ترقی

کسی قوم کی نشوونما اور ترقی کا انحصار اُس قوم کے لوگوں کی فکری اور حسیّاتی میدان میں تربیت پر ہوتا ہے۔ جن قوموں کے افراد کی سوچ اور روشن خیالی کی نشوونما نہیں ہوتی اُن قوموں کی ترقی کی امید نہیں کی جا سکتی ۔

* * * * *

قوموں کی ترقی کے لیے قوم کے افراد کا قومی مقصد اور ہدف کے بارے میں متفق ہونا لازمی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کوئی شخص ایک چیز کو سفید کہے اور دوسرا اُسی کو سیاہ کہے‘ اور جہاں کبھی بائیں بازو سے ٹکراﺅ ہو جائے اور کبھی دائیں بازو سے‘ تو وہاں کسی حالت میں بھی ترقی اور نشوونما نہیں ہو سکتی۔

* * * * *

جن نسلوں نے مشترک تربیت نہ پائی ہو وہ انفرادی طور پر سیکھی ہوئی ثقافت کے مطابق ہمیشہ الگ الگ گروہوں میں تقسیم رہتے ہیں اور ایک دوسرے کواپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ ایک ایسا معاشرہ جو اندرونی طور پر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہو اُس سے ترقی کی امید رکھنا اگر خلافِ عقل نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا مشکل ضرور ہوتاہے کہ اُسے نا ممکن کہا جا سکے۔

* * * * *

ترقی کا ہر کام پہلے تصّور اور سوچ کی شکل میں سامنے آتا ہے‘ پھر عوام سے قبولیت حاصل کی جاتی ہے‘ اور اُس کے بعد اُن لوگوں کی ہمت سے پایہءتکمیل تک پہنچایا جاتا ہے جو ہاتھ سے ہاتھ اور دل سے دل ملا کر کام کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس ترقی کی ہر کوشش اگر سوچ کے مرحلے میں علم کا ٹھپہ نہ لگوائے یا اتنی بدقسمت ہو کہ اُسے عوام کے سامنے تفصیلاَ بیان نہ کیا جا سکا ہو تو اس کی قسمت میں اُس کا انجام صفر ہی لکھا ہو گا۔

کوئی چیز زیادہ صاف ستھری‘ زیادہ چمکدار‘ زیادہ منظم اور زیادہ دلکش اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کی ترقی پایہئِ تکمیل تک پہنچ جائے۔ اس اصول کے تحت مروّج معیار پر اکتفا کرنا کم ہمتی ہے‘ جبکہ مروّجہ معیار سے بڑھ کر اور زیادہ منظم ہونا‘ اور زیادہ بلندپاےہ چیزیں سامنے لانا ترقی ہے۔

* * * * *

سبز ہ زاروں اور لشکر گاہوں کو ویرانوں میں تبدیل کردینا‘ باغوں اور باغیچوں کو گندگی کے ڈھیروں میں بدل دینا ایک تنزّل ہے‘ زوال ہے۔ویرانوں میں بہتری لانا‘ گندگیوں کے ڈھیروں کو باغوں اور باغیچوں کی شکل دینا ترقی ہے۔ترقی یافتہ قوموں کے ملک جنت‘اُن کے پہاڑ باغ‘ اُن کی عبادت گاہیں شاندار محل ہوتی ہیں ۔ ان کے مقابلے میں پسماندہ ممالک کے شہر ویرانے‘ ان کی گلیاں گندگی کے ڈھیراور عبادت گاہیں پھپھوندی سے بھرے حجر ے ہوتی ہیں ۔

* * * * *

ا گرچہ معاشروں کی پیشرفت اور ترقی میں لکھائی پڑھائی کا کردار اتنا زیادہ ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن چونکہ تمام نسلوں کو قومی ثقافت کے مطابق ایک مخصوص سمت میں تربیت نہیں دی جاتی اس لیے متوقع نتائج حاصل کرنا کبھی ممکن نہیں رہااور نہ ہی آئندہ کبھی ممکن ہو گا۔۔۔۔۔۔

* * * * *

ترقی کی ہرمہُم اسی حد تک نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جس حد تک اس پر عمل درآمد کے دوران دورِ حاضر کی صورتحال کا تجزیہ کیا گیا ہو اور گزشتہ نسلوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا گیا ہو ۔ اس کے برعکس اگر ہر نئی نسل اپنے آباواجداد کے تجربات سے استفادہ کرنے کو ذہن میں لائے ہی نہ اور ہر فرد اپنی ہی ایک الگ راہ پکڑ کر اُس پر چلنا شروع کر دے توایسی حالت میں اس قوم کے لوگ اپنی بچگانہ روش اور طریقِ کار کے باعث ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے ہی رہیں گے اور ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔