تجارت

روپے پیسے اور تجارتی اجناس کی زبان میں تجارت کا مطلب ہے رزق کے لیے اُس ذاتِ عالی سے رجوع کرناجس کے ہاتھ میں ہر چیز کی باگ ڈور ہے۔ اُس ذات سے مراجعت کرنا ہر حال میں ضروری ہے مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کی خواہشات کو پور ا کرنے کا کام بھی اُسی ذات کے ہاتھ میں ہے۔فن اور ٹیکنالوجی خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے‘ مستقبل میں تجارت اور اِس سے متعلقہ موضوعات کا کردار آ ج کل کے مقابلے میں اورموجودہ تخمینوں سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔ یہاں تک کہ حکومت اور اقتدار اُسی کی وصیت کی روشنی میں سامنے آئیں گے اور اُسی کی مدد سے اپنی بقاءکے لیے قدم اٹھائیں گے۔

* * * * *

باقی تمام معاملات کی طرح تجارت اور صنعت کے لیے بھی علم اوراختصاص(کسی موضوع میں خصوصی مہار ت حاصل کرنا) کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ خاص طور پر یہ دو پیشے ایسے میں جن کا انحصار نوآموزی یعنی اپرنٹس شپ کے سسٹم پر ہوتا ہے۔بے شمار مسائل ایسے ہیں جوکتابوں میں تو بیان کیئے جاتے ہیں لیکن اگر یہ کسی ماہر استاد یا ٹیچر کے ماہر ہاتھوں سے نہ گزریں جو خود ایک نوآموز کی حیثیت سے استاد کے درجے تک پہنچے ہوں ‘ تو کتابی بیان سے کسی صورت بھی متعلقہ نتائج کی امیدنہیں کی جا سکتی۔

* * * * *

وہ تاجر جو لین دین کے دوران حلال و حرام کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے‘ وہ جتنا وقت اپنے کام پر خرچ کرتا ہے وہ سارا وقت اس کے لیے عبادت گنا جائے گا۔

* * * * *

کام کی جگہ اور تجارت خانے کی صفائی اور ترتیب اور صفائی یااُس کی گندگی اور بے ترتیبی اکثر اوقات دکاندار اور فروخت کنندہ کی روحانی حالت کی عکاسی کرتی ہے۔لہٰذا یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ عنصر بھی گاہک اور اشیاءکے طلبگاروں پر مثبت یا منفی اثرڈالے گا۔

* * * * *

دھوکاباز تاجر‘دھوکا باز دکاندار‘ اپنے اس طرز عمل کے باعث سب سے پہلے اپنے رب اور اپنے ضمیر کے سامنے پیش ہوں گے۔ اور پھر جب ان کی دھوکا دہی کا پول کھل جائے گا تو عوام میں بھی ان کا اعتماد اٹھ جائے گا اور اُنہیں تجارت میں فائدے کی بجائے نقصان ہونا شروع ہو جائے گا۔

* * * * *

سچائی‘ امن وامان‘ حالاتِ حاضرہ کا علم‘ اور خریدار کے ساتھ نہایت پُر اخلاق اور مہذبانہ طریقے سے پیش آناتجارت کی روح ہے۔ ان خاصیتوں میں سے کسی ایک میں بھی کوتاہی کرنے والا تاجر تجارت کی روح کے ساتھ برے برتاﺅ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے منافع کی راہوں کو بند کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔

تاجروں اور صنعت کاروں کو چاہیے کہ وہ زبان کے میٹھے ہوں ‘چہرے پر مسکراہٹ رکھیں ‘ خاصے منکسر مزاج ہوں ‘ اپنی بات کے پکے ہوں ‘ بوریت سے مکمل گریز کریں ‘ اور کاہلی سے بچیں ۔ یہ صفا ت جو تقریباََ ہر پیشہ ور کے لیے نہایت اہم ہیں ‘ عوام کے ساتھ گھل مل جانے اور ان کے نفع نقصان میں شریک ہونے کے لحاظ سے ان دو پیشوں کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہیں ۔

* * * * *

اپنی دکان یاکاروبار کی جگہ کو ہر روز معمول کے اوقات سے ایک گھنٹہ پہلے کھول کر ایک گھنٹہ دیر سے بند کرنے والے تاجروں کا مہینہ پینتیس دنوں کا اور سال چارسو بیس دن کاہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ جہاں تک ممکن ہو دکانوں یا کاروبار کی جگہوں میں اپنے اصلی کام کر نظر انداز نہ کیا جائے۔