عجزوانکساری

جن لوگوں کا منہ زمین کی طرف رہتا ہے اُن کے لیے حق تعالےٰ کے پاس بھی اورخلقِ خدا کے پاس بھی بے انتہا حصّے ہیں ۔ اِس کے برعکس وہ لوگ جوناک چڑھا کر چھاتی اکڑاتے ہیں ‘ ہر شخص کو حقیر سمجھ کر اپنی اکڑ دکھاتے ہیں وہ تقریباَ ہمیشہ ہی لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ۔ اور حق تعالےٰ کی طرف سے بھی اُن پر عذاب نازل ہوتا رہا ہے۔

* * * * *

انسان کی خودپسندی اور تکبر اُس میں عقل کی کمی اور روح کی نا پختگی کی علامت ہے۔ ایک عقلمند انسان جو روحانی طور پرپختگی حاصل کر چکا ہواُسے جو کچھ ملتا ہے وہ اُسے خالقِ اعظم کی عطا سمجھتا ہے اور ہمیشہ تشکّر کے احساس کے طور پر اُس ذات کے آگے جھک کر دہرا ہوا رہتا ہے۔

* * * * *

منکسر مزاج ہونا‘خالقِ حقیقی کی طرف سے قدر شناسی اور عوام کی طرف سے حقارت اور سرزش دونوں کے مقابلے میں انسان کے دل میں خوشنودی کی حس پیدا کرتا ہے۔جی ہاں !جو شخص شروع سے ہی اپنی حد کو جان کر انکسار کے بال وپر اتنے نیچے کرلے کہ وہ زمین سے چھونے لگیں ۔ وہ یوں ہے جیسے انسانوں کی طرف سے حقارت والی ہر نظر کے خلاف محفوظ ترین زرہ میں گھُسا ہوا ہو اور اس نے حفاظت کی بہترین تدبیر اختیار کرلی ہو۔

* * * * *

عجزوانکسار انسان کی پختگی اور صاحبِ فضیلت ہونے کی نشانی ہے اور تکبّر کر کے اپنی بڑائی کی بڑ مارنا اُس کے کم وقعت اور ناقص ہونے کی۔کامل ترین اشخاص دوسرے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ گھل مل جانے والے‘ اُن کے ہمدم لوگ ہیں ‘ اور ناقص ترین اشخاص بدنام اور بدبخت لوگ ہیں جن کے غرور کا پیٹ دوسروں کے سا تھ ملنے جلنے سے ان کے ساتھ اُٹھنے بیٹھے سے نہیں بھر سکتا۔

* * * * *

وہ لوگ جن کی قدروقیمت اُن کے اپنے معاشرے میں کوئی نہیں جانتا‘ وہ اپنے کردار کے عجزوانکسار کے وسیلے سے جلد یا بدیر اونچے مقام پر پہنچ کر شرف حاصل کر لیتے ہیں ۔جو اپنے احساسِ بزرگی کی زد میں آئے رہتے ہیں اُن کا معاشرہ اُن کی اتنی نکتہ چینی کرتا ہےکہ وہ جس محیط میں رہتے ہیں وہاں وقت کے سا تھ اُن کی حیثیت پردیسی عناصر کی سی ہو جاتی ہے۔

* * * * *

کسی انسان کا انسانیت کی سطح تک پہنچنا اُس کے عجزوانکسار سے‘اور عجزوانکسار اس بات سے آشکار ہوتا ہے کہ اُس شخص کا مقام‘عہدہ‘ دولت‘ اور علم جیسی چیزیں جن پر لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے‘ وہ اس میں تبدیلی نہ لائیں ۔ جو شخص متذکرہ بالا اوصاف میں سے کسی ایک کے باعث بھی اپنی سوچ اور اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا شکار ہو جاتا ہے نہ اس کا عجزوانکساری اور نہ ہی اُس کا انسانیت کی سطح پر پہنچ جانا موضوعِ بحث بن سکتاہے

* * * * *

عجزوانکساری تقریباَ تمام اعلیٰ عادات کی کنجی کی طرح ہے۔ جو اسے حاصل کر لیتا ہے وہ دوسری اعلیٰ عادات کا بھی مالک بن سکتا ہے۔اور جو اس کا مالک نہیں بن سکتا وہ غالباَ دوسری عادات سے بھی محروم رہتا ہے۔حضرت آدم (علیہ اسلام) جب لغزش کھا کر گر پڑے تو اُنہوں نے عاجزی اور انکساری سے آسمانوں کی پرلی طرف کی ساری گم گشتہ چیزوں کو دوبارہ حاصل کر لیالیکن اُسی حادثے میں لڑھکتا چلے جانے والا شیطان اپنے تکبّر اور غرور کی راہ میں قربان ہو گیا۔

* * * * *

تکیوں اور حجروں میں ہمیشہ وہ لوگ پرواز کر کے بلندیوں پر پہنچے ہیں جو اپنے چہرے زمین کی طرف رکھتے ہیں ۔مکتبوں اور مدرسوں میں بھی ہمیشہ عاجز اور منکسر لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں اور وہی اپنے معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں ۔وہ لوگ جو ناک چڑھا کر‘ تکیوں کے آداب اور اصولوں کا پاس نہیں کرتے‘ وہ کسی اُستاد کے سامنے گھٹنے ٹیک کہ کچھ سیکھنے پر اپنے غرورکو آمادہ نہ کرسکنے والے لوگ بہت بدنصیب ہوتے ہیں ۔ ایسے بد نصیب لوگ ہمیشہ بربادہو کر غائب ہوجاتے ہیں ۔

* * * * *

کبر اور عُلوِیت چونکہ”ذاتِ الوہیت“ کی صفات میں سے ہیں ‘ وہ جو اپنی بڑائی کی بڑ مار تے اور گستاخی کرتے ہیں وہ تقریباَ ہمیشہ ہی اسکے ”قہار“ نہایت چوکنّے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور ہلاک کر دیئے گئے ہیں ۔ جو لوگ اپنی حدود کو جانتے ہیں اور عجزوانکساری سے کام لیتے ہیں وہ بلندی پر جا کر اُس کے حضور میں پہنچ چکے ہیں ۔