بارے میں سائنس کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کر سکتی۔ وہ اس کی حقیقت تک رسائی پانے سے عاجز ہے،کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ہربات کو تسلیم کرتے ہوئے اس تخلیق کو ایک معجزہ مانتے ہیں،لیکن ہم اسے بغیردلیل کے تسلیم نہیں کرتے،بلکہ ایٹم سے لے کرپوری کائنات تک ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کے ارادے ،حکم اور علم کامشاہدہ کرنے کے بعد اس پرایمان رکھتے ہیں،دوسرے لفظوں میں ہم اس بات کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں۔واللہ اعلم