بچّہ

ایک درخت کی نسل اور نوع کے دوام کے لیے جو کردار گٹھلی اور بیج ادا کرتے ہیں وہی کردار انسانی نسل اور نوع کے دوام کے لیے بچہ ادا کرتا ہے۔جو قومیں اپنے بچوں سے غفلت برتتی ہیں اُن کی قسمت میں زوال لکھا ہوا ہے۔ اور جو اُنہیں بیرونی ہاتھوں اور بیرونی ثقافت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہیں اُن کی قسمت میں یہی لکھا گیا ہے کہ وہ اپنی خصوصی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔

* * * * *

تیس چالیس سال کے وقفے کے بعد قوم کا سب سے زیادہ مستعد اور بار آور طبقہ آج کے بچے ہوں گے ۔جو لوگ بچوں کو حقیر اور نکما سمجھتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ یہی بات سوچ کر لرز جائیں کہ وہ قوم کے ایک اہم عنصر کو کیسے گھٹیا قرار دے رہے ہیں ۔

* * * * *

آج کی نسلوں میں مشاہدہ کی جانے والی برائیوں ‘ بعض انتظامی اداروں میں پائی جانے والی کمزوریوں ‘ اور قومی سطح پر محسوس کی جانے والی دیگر مشکلات کی ساری ذمہ داری آج سے تیس برس پیشتر کے حکمرانوں پر آتی ہے۔ آج سے ایک چوتھائی صدی بعد ہر طرح کی فلاکت اور اچھائیوں کی ذمہ داری آج کی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا نصاب پیش کرنے والوں پر آئے گی۔

* * * * *

اپنے مستقبل کو یقینی بنانے کی خواہشمندہر قوم کو چاہیے کہ دائیں بائیں اپنا وقت اور قوت خرچ کرتے ہوئے اپنے وسائل کا ایک حصہ ا ٓج کے بچوں کی نشوو نما پر بھی خرچ کرے جو مستقبل کے بڑے آدمی ہیں ۔ دوسری سمتوں میں جن اشیاءپر پیسہ خرچ کیا جاتاہے وہ تو ضائع بھی ہو سکتی ہیں مگر نئی نسلوں کو انسانیت کی بلندیوں پر پہنچانے کی سمت میں خرچ کیا جانے والا پیس توآمدن کے ایک لازوال ذریعے کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجود رہتا ہے ۔

* * * * *

جو لوگ آج معاشرے کے چہرے پر بد نامی کا دھبہ سمجھے جاتے ہیں مثلاََ مفلس ‘ محتاج‘ شریر و بد کار‘بد نظمی پسند‘ عیاش‘نشئی‘ افیمی وغیرہ‘ یہ ماضی کے وہ بچے ہیں جن کی تربیت میں ہم نے غفلت برتی تھی۔نہ معلوم کسی نے اس بات پر بھی غور کیا ہے یا نہیں کہ ہماری آج کی غفلتوں کے نتیجے میں مستقبل میں ہماری گلیاں کس قسم کی نسلوں سے بھری پڑی ہوں گی۔

* * * * *

مستقبل کی تقدیر پر اُن قوموں کی حاکمیت ہو گی جو ازدواج کے ادارے کو سنجیدگی سے ہاتھوں میں لیتی ہیں ۔ اور اپنی نسلوں کو انسانیت کی بلندیوں تک پہنچانے کا علم رکھتی ہیں ‘ نہ کہ اُن قوموں کی جو محض تکنیک اور ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری کی حامل ہوتی ہیں ۔جو قومیں ازدواج اور پیدائش کے مسائل سے سنجیدگی سے نہیں نپٹ سکتیں ‘ اور وہ جو اپنے فلسفہ تربیت ذریعے اپنی نسلوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتیں ان کی قسمت میں آج نہیں تو کل‘ وقت کی نا انصاف گراریوں میں پھنس کرکچلا جانا لکھا جا چکا ہے۔