بچّے کے حقوق

انسان تخلیق کی گھڑی سے ہی اپنے شریک حیات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔شریکِ حیات کے بغیر اُس کی زندگی کادورنہ ہونے کے برابر تھا۔یوں اپنی ابتدائی وجودیت کو پہنچتے ہی اپنے شریک حیات کے ساتھ پیدا ہونا انسان کے لیے ازدواج کے ایک فطری عمل ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس فطری عمل کا اہم ترین مقصد”تناسل“ ہے۔ لہذا جس ازدواج کا ہدف نسلوں کی پرورش نہیں ہو تا وہ ایک تفریح اور قسمت آزمائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ایسے ازدواج سے وہ بد بخت بچے پیدا ہوتے ہیں جو ایک لمحے کی خواہش کی تکمیل پر قربان کر دئیے گئے ہوں ۔

* * * * *

انسانی نسل کا دوام اب بھی انسان ہی پر منحصر ہے‘ ایسے انسان پر جو زندگی کی قلبی اور روحانی سطحوں پر پہنچنے کے لیے مصروفِ پرواز ہو۔وہ نسلیں جو تربیت حاصل نہیں کر پاتیں ‘ اور جو اپنی روحانی صلاحیتوں کی نشوو نما نہیں کر سکتیں ‘ اور جو نتیجیتاَ انسانیت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتیں ‘ وہ نسلِ آدم ہی کا حصہ ہونے کے باوجود ایک عجیب و غریب مخلوط النسل مخلوق ہوتی ہیں ۔جن اشخاص کے کندھوں پرا س قسم کے لوگوں کے ماں باپ ہونے کا بوجھ لدا ہوا ہو وہ ایسے بد بخت انسان ہوتے ہیں جو اپنی گود میں حیوانوں کی پرورش کر رہے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

والدین جس نسبت سے اپنی اولاد کی پرورش کر کے اُنہیں اخلاقی خوبیوں سے مزیّن کرتے ہیں اُسی نسبت سے اُنہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنی اولاد کو ”ہماری اولاد“ کہہ سکیں ۔ مگر جن بچوں سے اس سلسلے میں غفلت برتی گئی ہو ان کے بارے میں اِس قسم کا دعویٰ قطعاَ بر محل نہیں ہو گا۔ خاص طور پر جب والدین ایسے بچوں کو برائی اور گندگی کی تمام راہیں دِکھا کر اُنہیں انسانیت سے کہیں دور لے جا کر چھوڑ چکے ہوں ۔

کسی قوم کا دوام اور اُس کی بقا اُس کی عمدہ تربیت یافتہ نسلوں سے قائم رہتی ہے۔ اُن اچھی نسلوں سے جن کی قومی وجوداور قومی روح سے متعلقہ تربیت پایہءتکمیل تک پہنچ چکی ہو۔۔۔۔ جو قومیں ایک ایسی مکمل نسل کی پرورش نہیں کر سکتیں ‘ جسے قوم کا مستقبل امانت کے طور پر سپرد کیا جا سکے ‘سمجھ لیجیئے کہ ان قوموں کا مستقبل تاریک ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نسلوں کی عمدہ تربیت میں اولین فرض ماں باپ کا ہوتا ہے۔

* * * * *

اگر ماں باپ بچوں کو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے احساسات اور خیالات کی نشوو نما اس مقصد سے کریں کہ وہ اپنے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی مفبد ثابت ہوں ‘ تو وہ قوم کو ایک نئے اور مکمل فرد کے حصول کاوسیلہ بنتے ہیں ۔ اِس کے برعکس اگر وہ انسانی احسا سات کے اعتبار سے بچوں کی تربیت میں تغافل برتیں تو یوں سمجھ لیں کہ گویا اُنہوں نے معاشرے میں ایک قسم کے کیڑے مکوڑے چھوڑ دیئے ہیں ۔

* * * * *

جب تک ایک درخت کی بڑھی ہوئی شاخوں کی کاٹ چھانٹ کی جاتی رہے تو وہ پھل بھی دیتا ہے اور اپنی نسل کی افزائش کا کردار بھی ادا کرتا ہے‘ یہی نتیجہ ایک جاندار کی دیکھ بھال کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ دیکھ بھال نہ کی جائے تو درخت بے ثمر رہ جاتا ہے اور جانداربانجھ ہو جاتا ہے۔ تو پھر انسان کے بارے میں کیا خیال ہے جو بے شماراستعداد ات اور قابلیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا جاتا ہے؟ کیا اُسے کم از کم ایک درخت جیسی دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی؟

* * * * *

اے اولادِ آدم! بچے کو دنیا میں لانے والے تم ہو۔ اُسے بلند کر کے آسمانوں کے اُس پار کے عالموں پر پہنچانا بھی تمہارا ہی فرض ہے۔ اُس کی جسمانی صحت کو اہمیت دیتے ہوئے جس طرح بھاگ دوڑ کرتے ہو اُسی طرح اس کی قلبی اور روحانی زندگی کی خاطر بھی بھاگ دوڑ کرو‘ اُس پر ترس کھاﺅ‘ خدارا اُس بےچارے کو بچاﺅ! اور اُسے اس بات کا موقع ہی نہ دو کہ وہ فضول ہی ضائع ہو جائے!