رحم کی استدعا

یہ بات بالکل وا ضح ہے کہ جو لوگ ماضی سے مستنبط اقدار کو حاصل نہیں کرتے یا جو لوگ ہمارے ذرائع پر اعتبارنہیں کرتے ان کیلئے ہمارے درد کو سمجھنا مشکل ہے۔ اور ہمارے عمومی رویوں سے انہیں سوائے تذبذب کے کچھ نہیں ملتا۔ اصل میں جو لوگ حال اور مستقبل کو مادی نظروں سے دیکھتے ہوں اور زندگی کو محض مرئی اشیاء کی حد تک سمجھتے ہوں انکےلئے سوائے بعض جسمانی خوشیوں کے کچھ اور محسوس کرنا اور کسی چیز کی لذت پانا مشکل ہوتا ہے۔اسی طرح بعض فاسد خیالات کے مطابق وہ اشیاء جن کا جسمانی یا ظاہری لحاظ سے کوئی وجود نہ ہو وہ تذکرے کے قابل نہیں ہو تیں۔ نہ تو ماضی اور نہ ہی مستقبل  کوئی معنی رکھتا ہے۔ ماضی اورمستقبل تو صرف ان لوگوں کیلئے پناہ گاہیں ہیں جنہیں حال میں کوئی پناہ ملتی نظر نہیں آتی۔ ان لوگوں کے یہاں اصل حال ہے باقی سب کچھ وقت کا ضیاع ہے۔ حقیقتہً یہ لوگ اتنے تنگ نظریے کے حامل ہیں کہ ان کو یہ بیان بالکل سمجھ نہیں آئے گا۔" اگر تمہیں وہ پتہ چل جائے جو مجھے پتہ ہے تو تم رونا زیادہ اور ہنسنا کم کردو"[1]۔ لیکن سیدالعالمین محمد ﷺ نے یہ فرمایا ہے انہیں پتہ تھا کہ وہ کیوں آہ و بکا کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح وہ نفوس قدسیہ جو صرف ایمان، علم اور محبت سےمطمئن ہیں، ہمیشہ کی زندگی کیلئے آراستہ ہیں، بھی جانتے ہیں کہ وہ کس کےلئے رو رہے ہیں اور انہیں کس کی تلاش ہے۔ایسے لوگوں کے آہ و بکا کی بہت سی وجوہات ہیں۔

اسی طرح جس طرح کہ ایمان اور امن کی تلاش  ایسا مسئلہ جس میں ہر بندہ  دلچسپی لیتا ہے۔ یا کفر میں مبتلا ہونے کا خطرہ اور کوئی دوسرے سماجی معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل ہیں جنکا حل ضروری ہے۔ ناانصافی کے کئی ایسے واقعات ہیں جو معاشرے میں امن و امان کا مسئلہ ہے، ایسے حقوق ہیں جن پر نظرثانی کرکے انسانی اقدار، راست بازی کے اصول اور ضمیر کے مطابق  دوبارہ انکے حقداروں کو دینے  کی ضرورت ہے ہمارے کچھ خیالات اور امیدیں ہیں جن کا تعلق ہمیشگی کے ساتھ ہے اور اس کے مقابل غیر جمہوری رکاوٹیں اور طاقت کا پروپیگنڈہ بھی ہے جن کا ہم احاطہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں جذبات کوحکمت و مقصدیت پر فوقیت ہے۔ اور احکامات طاقت کے اندھے پن سے متاثر ہو کر دے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں کئی ساری انسانی غلطیاں اور کام جو بدی تصور ہوتے ہیں کو خون اور آنسوؤں سے پونچھ لیا جاتا ہے۔ لوگوں کو گاہے گاہے، جبراً جنت کی طرف لےکر جانے کی کوشش کی جاتی ہے یا برے طریقے  سے انکی سوچنے کی صلاحیت اور رائے سے صرف نظر کرتے ہوئے  دوزخ کی  طرف دھکیل دیا جاتا ہیں۔ہر روز نئے کیمپس بن رہے ہیں اور ہر ٹیم اپنے انداز اور احکامات کیلئے لڑ رہی ہے۔ ہر نظریہ زندگی  کے ایسے  طور  اطوار  کا مظہر ہے جو کسی کے اپنے خیالات  سے میل کھاتا ہو۔ مزید برآں لوگون کو جبراً ایک خاکے میں چسپاں کر کے زندگی اسکے مطابق گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کمیونٹی کی رائے کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور ضمیر کی آنکھیں بند کر دی گئی ہیں۔

اصل میں لوگوں کو ان کی تکالیف اور ذاتی اور سماجی تنگیوں سے نکلنے کا سب سے مختصر طریقہ یہ ہے کہ ان کے ضمیر   کے معالمات میں مداخلت نہ کی جائے اور ان کو باور کرایا جائے کہ اپنی آگہی اور خواہش کے مطابق کیسے زندگی گزاری جاتی ہیں۔بے شک جب ضمیر کا میکانکی نظام برقرار رکھا جائے اور قوت ارادی اور آگہی کی معاشرے میں قدر آئے تو لوگوں کو انسان بن کر انسانی اقدار کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔  افراد کو اچھا شہری تبھی بنایا جا سکتا ہے جب وہ اپنے ضمیر اور سوچنے کی صلاحیت کے ساتھ رہیں اور پھر اتنے بالغ ہو جایئں  کہ دوسروں کو روحانی طور پا ہدایات دے سکیں۔ ورنہ معاشرہ نہ بچ سکنے کی وجہ سے بہت سارے  سماجی، سیاسی، انتظامی اور معاشی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک کمیونٹی جو نامناسب، متضاد یا غیر مربوط اجزاء پرمشتمل ہو وہ کبھی قوم نہیں کہلا سکتی۔ اگر ہم معاشرے کی سطح پر نجات چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے ہر شخص چاک و چوبند تیار ہو۔ ہماری قسمت کا ستارہ اسی وقت آسانی سے نکل سکتا ہے جب ہم دوسروں کی نجات کیلئے کندھے سے کندھے ملائے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے دعا مانگٰیں۔

ان بنیادوں کی روح جن سے ہم بلو غت کے مقام تک پہنچ سکتے ہیں تبھی بن سکتی ہیں جب ہم ایمان کو اس کی مخصوص گہرائی کے ساتھ سمجھیں۔ اپنی عبادات میں درد اور شفقت کو پیدا کریں۔ اپنے کاموں میں اخلاقیات کو لائیں اور روحانی طور باہوش اور حواص ہر چیز کو دل کی راستی کیساتھ ناپیں ان چیزوں کی روشنی کیساتھ ہم انفرادی حدود سے باہر نکلیں گے۔ ان اصولوں کے مطابق مطالبات آگے بڑھاتے ہوئے ہم ہر چیز کو ابدیت کے ساتھ  جوڑنے کے قابل ہو جائیں گے اور ہر چیز کا بڑے پیمانے سے تجزیہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس طرح انسانیت کے سارے فوائد حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر اس قابل ہوں گے کہ کہہ سکیں کہ ہم احسن تقویم[2] قسم کے انسان ہیں، میرا یقین  ہے کہ جو خوش قسمت لوگ اس بنیادی نکتے کو سمجھ لیں گے وہ نہ صرف دوسروں کو صراط مستقیم پر لانے کی کوشش کریں گے بلکہ اپنے مستقبل کو بھی محفوظ بنایئں گے۔

مجھے یہ دوبارہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہیں کہ روشن خیالی کے انفرادی منصوبے جو معاشرے کیلئے بہم ممد نہ ہوں وہ بے ثمر ہو نے والے ہیں۔ مزید برآں  وہ اقدار جو معاشرے کے فرد ،ضمیر اور قوت ارادی میں ضائع کر دی گئ ہوں ان کو دوبارہ بحال کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جس طرح افراد کی نجات کے وہ منصوبے جو دوسروں کی نجات سے عاری ہوں وہ زینوں کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ اسی طرح کامیابی حاصل کرنے کا مجموعی خیال جسمیں فرد کی بیداری مفلوج ہوتی ہو وہم کہلائے گا۔

اس کی روشنی میں ہمارا یقین ہے کہ جب ہم  نے اپنے ضمیر اور خیال میں یہ بات واضح  کرلی کہ ہر شخص کے اپنے اپنے  ہاتھ ہیں لیکن ہم اپنے ہاتھوں کو ملا کو مشترکہ سوچ اور قوت ارادی سے مسائل حل کر سکتے ہیں جبکہ دوسروں کو آب حیات بھی دے سکتے ہیں اور اس طرح آہستہ آہستہ اپنی مادی اور روحانی قدربھی بڑھا سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک جتنا زیادہ  فیاضانہ کوئی منصوبہ یا کاوش ہو گی اور جتنا زیادہ دوسروں کی بہتری کیلئے کیا جائے گا اتنا ہی زیادہ پیہم اور امید افزاء ہو گا۔  یہ اسلئے صحیح ہے کہ جو چیز کسی کو زندہ رکھتی ہیں وہ دوسروں کو بلند کرنے کا جذبہ ہے۔ اسکا حاصل یہ ہے کہ انفرادی دلچسپی ہی وہ چیز ہے جو انسان کو ختم یا مفلوج کرتی ہے۔ جو لوگ اپنی ذاتی دلچسپی کے معاملات کے پیچھے جیتے ہیں چاہے وہ قبیح سیاست میں ملوث نہ بھی ہوں تب بھی وہ جلد یا بدیر خراب ہو جاتے ہیں ۔ وہ لوگ جو دوسرے کو ترغیب دیتے  ہوئے زندگی گزارتے ہیں انکی  زندگی پاکیزہ رہتی ہیں اور وہ ایسی جگہ جہاں باقی سب بکھرے جاتے ہیں، آب حیات دیتے رہتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جو اس دوڑ جو اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی، کامیاب ہوتے ہیں اور بطور "خوش دل" نامزد ہوتے ہیں۔

سیاستدانوں کی دوستی، جس سے لگتا ہے کہ وہ دوسرے کے حقوق کا اقرار کرتے ہیں اسلئےہوتی ہے کہ دوسرے اسکے ذاتی فائدے کیلئے کام کر رہے ہوتے ہیں، پر کبھی بھی اعتبار نہ کرنا چاہئے۔ نہ ہی کسی کو ان سیاستدانوں کی مخالفت  کے وقت اپنے آپ کو محفوط سمجھنا چاہئے۔ یہ لوگ ہمیشہ جو چیز سوچتے ہیں وہ صرف ان کے ذاتی فائدے ہیں اور اسی وجہ سے وہ خوشامد اور حتی کہ دوسروں کی خواہشات کے سامنے ٗمنقاد بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر ضرورت پڑے تو دوسروں کو جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوتے ہیں تباہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جب اقتدار  میں ہوتے ہیں تو وہ مردم آزاد ظالم ہو جاتے ہیں لیکن جب کمزور ہوتے ہیں تو یہی لوگ جھک کر سلام اور چاپلوسی کرتے ہیں چونکہ یہ لوگ مخلص نہیں ہو تےاسلئے اپنے ابدی اور مکر پر مبنی مقاصد کے حصول کے دوران اپنے ہی وار سے کبی خود بھی گھائل ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کے ساتھ کھیل کر اور یہ سمجھ کر کہ وہ صحیح کر رہے ہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہو تے ہیں۔ یہ بیچارے سیاستدان اپنے آپ کو بڑے عجیب مقام پر لے آتے ہیں جس سے وہ اپنے کیریئر کےحصول کیلئے اپنے عزت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اس طرح کی پر فریب ذہانت جو بعض سیاستدانوں میں نظر آتی ہیں  ایک بہت بڑی خامی ہے اور ناقابل درستگی نفسیاتی مسئلہ ہے۔  اس طرح کے لوگ اسکے باوجود کہ وہ بے مقصد اچھے ہو تے ہیں اپنے ذاتی فوائد کیلئے جیتے ہیں۔ اسکے باوجود اس طرح کی چیزیں انکے کیریئر کو فائدہ یا شہرت نہیں پہنچا سکتیں اور آخر کار وہ جھک کر  تلوے چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

 دوسری طرف خدمت والے لوگوں کے رویوں کی بنیاد، ایک لمبی تیاری اور آزمایئشیں اور پھر اسکے بعد رحم  کی استدعا پر ہوتی ہے جس سے کہ انسانی حقوق کی تلاش مقصود ہو تی ہے۔ یہ استدعا عام طور پو انفرادی ذمہ داری سے ماوراء  معاشرتی ذمہ داری کی بیداری کی حدود  پراوپر چڑھ رہی ہوتی ہے جسکے ساتھ گہرا  خلوص شامل ہوتا ہے۔ یہ ایسا کام ہے جو اہل دل کیا کرتے ہے اہل دل ہر خیراتی کام میں پیش پیش  ہوتے ہیں اور کام میں اپنا ایک مخصوص انداز رکھتے ہیں۔ اور اپنے کام میں کھرے اور کشادہ ہوتے ہیں حالات چاہے کتنے ہی  بےرحم اور نا موافق ہو جایئے یہ لوگ اپنے راستے سے ہٹنے والے نہیں ہوتے اور اپنی بنیادوں پر رہتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ پریشانی نہ ہو اپنے داخلی اور خارجی احساسات کے ساتھ وہ اس طرح بن چکے ہوتے ہیں کہ خدا کو ایک خاص اندازسے دیکھ اور سن سکتے ہیں اور اسےجان کر اسکی معیت لے سکتے ہیں۔ وہ اس جہان اور اگلے جہان کے بھی لوگ ہیں۔ انکا لوگوں سے تعلق مذکورۃ الصدر نقطہ نظر سے دراصل خدا کے ساتھ تعلق ہو تا ہے۔ ظاہراً آخرت کے نقطہ عروج کو اس طرح کی دنیاوی پن سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مزید برآں جو زندگی یہ لوگ گزار رہے ہیں اپنے سارے اختلافات کے باوجود ان کیلئے واضح اور اتنی لامحدود ہو جاتی ہیں کہ وہ آخرت کی زندگی کی آغوش کا ہلکا سا نشہ یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ بیشک ان صاف دل لوگوں نے خوشی کا ایسا نتیجہ حاصل کرلیا ہے کہ دوسرے سخت مشقت کرکے  کروڑوں سال گزارنے کے باوجود اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان لوگوں کے متعلق خیال ہے کہ وہ خدا کی معیت میں پہنچ چکے ہیں کہ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ ابدی کا میابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ ہمیشہ سچے اورعمیق یہ لوگ مسلسل بڑے منصوبے اور اعزازات حاصل کرتے رہتے ہیں۔ وہ رحم کا بولتے اور سوچتے ہیں اور رحم کا  اظہار کرنے کے بہانے ڈھونڈھتے رہتے ہیں۔  وہ لوگ ہر ایک کو بغیر کس فرق کے ابدی مسرت کی اس طرح دل سے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مستقبل کی زندگی کی خوشیاں اور روحانی طاقت کی بھی قربانی  دے دیتے ہیں چہ جایئکہ  مادی فوائدہ اور رتبہ کی خواہش کی قربانی دینی پڑے، وہ اپنے روحانی مقام اور دوسروں کے ساتھ تعلقات میں اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس عظیم ذات کے سامنے کھڑے ہیں اور جہاں دوسرے لوگ ختم ہو جاتے ہیں وہ پے درپے ایک نئی روح محسوس کرتے ہیں۔

اور اس مقولہ کہ" دوسروں کےلئے وہ پسند نہ کرو جو اپنے لئے نہیں کرتے" سے بڑھ کر اس طرح انتھک محنت کرتے ہیں کہ دوسرے بھی اس سے فائدہ حاصل کرلیں جیسے یہ اہل دل فائدہ حاصل کرچکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آفاق کی لا محدودیت کے طفیل سفاک لوگوں میں بھی رحم کے احساسات زندہ کردیتے ہیں ساتھ ہی ان کا ایمان ہوتاہے کہ مظلوموں کے ساتھ  رہنے کا مطلب خدا کے ساتھ رہنا ہے اسی لئے  یہ ان کی مدد کرتے ہیں۔

دوسروں کیلئے رہنا اہم ترین عنصر ہے جو ان ہیروز کے رویوں کو واضح کرتا ہے ان کی سب سے بڑی فکر اس طرح کے مشن کی تلاش ہوتی ہیں۔ جبکہ انکی سب سے زیادہ نمایاں صفت یہ ہوتی ہیں کہ ان کا سب سے اہم مقصد خدا کی رضا کی تلاش ہے۔ جب وہ دوسروں کو منور کرنے  کی کوششش  کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی نہ ہی دوسروں کے منور کرنے کی خوشی سے ان کو کوئی صدمہ ہوتا ہے۔ جو کامیابیاں ان کو حاصل ہوتی ہیں انہیں یہ لوگ عطائے ربانی تصور کرتے ہیں۔ اور احترام سے جھک کر بار بار ہر روز  اپنی نفی کرتے رہتے ہیں اس پرمستزاد وہ اس خیال سے کہ ان کے جذبات کے سبب ہی وہ کام جو انہوں نے سرانجام دیئے ہیں باعث تکمیل ہوئےہیں لرز جاتے ہیں اور اس پر روتے ہوئے پکار اٹھتے ہیں۔" ضرورت میں صرف تمہی سب کچھ ہو"

ہم نے زمانوں سے بے صبری سے اس طرح کے متبرک ہاتھوں کا انتطار کیا ہے کہ جو " بنجر زمین، تباہ شدہ گھر اور دور کے صحرا کو نئی مملکت سے بدل دیں گے۔ اور ہم پر عزم ہیں کہ مزید کئی سال ایمان، خواہش اور استحکام کے ساتھ انتظار کریں اللہ کرے کہ اس طرح کے خالص، نرم دل لوگوں کا ابدی رحم بے سود نہ ہے۔


* یہ آرٹیکل اولاً ( وہ افاق جہاں روشنی ظاہر ہوئی) میں استنبول 2000 ص 189تا 195شائع ہوا۔

[1]   بخاری، کسوف 2,، مسلم، کسوف؛1،ترمذی، زہد،9 اور ابن ماجہ، زہد، 12

[2]  بے شک ہم نے انسان کو سب سے بہترین سانچے اور پیرائے میں پیدا کیا ہے( الیقین :4)

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔