لین دین اور طرزِ عمل

کسی کا دِیندار ہونا لین دین سے ظاہر ہوتا ہے۔

* * * * *

مومِن جو کچھ کرتا ہے اس خیال سے کرتا ہے کہ اسے اللہ کے حضورپوچھ گچھ کے لئے پیش کیا جاناہے۔

* * * * *

بارش بادلوں کے موسم میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور عمدہ طرزِ عمل اُن دِلوں میں ہوتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ ہوتا ہے۔

* * * * *

ہر چیز پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر عادت پر کنٹرول مشکل ہے۔

* * * * *

بوڑھے انسان کا شِیرخوار ہونا عیب توہے مگر اُس کا دودھ چھُڑانا بھی مشکل ہوتاہے۔

* * * * *

جس شخص کو کبھی غصّہ نہ آئے اُسے جب غصّہ آتا ہے تووہ مختلف قسم کا ہوتا ہے۔

* * * * *

جس طرح ٹیڑھے ڈنڈے کا سایہ سیدھا نہیں ہو سکتا اِسی طرح جو شخص اپنے دِل کا توازن ٹھیک نہ رکھ سکتا ہو اُس کا طرزِعمل بھی سیدھا نہیں ہو سکتا۔

* * * * *

اگر عوام نے تجھے اپنے طرزِ عمل(رسم و رواج) کے مطابق ایک جگہ پر بٹھا دیا ہو تو پھر جب تک حالات کو بدلا نہ جائے کسی دوسرے سلوک کی امید رکھنا عبس ہوتا ہے۔

* * * * *

کوئی شے عافیت سے زیادہ میٹھی‘ دوسروں کا محتاج ہونے سے زیادہ دردناک‘ اور حالات کے نامناسب ہوتے ہوئے دِیندار ہونے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔

* * * * *

عمل کے بغیر الفاظ‘ پارسائی کے بغیر فِقہ‘ ولایت اور زہد تک نہ پہنچا سکنے والا علم‘ بے وفا کی دوستی اور بِلا عافیت زندگی‘یہ سب محض دھوکا ہیں ۔

* * * * *

چلہ خانے قوتِ ارادی کو بڑھاتے ہیں ۔ انسان وہاں پراپنے آپ کو پا لیتا ہے ۔چلہ خانے میں خلوت بنیادی شرط ہے‘ اس کے لئے ایک نیک باطن اور ایک اعلی ظاہر شرط ہے۔ لیکن مکمل انسان معاشرے میں رہ کر پھلتا پھولتا ہے ۔ بشری تعلقات کی مکمل تربیت صرف معاشرے کے اندر رہ کر ہوتی ہے۔

محبوبوں کی طرح ایک دوسرے میں گھل مل کر یک جان ہو جاﺅ لیکن اپنے کام اور لین دین کے معاملے میں غیروں کی طرح عمل کرو!

تو اپنے آپ کو بیان کرنا چھوڑدے۔ اپنے طرزِ عمل سے کہہ تجھے بیان کر دے!