جمہوریت

جمہوریت کا مطلب ایک ایسی انتظامیہ ہے جس میں عوام کو انتخاب اور مشاورت کا حق حاصل ہو۔ اس کی تعلیم دینے والی سب سے پہلی مکمل کتاب قرآنِ کریم ہے۔جمہوری انتظامیہ کو قرآن کے برعکس ظاہر کرنا اگر کسی خاص مقصد کے لئیے نہیں تو پھرسو فیصد لاعلمی کانتیجہ ہے۔ جمہوریت کی طرفداری کرتے ہوئے اُس کے سرچشمے کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا ہٹ دھرمی کے سِوا کچھ نہیں ۔

* * * * *

جس طرح پیغمبرﷺ نے بادشلہت کا دعویٰ نہیں کیا تھا‘ اُن کے ممتاز اور برگزیدہ خُلفاءنے بھی اپنے آپ کو نہ خدا کہلوایانہ بادشاہ۔ بادشاہت اسلام کی رو ح سے بُعد کے باعث رونما ہوئی اور جتنی اسلام سے دور ہوتی گئی اُتنی ہی ظلم واستبداد کا ذریعہ بنتی گئی۔

* * * * *

جمہوریت جو کہ حقیقی حرّیت اور انصاف کے مفہوم پر مبنی ہے‘ ایک بلند اور محفوظ اداری شکل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت شائستہ نظام بھی ہے‘ خاص طور پر اگر اس کی ان جہتوں کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ نہ رکھا جائے تو اِس کے سینے میں الحاد اور طوائف الملوکی کا پرورش پا کر بڑھنا ناگزیر ہو سکتا ہے۔

* * * * *

حقیقی جمہوریت بلندیوں پر پہنچی ہوئی روحوں کی اداری شکل ہے جو سب سے زیادہ انسان کے وقار کے شایانِ شان بھی ہے۔وہ خام روحیں جو ابھی تک بلوغ کی پختگی تک نہیں پہنچ سکیں یا انسانی کمالات تک لے جانے والی راہوں کا مکمل ادراک نہیں پا سکیں ان کے لیے جمہوریت صحراءکے سراب کی طرح یا پھر عارضی طور پر کھپچیوں سے بنی ایک نا قابلِ رہائش ڈھانچے

کی طرح ہے۔

* * * * *

جمہوریت‘آزادی کی ماں یا مرّبی کی مانند ہے۔وہی حرّیت کی عاشق نسلوں کی پرور ش کرتی ہے اور وہی اُنہیں بڑا کرتی ہے۔ وہ پرورش کر کے بڑا تو ضرور کرتی ہے مگر جمہوریت”بے لگام آزادی“کا ایک ادارہ بھی ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حکومتہے جس میں فضیلت اور اخلاق کی آزادی ہوتی ہے۔

* * * * *

جمہوریت انسان کو بلندیوں پر پہنچانے والی اقدار کے ذریعے اُسے بلندی کی طرف لے جانے کے لیے زمین ہموار کرتی ہے۔ اور پھر اُسے بلند اخلاق اور بیدار ضمیر سے دوچار چھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد ہر شخص اپنے گھر میں اور اپنے کام کے دوران ایک با ارادہ انسان کی حیثیت سے ہمیشہ اچھائیوں اور فضیلتوں کے بارے میں سوچتا اور بلند انسانی اقدارپر عمل پیرا رہتا ہے۔

* * * * *

روح اپنے خمیر میں پائی جانے والی آزادی کی آرزو کے باعث اپنے آپ پرکسی قسم کی حکمران طاقت برداشت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ سوچ‘ حرکت اوراظہارِ خیال پر لگائی جانے والی پابندیوں کے خلاف رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے جمہوریت کے پرستاروں کو چاہیے کہ وہ ایک طرف تو عوام کے وسیع حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کریں اور دوسری طرف عوام کو اخلاق‘ فضیلت‘ غوروفکر اور سوچ کے انسان بنا کر اُنہیں بلندیوں کی طرف لے جائیں ۔

* * * * *

دینی احساسات اور دینی خیالات کی حفاظت کے دوران ان پر کڑی نگاہ رکھنا جمہوریت کے لیے ضروری اور لازم ہے۔ اس لحاظ سے بھی‘ جمہوریت جیسے ایک ادارے میں دینی احساسات اور دینی خیالات کی بناپر میں انسانوں سے حقار ت آمیزسلوک کرنا‘ان پر زیادتیاں کرکے اُن کی بدنامی کا سبب بننا‘ درحقیقت جمہوریت کی حقارت اور جمہوریت پر زیادتیاں کرنے کے مترادف ہے۔

* * * * *

جمہوریت ایسے لوگوں کی محتاج ہے جو اُسے پوری طرح محسوس کرتے ہوں ‘ اس کے بارے میں غوروفکر کر کے اُس کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں ۔جمہوری مجلس(اسمبلی) صاحبِ عقل اور صاحبِ فکر لوگوں پر مشتمل مجلسوں کی طرح با وقار ہونی چاہیے۔ اور اس کی کارکردگی بھی ہر شے کی تہہ تک پہنچنے والی عدالتوں کی طرح حق پرستی اور انصاف پر مبنی ہونی چاہیے۔