نگران گشتی دستے

ان سنگین حالات میں نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے جنگی حکمت عملی کے تحت نگران گشتی دستوں کو مدینہ کے گردونواح کی طرف روانہ کیا ۔ان نگران فوجی دستوں کی روانگیکے پیش نظر درج ذیل مقاصد تھے :

ارشاد باری تعالی ہے:'یہ (کافر)چاہتے ہیں کہ اللہ (کے چراغ )کی روشنی میں منہ سے (پھونک مارکر)بجھادیں ، حالاں کہ اللہ اپنی روشنی کوپورا کرکے رہےگا۔' ۱ اس لیے آپ صلى الله عليه و سلم کفار کو یہ بتلادینا چاہتے تھے کہ اسلام ایک اٹل حیثیت ہے ،جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

جزیر ہ نما عرب میں طاقت کے اعتبارسے مکہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ، اسی وجہ سے دیگر قبائل اس سے وابستگی پر فخر محسوس کیاکرتے تھے ۔ان گشتی دستوں کی روانگی کا مقصد ایک طرف اسلام کی طاقت کا اظہار تھا اوردوسری جانب عرب سے قریش کے غلبے کے خاتمہ کا اشارہ ۔

انسانی تاریخ قوت کے غلبے کی داستان ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ صداقت اپنے طور پر دنیا پر غالب نہیں آسکتی ۔چودہ سوسال پہلے عرب میں بھی یہی صورت حال تھی۔ چوں کہ قریش قوت وثروت سے مالا مال تھے ، اس لیے دیگر قبائل ان کے اطاعت گزارتھے اور قریش کے دباؤ کی وجہ سے قبول اسلام سے گریزاں تھے ۔اسلام چوں کہ حق وصداقت کی بالادستی کے لیے آیا تھا،اس لیے قبائل پرقریش کے دباؤکو کم کرنے لیے آ پصلى الله عليه و سلم نے کئی نگران گشتی دستے ادھراُدھرکے علاقوں کی طرف روانہ کیے۔

دین اسلام کسی ایک دوریاقوم کے لیے نہیں ، بلکہ حضور صلى الله عليه و سلم کو رحمت اللعالمین بنا کربھیجا گیا تھا،اسی لیے آپ صلى الله عليه و سلم کو دنیابھر میں اللہ کاپیغام پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن چوں کہ ان فرائض کی انجام دہی کاآغاز عرب سے ہورہا تھا،لہذایہاں کی صورت حال سےپوری طرح باخبر ہونے کی ضرورت تھی ۔ان دستوں کی روانگی کاایک مقصداسی آگہی کاحصول تھا ،تاکہ تبلیغ دین کی راہ ہموار کی جاسکے ۔

دشمن کی بیخ کئی کے لیے موثر ترین طریق کار یہی ہے کہ اس کی صفوں میں انتشار پھیلادیاجائے ،پیش بندی کی جائے اور حملہ کرنے میں ہمیشہ پہل کی جائے ۔ رئیس المنافقین کے قریش سے بڑھتے ہوئے روابط اور اہل مکہ کی اپنے ناپاک عزائم کی ناکامی کے بعد مدینہ پر ممکنہ حملے سے نبی کریم صلى الله عليه و سلم بہ خوبی آگاہ تھے ۔اسی اثنا میں قریش کے ایک فوجی دستے نے مدینے کے قریب ایک چراگاہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کے اونٹ چرالیے تھے،لہذا حضورصلى الله عليه و سلم ان دستوں کی نقل وحرکت سے قریش کویہ بتلا دینا چاہتے تھے کہ مدینہ پراچانک حملے کاخواب کبھی شرمند ہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔

قریش کی معیشت کاانحصار بین الاقوامی تجارت پر تھا۔ان کے تجارتی قافلے شام و یمن کی طرف جاتے تھے،لہذا ان دونوں راستوں کا محفوظ رہنا ان کی معاشی بقا کے لیے بے حد ضرور تھا ،تاہم مدینہ کے جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نبی اکرم صلى الله عليه و سلم نے ان کی معاشی سہ رگ کو دبوچنے کافیصلہ کیا۔اس سے ایک طرف اسلام کو قوت کے طورپر تسلیم کرلیاگیا اوردوسری جانب کفار کے ارادے خاک میں مل گئے، جن کے تحت وہ مسلمانوں کونیست ونابود کردینا چاہتے تھے ۔

اسلام جان ومال کی سلامتی کا ضامن ہے ۔اس کے احکامات جسمانی،ذہنی وروحانی تندرستی کی حفاظت ،عزت ووقار کے تحفظ اورایمان کی سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں ، تاہم قتل ،چوری ،ڈاکازنی ،لوٹ کھسوٹ ،استحصال ،سود،جوا ،شراب ،حرام کاری،فتنہ اور شرک کی اشاعت سے سختی سے منع کرتاہے ۔ایمان کا مفہوم ہی 'سلامتی دینا' ہے ،لہذا مومن کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ نہ جھوٹا ہےھ اورنہ ہی عہد شکن اور نہ ہی کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔وہ سٹے بازی اورسودی لین دین کے ساتھ ساتھ ناجائز ذرائع آمدن پر بھی یقین نہیں رکھتا۔اسے جتلادیاگیا ہے کہ ایک انسان کاقتل حقیقت میں انسانیت کے قتل کے مترادف ہے ۔

حضور صلى الله عليه و سلم کی بعثت کے وقت عرب میں کسی کی جان ومال محفوظ تھے اورنہ عزت وناموس ،حتی کہ ایمان وعقائد جیسی غیر مرئی چیز کو بھی تحفظ حاصل نہیں تھا ۔ آپ صلى الله عليه و سلم کی بعثت ہی زندگی کے ہر گوشےمیں سلامتی کی ضامن قرار پائی ۔ایک دفعہ عدی بن خاتم سے آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'ایک دن آئے گا کہ زیورات سے لدی بندھی ایک عورت حراسے مکہ کی طرف بے خوف وخطر سفر کرےگی اوراسے سوائے اللہ اور جنگلی درندوں کے کسی سے کوئی خدشہ نہ ہوگا۔۲

مدینہ کے گر دونواح میں نگران دستوں کا ایک مقصد توریاستی استحکام تھااوردوسرا یہ کہ دوست دشمن سب پر یہ حقیقت عیاں ہوجائے کہ عرب میں اگر کوئی سلامتی کاضامن ہے توصرف اسلام ہے ۔