جنگ موتہ

صلح حدیبیہ کے بعد ایک طرح سے امن وامان کی فضا قائم ہوگئی ،لہذا آپ صلى الله عليه و سلم نے ہمسایہ ریاستوں کے حکم رانوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط ارسال کیے ۔بصری [جسے اب بلقان کہاجاتاہے۔یہ اس وقت شام کا علاقہ تھا، لیکن اب اردن میں شامل ہے]کے حاکم شرحبیل [غسانی ]نے ،جوایک عرب عیسائی تھا، حضور صلى الله عليه و سلم کے قاصد حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔یہ ایک ایسابدترین جرم تھا،جوبین الاقواجمی اخلاقیات اوراسلام کے وقار کے پیش نظر ہر دوصورتوں میں ناقابل معافی جرم تھا۔اس سے صرف نظر کی صورت میں دیگر حکم رانوں کوبھی شہ مل سکتی تھی ۔

رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے زید بن حارثہ کی قیادت می تین ہزار کالشکر تیار کیا۔آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایاکہ اگر زید شہید کردیے جائیں توجعفربن ابی طالب سپہ سالار ہوں گے اور اگر یہ بھی شہید ہوگئے تو عبد اللہ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے ۔ پھر اگر یہ بھی قتل کردیے جائیں تو اپنے میں سے کسی کو اپنا سپہ سالارچن لینا۔

جب مسلمان [شام کے ایک مشہور شہر]موتہ پہنچے توانھیں ایک لاکھ رومیوں کا سامنا تھا۔یقینا یہ ایک ہول ناک لڑائی تھی ،جس میں تیس رومیوں کے مقابد میں ایک مجاہدکو میدان میں اترناتھا ۔اس دوران حضور صلى الله عليه و سلم ان صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے ، جوکسی وجہ سے جنگ میں شرکت نہ کرسکے تھے ۔

زید نے علم بلندکیااور دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور جب [جرات وشجاعت سے لڑتے ہوئے ]شہید ہوگئے تو علم جعفر بن ابی طالب نے سنبھال لیا۔جب وہ بھی شہدت سے سرفراز ہوگئے تو عبد اللہ بن رواحہ آگے بڑھے ۔جب انھیں بھی شہید کردیاگیاتوجھنڈااللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار[یعنی خالد بن ولید ]نے تھام لیا۔ ۴

ایک موقع پر حضور صلى الله عليه و سلم نے خالد بن ولید کو'سیف اللہ'کے خطاب سے نوازاتھا۔۵ تب سے انھیں اسی نام سے پکار اجانے لگا۔جب رات ہوئی تو خالد بن ولید نے اگلی صف کو پچھلی صف کی جگہ اور عقبی صف کومقابل صف کے مقام پر متعین کیااور اسی طرح دائیں اوربائیں جانب کے دستوں کو باہم بدل دیا۔ صبح کو اپنے مدمقابل نئی صورت حال دیکھ کر رومی افواج کے حوصلے پست ہوگئے ۔انھیں خیال گزرا کہ مسلمانوں کوتازہ کمک پہنچ چکی ہے ۔[اس حکمت عملی سے مسلمان دشمن کو خوف زدہ کرنے میں کام یاب ہوگئے ]رات ہوئی تو فریقین ایک دوسرے سے فاصلہ بڑھانے لگے اور یوں دونوں لشکرپسپا ہوگئے ۔اس معرکے میں صرف بارہ مسلمان شہید ہوئے ۔

اسلامی لشکر مدینہ روانہ ہوا تو بظاہر فتح کے باوجود ان کے دل میں یہ بات بھی تھی کہ انھوں نے پسپائی اختیارکی ہے ،لہذا وہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم کی خدمت میں پیش ہونے سے ہچکچارہے تھے ،تاہم آپ صلى الله عليه و سلم نے ان کا استقبال کیا اورفرمایا۔ 'تم بھاگے ہوئے نہیں ہو، تم نے تو مجھ سے آن ملنے کے لیے پسپائی اختیارکی اورہم کچھ عرصہ بعد دوبارہ دشمن کے مقابلے کوچلیں گے ۔'