پیش بندی(احتیاط)

پیش بندی ایک ایسا اہم طرزِ عمل ہے جو کسی کام یا منصوبے کے دوران نقصان کے احتمال کے پیشِ نظر اور ایسی مصیبتوں کے خلاف اختیار کیا جاتا ہے جن میں انسان مبتلا ہو سکتا ہے۔اِن مصیبتوں کے نتیجے میں آہ و بکا شروع کر دینے کی بجائے احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ بے شمار ایسے مہم جُو دیکھے گئے ہیں جو حادثات کی وجوہات کی تہ تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لہٰذا ا ن حادثات سے مقابلے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ چنانچہ حادثے کے نتیجے میں یا گھٹنے پیٹ لیتے ہیں اوریا تقدیر کو کوسنے لگتے ہیں ۔ جی ہاں ‘ وہ پہلے تواپنی تدبیر میں غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر تقدیر کی تنقید کرکے دوسری غلطی کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔

* * * * *

ہدف کے طور پر کسی منصوبے یا پلان کا مقرر کردہ نتیجہ جس قدر عظیم ہو گا اُس کے حصول کے لیے لازم تدابیر پر عملدرآمد بھی اُتنا ہی زیادہ اہم ہوگا۔ لہٰذا اگر ایک شخص اپنی ذمہ داری کے سائز کے حساب سے اور نفع نقصان کے اندازے کے مطابق اپنے کام کو منظم نہیں کرتا تو وہ یا تو اپنے ذمے لیے گئے منصوبوں کے ساتھ غیر سنجیدہ مہم جُو کا سا سلوک کرتا ہے اور یا پھر وہ ایک سادہ لوح احمق ہے۔ اس قسم کے احمقوں کی کاوشیں کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جانے سے بھی زیادہ ضرر رساں ہوتی ہیں ۔

* * * * *

اپنی امید کے مطابق نتائج حاصل کرنے میں تدبیر اور احتیاط انسان کے لیے بہت بڑے سرمائے کا کام دیتے ہیں ۔ اِس سلسلے میں کی جانے والی چھوٹی سی ڈھیل یا غفلت بھی اُن بڑی خطاﺅں میں شمار کی جاتی ہے جو ایک دوسرے پر الزام لگانے کا سبب بنتی ہیں ۔ عقلمند انسان وہ ہے جو محتمل نقصانات کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہی اِن سے بچاﺅ کی تدابیر ڈھونڈ کر ہر چیز کو اُس کے مناسب مقام پر رکھ دے۔جی ہاں ‘ جیسے ہمارے بزرگوں نے فرمایا:”پیشتر اِس کے کہ چور آپ کو آ پکڑے آپ کو ہر حالت میں چور کو پکڑ لینا چاہیے“ تاکہ چور اور تقدیر پر الزام دھرنے کے درمیان بھاگتے رہنے کی نوبت نہ آئے۔

* * * * *

انسان کو چاہیے کہ کوئی کام شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی پلان اور اُس کی تدابیر تیار کر لے۔ نتیجے کے اعتبار سے بھی جو اشیاءمادی اور معنوی فائدے اور فضیلت کا وعدہ نہیں کرتیں اُن سے ہر حالت میں بچنا چاہیے۔ اِس قسم کے ابتدائی پلان کے بغیر ہاتھ میں لیا جانے والا ہر منصوبہ عبس ہو گا۔ اور اپنے آپ کو عبس اشیاءمیں الجھانا اِس بات کی دلیل ہے کہ متعلقہ شخص میں عقل کا فقدان ہے اور وہ ابھی تک اپنے بچپن ہی کی زندگی گزار رہا ہے۔

* * * * *

ایک شخص دقت طلب امتحانوں اور نامساعد شرائط میں حاصل کردہ کامیابیوں کے ذریعے اپنی قدروقیمت کی توثیق ہے اور پھر اِسے دوسروں کے آگے رکھتا ہے۔ جہاں تک اِن مشکل شرائط میں پیش کی جانے والی خدمات سے حاصل کی گئی کامیابی کا تعلق ہے‘ اُس کی قدروقیمت ہر شے سے پہلے ایک معقول پلان اور اُس پلان کے مطابق عمل کرنے سے وابستہ ہے۔اِس طرح ‘ ایک فرد کی قدروقیمت اُس کی کامیابیوں کے اور اُس کی کامیابیاں کسی عظیم منصوبے کی ابتداءسے پہلے کئے جانے والے فیصلوں کی نسبت سے ہوتی ہے۔

* * * * *

جس طرح احتیاط کرنا ڈر کر پیچھے کھڑے رہنے سے بالکل مختلف عمل ہے اُسی طرح بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کا جسارت اور مردانگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر سال کے پہلے نصف حصّے میں ہی اخراجات میں افراط ہو جائے تو ایک طرح کے نقصان کا سامنا ہونا موضوعِ بحث ہو سکتا ہے۔مگر یہ نقصان قطعاَ مقامی ہو گا اور یہ اُن خساروں میں سے ہو گا جن کا علاج ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اندھا دھند کئے جانے والے کام کو مردانگی سمجھتے ہیں اُن کی بے بنیاد حرکات اور ڈان کشوٹ جیسا طرزِ عمل ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

* * * * *

ہر بُری خصلت کی طرح ہمیں مغرب کی طرف سے تحفے کے طور پر دی گئی ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم ایک ہجوم کی سی روحانی حالت میں ہوتے ہوئے( کہ جو محض ایک چال یا فریب ہے)ایک ہجوم کے شکار کے لیے گھر سے نکل کھڑے جو لوگ اِس باطل اور مورثی جھوٹے خیال پر یقین رکھتے ہیں اُن کے مطابق”اگر ایک انڈے کے اِرد گِرد(بچہ نکالنے کے لیے ) کووّں کا ایک چیختا چلّاتا ہجوم منڈلاتا رہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی۔“ مگر ہماری سوچ کے مطابق ہر قومی مسئلہ ایک مناسب ماحول اور حدوداربعے کے اندر حل کیا جانا چاہیے۔اِس کام کے لیے ماحول ایسا پُر سکون ہونا چاہیے جیسا اُن مقامات پر ہوتا ہے جہاں مُونگے انڈوں سے بچے نکالنے کی نہایت پُر اضطراب حالت میں ہونے کے باوجود صبر اور خاموشی سے بیٹھ کر انڈوں کو سینچتے اور بچے نکالتے ہیں ۔

* * * * *

حق تعالیٰ کے نزدیک انسان کی عظمت اُس کی بلند حوصلگی سے ناپی جاتی ہے۔ بلند حوصلگی کی واضح ترین علامت یہ ہے کہ انسان دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنی ذاتی لذتیں اور ذوق قربان کر دے۔ مجھے نہیں معلوم آیا کوئی اِس سے بڑی قربانی کا بھی تصور کر سکتا ہے یا نہیں کہ ایک شخص معاشرے کی سلامتی کی خاطر اپنی حیثیت اورشہرت پاﺅں تلے روند دے‘ جہاں چنگھاڑنا بھی جائز ہو وہاں بھی اپنا غصّہ پی کر برداشت کرنا جانتا ہو ‘ اور جو ہر ایسی جگہ پر جہاں ذاتی خوشی اور فلاح مو ضوع بحث ہو وہاں اپنی خواہشوں اور ضروریات سے دستبردار ہو جائے۔

جس طرح فاتح افواج کی بہادری کو اورجنرل سٹاف کے جنگی منصوبوں کو اُن کی تمام فتوحات میں کوئی اہمیت نہ بے وقوفی ہے‘ اِسی طرح تمام کامیابیوں کو عمومی جسارت سے جا ملانا اور پلاننگ کو بالکل کوئی وقعت ہی نہ دینا بھی حماقت ہے۔

* * * * *

کسی کام کا بیڑا اٹھانا اور اُس کام کی تدابیر دونوں ایک ایک دعوت نامے کی طرح ہیں جو حق تعالیٰ کی خدمت کی عنایات حاصل کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں ۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں ۔اِن میں سے اگر ایک میں بھی کوئی غلطی ہو جائے یا کمی رہ جائے تو کئی بار عنایاتِ باری تعالیٰ رُک جاتی ہیں جوکہ ناکامی کا سبب بن سکتی ہیں ۔ پر رُکاوٹ کے بغیر چلتے جانا اُسی حالت میں ممکن ہوتا ہے جب بصیرت سے کام لیا جائے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو یہ بات سمجھتے ہیں ۔