ترکی کی بے مثال اسلامی اعتدال پسند شخصیت

ترکی سے تعلق رکھنے والا نوجوان اونرا لگن اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نے گرمیوں کی چھٹیاں فزکس کے مطالعے میں کیوں گزاریں وہ انتہائی رواں انگریزی میں یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے سکول اپنے ملک اور پوری دنیا کے لئے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔فاتح کالج ‘اونر کا ہائی سکول 62 سالہ مذہبی قائد فتح اللہ گولان کے نظریات سے وابستہ ہے جو پنسلو اینا میں قیام پذیر ہیں اور یہ سکول دن بدن ترقی کرتی اسلامی کمیونٹی کا حصہ ہے ترکی ‘بلقان اور سینٹرل ایشیاءمیں قائم سینکڑوں سکولوں کے ساتھ ساتھ یہ ڈھیلی ڈھالی برادری ایک ٹیلی ویژن چینل ‘ ریڈیو سٹیشن ‘ ایڈوٹائزنگ ایجنسی ایک روزنامہ اور ایک بینک چلاتی ہے یہ سب اسلامی رجحان رکھتے ہیں اور ان کا مرکز استنبول ہے

محترم گولان اگرچہ کے امریکہ میں زیادہ مشہور ومعروف نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کئی برسوں سے ایک غیر سرکاری سفیر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جنہوں نے اعتدال پسند اسلام کے تصور کو آگے بڑھایا ۔ انہوں نے پوپ جان پال دوئم اور دیگر مذہبی اور سیاسی لیڈروں جن میں ترکی کے وزراءاعظم اور صدور صاحبان بھی شامل ہیں سے ملاقات کی اور برداشت اور روا داری کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا ۔ محترم فتح اللہ گولان کو اپنے نظریات کی وجہ سے کئی مشکلات کاسامنا بھی کرنا پڑا اور سٹیٹ سیکورٹی کورٹ نے ایک سال تک جاری رہنے والی انکوائری کے بعد ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے پیرو کاروں کو ترکی کی سیکولر حکومت کا تختہ الٹنے پر اکسایا تھا ۔ اس وارنٹ نے ان کے مداحوں اور چاہنے والوں میں سراسیمگی دوڑا دی ۔

محترم فتح اللہ گولان نے نیویارک ٹائمز کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ترکی کی سیکولر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور ان پر لگائے گئے تمام الزامات من گھڑت تھے ۔ امریکہ میں علاج معالجے کی سہولت حاصل کرنے والے جناب فتح اللہ گولان نے کہا کہ ترکی میں بھی انصاف اور جمہوریت کا معیار مغرب کے برابر ہونا چاہئے ۔ ان کی صحت ان کی ترکی کو واپسی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سر گرم عمل نہیں لیکن وہ ان کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جن کے تحت حکومت لسانی اور نظریاتی اختلافات کو ثقافتی حسن ترتیب کا حصہ سمجھے نہ کہ اس بنیاد پر امتیاز برتے۔

ترکی کے قومی لیڈرز بھی عرصے سے جناب فتح اللہ گولان کو ریاست کے لئے ایک ممکنہ خطرہ سمجھتے رہے ہیں ۔جب ٹیلی ویژن اسٹیشنوں نے ان کی ویڈیو کیسٹس سے اقتباسات نشر کئے تو یہ خطرات درست دکھائی دے رہے تھے ۔ان سے یوں ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ اپنے پیرو کاروں کو یہ پیغام دے رہے ہوں کہ وہ صبر و تحمل کے ساتھ اور خفیہ طور پر حکومت کی صفوں میں گھس جائیں ۔

جناب فتح اللہ گولان نے کہا کہ ان کے بیانات کو اصل سیاق وسباق سے الگ کرکے اور توڑ مروڑ کر پیش کیاگیا تھا جناب فتح اللہ گولان کے بیانات ان سخت گیر موقف رکھنے والے سیکولر عناصر کو مطمئن کرنے کے لئے ناکافی ہیں جو خود کو جدید ترکی کا نگہبان سمجھتے ہیں جس کی بنیاد کمال اتاترک نے 1923ءمیں ڈالی ۔ ان کے نزدیک فتح اللہ گولان کے پیروکار جو کام کررہے ہیں اور جو اسکو ل چلا رہے ہیں یہ ایک اسلامی حکومت کے بیج بونے کے مترادف ہے ۔

بعض اعتدال پسند ترک اسلامی رجحان کے حامل اسکولوں اور ان سر گرمیوں کو حکومتی پالیسیوں اور امتیازات کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں ۔

ایک پرائیویٹ ادارے ترکش اکنامک اینڈ سوشل سٹڈیز فاﺅنڈیشن کے مطابق یہ اسلامی گروپس نہ صرف غریبوں کے لئے باعث کشش ہیں بلکہ ان سخت گیر مسلمانوں کے لئے بھی جو خود کو اصل دھارے سے کٹا ہوا سمجھتے ہیں۔محترم فتح اللہ گولان کی فکر سے وابستگی رکھنے والے سکول صرف وہی مذہبی تعلیم دیتے ہیں جن کی منظوری حکومت دے اور یہ تعلیم ترکی اور انگلش میں دی جاتی ہے ٹیوشن کی مد میں ڈالروں میں ہر سال ایک معقول رقم بنتی ہے اور طلباءکو علمی میدان میں سخت مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔

اکانومک اینڈ سوشل سٹڈیز کے ڈائریکٹر کے مطابق سٹریٹجک حوالے سے ریاست کو ان سکولوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے کیونکہ ایک طرح سے یہ ان ممالک میں ترکی کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں ۔

استنبول سے باہر تعلیم حاصل کرنے والا سولہ سالہ نوجوان الگن حکومت کا تختہ الٹنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا فی الحال اس کا فزکس پڑھنے کا واحد مقصد ترک قومی اکیڈمک ٹیم تک پہنچنا ہے ۔