محبت

محبت ہر ذی روح کا انتہائی اہم عنصر ہے یہ سب سے زیادہ چمکدار ، روشن اور طاقتور ترین چیز ہے جو باقی سب چیزوں کو روک کر ان پر حاوی ہو سکتی ہے۔ محبت ہر اس روح کو بلندی عطا کرتی ہے جو اسے اپنے اندر جذب کرے اور اس کی روح کو ابدی سفر کیلئے تیار کرتی ہے۔ وہ ارواح جو محبت کے توسط سے ابدیت تک پہنچ جاتی ہیں وہ اس ابدیت سے جو کچھ حاصل کرتی ہیں اس کو باقی ارواح میں جا گزیں کرنے کیلئے انتھک کوشش کرتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو اس مقدس فریضے میں صرف کردیتی ہیں وہ فریضہ جس کی خاطر وہ ہر طرح کی صعوبتوں کو برداشت کرتی ہیں اور جس طرح وہ اپنی زندگی کے آخر ی سانس کے ساتھ لفظ "محبت" ادا کرتی ہیں اسی طرح قیامت کے دن اٹھتے وقت بھی ان کی سانسوں میں "محبت" ہی ہوگی۔

وہ ارواح جو محبت سے عاری ہوں ان کا انسانی تکمیل کے آفاق تک پہونچنا ناممکن ہو تا ہے۔ اگر چہ وہ سینکڑوں برس تک زندہ رہیں وہ تکمیل کی راہ میں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ جو محبت سے محروم ہیں یعنی جو خود غرضی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں وہ کسی سے محبت نہیں کر سکتے اور اس حالت میں مر تے ہیں کہ ان کو محبت کا کچھ پتہ نہیں ہو تا حالانکہ یہ تو ہر ذی روح جاندار کے اندر گہرائی میں ودیعت کی ہوئی چیز ہے۔

بچے کا پیدائش کے وقت محبت کے ساتھ استقبال کیا جا تاہے اور وہ اسی الفت کی گردش اور محبت والی ارواح کی فضا میں پرورش پاتا رہتا ہے۔ چاہے زندگی کے آخری حصے میں بچے اس درجہ کی محبت نہ بھی پائیں تب بھی وہ اس بچپن والی محبت کو ہمیشہ اپنے ساتھ پاتے ہیں اور عمر بھر اس کی جستجو کرتے ہیں۔

سورج کے دہانے پر محبت کے نشانات ہیں۔ سمندر کا پانی مائع بن کر ان نشانات کو پانے اوپر کو اٹھتا ہے اور جب بلندی پر پہنچ کر قطرے کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو محبت کے پروں پر بیٹھ کر زمین پر خوشی سے گرتا ہے۔ پھر ہزاروں پھول اپنے ماحول پر تبسم بکھیرتے ہوئے خوشی سے پھٹ پڑتے ہیں۔ پتوں پر پڑےشبنم کےقطرے محبت سے دمکتے اور فرحت سے جھومتے ہیں۔ بھیڑیں اور دنبےمحبت کے مارے سامنے آتے اور چھپتے رہتے ہیں۔ پرندے اور مرغ محبت سے چہچہاتے اور اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔

کا ئنات کی ہر مخلوق اپنے مخصوص انداز میں محبت کے سرود خانوں میں شریک ہوتی ہے اور اپنی خوشی اور زبان حال سے اس گہری محبت کو جو اس کے وجود نے پائی ہوتی ہے اظہار کی کوشش کرتی ہے۔

محبت کا بیج انسان کی روح میں اس گہرائی سے بویا ہوا ہے کہ بہت سے لوگ اس کےحصول کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ دیتے ہیں۔ بہت سے خاندان اس کی خاطر برباد ہوتے ہیں۔ اور ہر طرف کوئی مجنون محبت کا پیغام لئے لیلی[1] کے انتظار میں کھڑا نظر آتا ہے۔ جو لوگ اپنے من میں محبت کو آشکار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے وہ اس طرح کی کاروائیوں کو پاگل پن سمجھتے ہیں۔

ایثار اعلی انسانی احساسات کا نام ہےجس کی بنیاد محبت ہوتی ہے۔ جتنا کسی کا محبت میں زیادہ حصہ ہے وہ انسانیت کا اتنا ہی بڑا ہیرو ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو نفرت اور شقاوت کو اپنے اندر سے نکال پھینکنےمیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔محبت کے یہ ہیرو موت کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ یہ مقدس ارواح جو اپنی اندر کی دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا چراغ روشن کرتی اور اپنے قلوب کو محبت اور ایثار کا ذریعہ بنا تی رہتی ہیں ان کا لوگ استقبال بھی کرتے ہیں اور ان سے پیار بھی کرتے ہیں۔ اور انہیں احکم الحا کمیں کی طرف سے ابدی حیات بھی عطا ہوتی ہے۔

ماں جو اپنے بچے کیلئے جان سے بھی گزر جاتی ہے وہ محبت کی ہیروئن ہوتی ہے، جو لوگ دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں انہیں "بے لوث رضاکار" قرار دیا جاتا ہے لیکن جن کا جینا مرنا انسانیت کیلئے ہوتا ہے انہیں ابدیت کے ایسے شاہکار کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے جنہیں انسانیت کے قلوب کا بے تاج بادشاہ کہن زیادہ مناسب ہو گا۔

انہی لوگوں کے ہاتھوں میں محبت ایک ایسی طلمساتی آب حیات اور کنجی بن جاتی ہے جس کے ذریعے سے ہر رکاوٹ عبور اور ہر بند دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔ جو اس طرح کے آب حیات اور کنجی کے حامل ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں میں 'عود دان 'لئے جلد یا بدیر دنیا کے سامنے آمن و آسائش کی خوشبو کے دروازے کھول دیں گے۔

انسانوں کے قلوب تک بالمشافہ پہنچنے کا راستہ محبت سے بنتا ہے وہ راستہ جو انبیاءکا راستہ ہے۔ جو اس راہ پر چلتے ہیں وہ شاذ ہی دھتکارے جاتے ہیں۔ اور اگر چند لاکھ انہیں دھتکاربھی دیں تو ہزاروں دوسرے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ جب ان کا محبت سے استقبال ہوتا ہے تو انہیں ان کے حتمی مقصد یعنی خد کی رضا کے حصول سے کوئی نہین روک سکتا ۔

کتنے خوش اور پر امن ہیں وہ لوگ جو محبت والی رہنمائی پر عمل کرتے ہیں۔ دوسری جانب کتنے بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے اندر کی گہری محبت سے غافل "بہروں گونگوں" والی زندگی گزار رہے ہیں۔

میرے رب کریم۱ آج جہاں نفرت و عداوت نے اندھیروں کی تہوں کی طرح ہر جگہ ڈیرے ڈال دیے۔ ہیں ہم تیری ابدی محبت کی پناہ مانگتے ہیں۔ اور تیرے در پر سرنگوں ہوتے ہوئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اپنے ظالم اور بے رحم بندوں کے دلوں میں محبت اور انسانی جذبات بھر دے!

انسانیت کی محبت[2]

محبت ایک آب حیات ہے۔ انسان محبت کے ساتھ جیتا ہے محبت سے خوش ہوتا ہے اور اپنے اردگرد رہنے والوں سے محبت کی کوشش کرتاہے۔ انسانیت کی قاموس میں محبت زندگی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو محبت ہی کے ذریعے جانچتے اور محسوس کرتے ہیں۔ خدا نے محبت سے زیادہ مضبوط کوئی رشتہ نہیں بنایا جو ایک ایسا سلسلہ ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم متصل کئے ہو ئے ہے۔حقیقت میں زمین محبت کے بغیر بنجر ہے۔ شہد کی مکھیوں، چیونٹیوں اور دیمک کی ایک ملکہ ہو تی ہے جس کا اپناتخت ہو تا ہے۔ بادشاہ اور ملکہ مختلف طریقوں سےحکومت میں آتے ہیں اور پھر تخت پر براجمان ہو جاتے ہیں۔محبت ایک ایسا بادشاہ ہے جو بغیرکسی طاقت کے استعمال کے ہمارے دلوں کے تک آ کر براجمان ہو جاتی ہے۔ زبان، ہو نٹ، آنکھیں، اور کان ان سب کی وقعت تب ہے جب یہ محبت کاعلم لئے ہوئے ہوں۔ لیکن محبت کی قدر بھی انہی چیزوں کی وجود سے ہے۔ دل جو محبت کی آما جگاہ ہے کی اس لئے قیمت نہیں لگائی جا سکتی کہ اس کے اندر محبت جو ہے۔ جب ان کے سامنے آکر محبت کے اعلام لہرا دیے جائیں تو بڑے بڑے قلعے خونریزی کے بغیر بھی فتح کئے جا سکتے ہیں۔ بادشاہوں کو جب محبت کے سپاہی فتح کر لیں تو ان کو بھی محبت کا سپاہی بنایا جا سکتا ہے۔

ہم نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی ہے جہاں محبت کی فتوحات ہمارے سامنے ہیں اور محبت کے ڈھولوں کی ٹھاپ ہمارے دلوں میں مو جزن ہے۔ جب ہم ٘محبت کے جھنڈے لہراتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل خوشی سے دھڑک جاتے ہیں ۔ ہم محبت کے ساتھ اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ ہماری زندگیاں محبت پر منحصر ہو کر رہ گئی ہیں اور ہم اپنا دل اسے دے چکے ہیں ۔ ہمارا جینا مرنا دونوں محبت کے ساتھ ہے ہم ہر سانس کے ساتھ اسکو اپنے وجود کے پاس پاتے ہیں یہ سردی میں ہمارے لئے گرمائش ہے اور گرمی میں نخلستان۔

اس حد سے زیادہ آلودہ دنیا میں جہاں ہر طرف برائی ہے اگر کوئی چیز صاف بچی ہے تو وہ محبت ہے۔ اس حیات کے ماند پڑتے زیورات میں سے اگر خوبصورتی نے اپنی اہمیت اور دلچسپی باقی رکھی ہے تو وہ محبت ہے۔ اس دنیا میں سب سے زیادہ واقعی اور تا دیر رہنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ محبت ہے۔ جب بھی محبت کی آواز، جو لوری سےبھی نرم اور گرم ہو تی ہے، سنی جاتی ہے تو دوسری ساری آوازیں، آلات خاموش ہو جاتے ہیں اور وہ سب مل کر ایک ایسی خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ ان کی اکثر دھنیں زنگ آلود معلوم ہوتی ہیں۔تخلیق محبت کی شمع کی "پہچاننے اور دیکھی جانے" چراغ کی بتی کے جلنے کا نتیجہ ہے اگر خدا کو مخلوق سے محبت نہ ہو تی تو نہ چاند ہو تا نہ سورج نہ ستارے۔ آسمان سارے ٘محبت کے نغمے ہیں جبکہ زمین ان کا قافیہ ہے۔ فطرت میں محبت کا عظیم پہلو ہے اور لوگوں کے درمیان تعلقات میں محبت کا لہراتا جھنڈا نظر آتا ہے۔ معاشرے میں اگر کوئی سکہ جو اپنا وجود رکھتا ہے تو وہ محبت ہے اور اسی طرح محبت کی قدر معاشرے میں دیکھی جا سکتی ہے محبت کو اگر تولا جائے تو خالص سونے سے بھی زیادہ وزنی ہے۔ سونا اور چاندی اپنی قدر کھو سکتے ہیں لیکن محبت کے دروازے ہر طرح کی قنوطیت کے لئے بند ہیں۔ اس کے داخلی توازن اور قوت کو کچھ بھی نہیں بدل سکتا۔ ابھی تک صرف وہی لوگ محبت کو روکنے اور اس کے خلاف کاوشیں کرتے نظر آتے ہیں جو نفرت، غضب، اور دشمنی میں مغلوب ہوچکے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان ظالم ارواح کو ٹھنڈہ بھی صرف محبت سے کیا جا سکتا ہے۔دنیاوی خزانوں سے بڑھ کر جو چیز دنیا میں موجود مسائل کو حل کر سکتی ہے وہ محبت کی طلمساتی کنجی ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اس سر زمین پر کوئی قدر ایسی ہو جو محبت سے حاوی یا حتی کہ اس کے مقابل بھی آ سکے۔ سونے، چاندی ی کسی دوسری با قیمت چیز کے سکے ہمیشہ ہر جگہ محبت کےپر خلوص جذبوں کے سامنے ہار جاتے ہیں۔ جب دن کا اجالا ہو تا ہے تو مادی دنیا کے مالکان کے طمطراقی اور نخوت والے طرز حیات کے لوگ جن کے خزانے کے صندوق خالی ہو تے ہیں اور ان کی روشنیاں بجھ چکی ہو تی ہیں پھر بھی محبت کا چراغ ہمیشہ جلتا رہتا ہے جو روشنی کے ساتھ ساتھ ہمارے قلوب اور ارواح کو بھی منور کرتا رہتا ہے۔

جن خوش قسمت لوگوں نے محبت کی قربان گاہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں اور جنہوں نے محبت پھیلانے کے لئےاپنی زندگیاں وقف کی ہے انہوں نے اپنی لغات میں نفرت،غضب،سازش اور اختلافات جیسے الفاظ کیلئے ذرہ بھی جگہ نہیں چھوڑی ہے اور اگر کبھی انہیں اپنی زندگی داؤ پربھی لگانی پڑی ہےتو انہوں نے دشمنٰی کو اختیار نہیں کیا.ان کے سر عجز سے جھکے ہوئے ہیں، وہ محبت سے سرشار ہیں۔ انہوں نے محبت کے سوا کسی کو مبارکباد نہیں دی۔ جب وہ کھڑے ہوتے ہیں تو دشمنی کے احساسات سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس محبت کی شدت سےجس کی وجہ سے انہیں نیچا دکھایا جا چکا ہے نفرت کے احساسات حسد کرنے لگتے ہیں۔

شیطانی طریقوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ اور ٹونہ صرف محبت ہی ہے۔ فرعون اور نمرود اور دوسرے بادشاہوں کی جلائی ہوئی نفرت اور حسد کی آگ کو رسولوں اور پیغمبروں نےصرف اور صرف محبت سے بجھایا۔ اولیاء نے بکھرے اور ان کی طرح غیر منظم شدہ ارواح کو کوششوں سے جمع کر کے محبت کو استعمال کرتے ہو ئے ان میں دوسروں کے ساتھ بھلا رویہ رکھنے کو متعارف کروایا۔ محبت کی طاقت ہاروت اور ماروت[3] کے جادو کو توڑنے کیلئے اور دوزخ کی آگ کو بجھا دینے کے لئے کافی تھی۔ اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص محبت سے مسلح ہو اسے کسی دوسرے اسلحہ کی ضرورت نہیں۔ درحقیقت محبت اتنی سخت چیز ہے جو نہ صرف گولی بلکہ توپ کے گولے کو روکنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

ماحول میں ہماری دلچسپی اور انسانیت سے پیار یعنی مخلوق کو گلے لگانے کی صلاحیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اپنی اہمیت، اپنے آپ کو پانے اور اپنے خدا سے اپنے تعلق کو سمجھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جب ہم اپنی ذات کی گہرائی میں چھپی قابلیت کو عیاں کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو دوسروں کو اسی طریقہ سے سمجھ سکیں گے۔ مزید برآن چونکہ یہ داخلی اقدار براہ راست خالق سےمتعلق ہیں اور چونکہ ہرمخلوق میں بڑھوتری کیلئے چھپی فطرت کی پرورش ہوتی ہے تو ہم ہر ذی روح کو ایک اور پیرائے اور انداز میں دیکھنا شروع کر دیں گے۔ حقیقت میں ہمارے ایک دوسرے کو سمجھنے اور جانچنے کا معیار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے اندر موجود قابلیتوں اور بڑھوتری کی صفات کو کتنے اچھے انداز میں ترتیب دیتے ہیں۔ ہم اس نظریے کو مختصراً اس طرح کہتے ہیں کہ محمدﷺ نے فرمای "مسلمان دوسرے مسلمان ک آیئنہ ہے'۔ ہم اس کو وسیع کر کے یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ" انسان دوسرے انسان کا آیئنہ ہے"۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انسان کی ذات میں مخفی قابلیتوں کو سمجھنے اور جانچنے کے قابل ہو گئے تو پھر ان صلاحیتوں کو خالق کیساتھ ملانے میں بھی کامیاب ہے جائیںگے اور پھر ہم یہ تسلیم کر لیں گے کہ اس کائنات میں جو چیز بھی خوبصورت، محبت بھری یا دل موہ لینے والی ہے وہ اس (خدا) کی ہے۔ جو روح اس چیز کو گہرائی سے لیتی ہے وہ بول پڑتی ہے۔ جیسا کہ رومی[4] نے قلوب کی زبان سے یہ بتایا ہے۔ ' آو آؤ اور ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ کہ ہم لوگ خدا کے ساتھ مخلص لوگ ہیں! آو آؤ محبت کے دروازے سے ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ شامل ہو کر بیٹھ جاؤ! آو ہم اپنے قلوب کے ذریعے ایک دوسرے سے بات کریں، چلو مخفی طریقے سے کانوں اور آنکھوں کے بغیر بات کریں۔ چلو لبوں اور آواز کے بغیر اکٹھےہنس لیں۔ چلو پھولوں کی طرح مسکرا لیں! خیالات کی طرح چلو ایک دوسرے کو بن الفاظ و آواز کے دیکھ لیں۔ چونکہ ہم سب ایک جیسے ہیں اس لئے آیئں ایک دوسرے کو دل سے پکاریں۔ ہم اپنے ہونٹ یا زبان استعمال نہیں کرتے چونکہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اس لئےچلیں اس طرح بات کر لیتے ہیں" ۔

ہماری آج کی ثقافت میں اس طرح کی انسانی اقدار اور احساسات کا نظر آنا مشکل ہے۔ ہم ان چیزوں کو یونانی لاطینی یا مغربی فلسفہ میں نہیں پاتے۔ اسلامی طرز فکر ہم ٘میں سے ہر ایک کو ایک ہی کچی دھات سے نکلی مختلف شکلیں اور ایک ہی حقیقت کے دو کنارے گردانتا ہے۔ خدا کی وحدانیت، پیغمبر اور مذہب ایک انسانی بدن کے اعضاء کی طرح ہیں۔ ہاتھ کبھی پاؤں سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔چونکہ ہم ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اس لئے ہمیں اس دوغلے پن کو ختم کرنا ہے جو ہمارے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرے ہمیں لوگوں کو متحد کرنے کیلئے راستہ ہموار کرنا چاہیے۔ یہی وہ عظیم کارنامہ ہے جسکی وجہ سے خدا لوگوں کو اس دنیا میں کامیابی دیتا ہے۔اور اس طرح یہ دنیا جنت نما بن جاتی ہے یہی وہ طریقہ ہے جس پر چلتے ہوئے جب جنت پر پہنچیں گے تو گرمجوشی سے استقبال ہوگا اور دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ اس لئے ہمیں ان احساسات اور نظریات کو ختم کرنا ہو گا جو ہمیں الگ کریں اور دوسرے کو گلے لگانے کی کوشش کرنا ہو گی۔


* یہ آرٹیکل مارچ 87 مین لکھا گیا ہے اور اولاً 'ازمیر' میں 1988 میں چھپا اور انگریزی طباعت کیانک، ازمیر میں 1998طبع دوم ص43.45 میں ہوئی۔

[1] مشرقی ادب میں لیلی اور مجنون مشہور عاشقوں کے نام ہیں۔

[2] یہ آرٹیکل اولاً  (وہ کنارہ جہاں روشنی ظاہر ہو ئی) استنبول 2000 ص 34-38 میں شائع ہوا۔

[3] دو فرشتے جن کا ذکر قرآن میں (بقرہ:102) میں ملتا ہے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس کے بیجا استعمال سے ان کو روکتے تھے۔

[4] مولانا جلال الدین رومی (1273-1209ء) ایک عظیم ولی اللہ جن کے متبعین نے محلوی صوفی طریقے کی بنیاد رکھی۔