ابدیت کی راہ پر

خالقِ اعظم جس کی ہستی ہماری ہستی کا سبب ہے‘ جس کی عظمت تمام کائناتوں پر حاوی ہے‘ جس کا نور ہر شے میں نمایاں ہے‘ سارے آسمان اور زمین اُسی کے نور کے عکس سے منوّر ہیں ۔تمام کی تمام موجودات اُسی کی دست بستہ غلام ہیں ۔ وہ اُن پختہ روحوں کا ابدی محراب ہے جن کے دل حقیقت کو پا چکے ہیں ۔ وہ اُن عارفوں کی جانی پہچانی یکتا ہستی اور یکتا قبلہ ہے جن کے احساسات نے اُنہیں پر لگا کر اُڑنے کے قابل بنا دیا ہے۔۔۔۔

اُسے چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے بھاگنا پاگل پن ہے۔اُس کے علاوہ کسی اور کے آگے اپنے غموں اور دکھوں کا اظہار کرنا دھوکہ کھانے کے برابر ہے۔جو اُس کے دروازے کو چھوڑ جاتے ہیں وہ ابدی نقصان اٹھاتے ہیں اور منزل کے راستے پر ہی بھٹکتے رہتے ہیں ۔ وہ دل جو اُس کے نور سے منوّر نہیں ہوتے سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں اور خواہ مخواہ تھکاوٹ کا شکار ہیں ۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام کائناتیں اُسی کے نور سے روشنی پاتی ہیں اور ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیتی اُس کی راہ میں لیے جانے والے جادوئی سانسوں کے بل پر وقت بھی افسانیت سے نکل کر معنے اور قیمت پا لیتا ہے۔

وہی ہے جو اشیاءکو وجود عطا کرتا ہے‘اُنہیں ایک ترتیب اور نظام کا حصّہ بناتا ہے‘ اور ہزارہا زبانوں میں بولنا سکھاتا ہے ۔اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی شے اپنے آپ وجود میں نہ آ سکتی۔ اگر وہ ہر چیز کو ترتیب و نظام کا حصّہ نہ بناتا تو کسی شے کو نظام کا پتہ ہی دنہ چل سکتا ۔ یہ اُسی کی عنایت ہے کہ تمام کائناتیں ایک انسان کی اور تمام نظام ایک زبان کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ہر شے اُسی کے گُن گاتی ہے اوراُسی کی خوبصورتیوں اور حسن و جمال میں سرمست ہے!

اگر موجودات اُس کا آئینہ نہ ہوتیں تو پھر اس میں اور زنگ آلودہ لوہے میں کیا فرق رہ جاتا؟ اگر انسان اُس کا ذکر نہ کرے توکیا وہ انسان کہلایا جا سکتا ہے؟ آہ‘ یہ تاریک روحیں ‘ آہ ‘ یہ بہرے لوگ جو اپنے ضمیر کی فریاد نہیں سن رہے! تم لوگ کب تک کھلونوں سے اپنے آپ کو تسلّی دیتے رہوگے اور کب تک حقیقتوں کی طرف سے آنکھیں بند کئے رکھو گے!

انسان کی اولاد کی تخلیق چونکہ ہر طرف سے مادے میں لپٹی ہوئی دنیا میں ہوئی تھی اس لیے وہ سب سے پہلے چیزوں پر یقین کرتا ہے جن کی اُس کے حسّی عضویات توثیق کرسکتے ہیں ۔ اِس کے بعد اِن کے معنوں کی مدد سے اپنی گردن کے گِرد پڑے انا کے طوق کو توڑ کر اپنے ضمیر کے اندر کی حقیقت کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اِس پتلی سی زنجیر میں پھنس کر رہ جانے والے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔اِن کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے اِرد گِرد گھیرا ڈالے کھڑی اشیاءہاتھ آئیں تو ایک کتاب کی طرح ان کا مطالعہ کرنا چاہئیے اورایک کورس کی طرح اُنہیں سننا چاہیے۔ اِسے پڑھتے اور سنتے وقت کتاب کے مصنف اور کورس کے موسیقار کی طرف سے غفلت نہیں برتنی چاہیے ۔اِس کے برعکس‘ ضمیر میں دھڑکتے حقیقت کے سانسوں پر کان دھرے بغیر‘ کائنات کو ادھیڑ کر رکھ دینے والے ‘ اور خود کو دلیلوں میں ڈبو دینے والے بیوقوف لوگ کبھی بھی اُسے نہیں پا سکیں گے اور نہ ہی اُس کے حضور میں حاضری دے سکیں گے۔اِنہی لوگوں کی طرح وہ بدبخت روحیں بھی اُسے نہیں پہچان سکیں گی جو اُس کے بیان اور کتاب کے ساتھ اپنی آنکھوں اور کانوں کے پردوں میں بھی سوراخ کر کے ‘ اپنے ضمیر کے اندر موجود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں ۔

اے اپنی ہستی سے ہماری ہستیوں کو منوّر کرنے والی‘ ہماری آنکھوں میں نور بکھیر کر ہمیں نفسانی تاریکیوں سے دلانے والی رحمتِ لازوال! اگرتیری کائناتوں کو منوّر کرنے والی یہ ازلی روشنی نہ ہوتی تو ہم کسی شے کو ٹھیک طرح نہ دیکھ سکتے اور نہ ہی کوئی درست فیصلہ کر سکتے۔ ہم سب نے تیری ہی عنایت سے وجود پایا۔تیری یہ عنایت ہمارے سروں پر تاج بنی رہے! جو کچھ تُو نے ہمیں بتا یاہم نے اُسی سے حقیقت کو پایاہے۔ اگر ہم پر عنایت کرتے ہوئے تُو ہماری روحوں کو اپنی ہستی سے روشناس نہ کراتا تو ہمیں کہاں سے پتہ چلتا‘ کیسے اطمینان ہوتا۔۔۔؟

ہر ہستی کے لیے ایک زبان اور اِن زبانوں کے درمیان انسان کو ایک بلبل بنانے والا تُو ہے۔ تیرذکر کرنے والوں کی تعداد کبھی کم نہ ہو! جی ہاں ‘ یہ کام کرنے کے بعد تُونے چاروں سمت میں بکھری ہوئی اپنی آیات کو پڑھوایا اور ہماری ضمیر میں ابدی حقیقت کو ایک بار پھر ہمارے کانوں تک پہنچایا! اِس وسیلے سے ہم خالق اور مخلوق کے باہمی رشتے سے آگاہ ہو جاتے اور ہمارے دلوں میں بہتے معرفت کے فوّاروں کے ذریعے بلند ہو کر تیرے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔ اور پھر اِسی وسیلے سے نفس کی تاریک بھوُل بھلیّوں سے‘ احساسات کی گرداب کی طرح چکر کاٹتی جہالت اور نا دانستگیوں سے نجات پا کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں ۔تُجھے سمجھ کر ہم نے علم کا نچوڑ حاصل کیا اور اُن خوبصورتیوں سے آگاہ ہوئے جو تُونے مختلف اشیاءکی روح میں پیدا کر رکھی ہیں ۔اور اگر اب ہم نے موجودات کی ہستی میں پوشیدہ تیری حکمتوں کو جان لیا ہے اور ہم فطرت میں موجود ہر صدا میں پائے جانے والے سب سے میٹھے نغموں کو موسیقی کے دلفریب ماحول میں سن سکتے ہیں تو یہ سب کچھ ہمیں تیری ہی طرف سے ملا ہے۔ ہماری روحیں قربان ہوں اُس ذات پر جو ہمیں یہ سب کچھ سُنواتی ہے!

یہ پُرشکوہ کتاب جو تُو نے ہمارے سامنے پھیلا رکھی ہے اِس میں تُونے اپنی بے مثال خوبصورتی کے مرقعوں کی مدد سے اپنی خوبصورتی کی تشہیر کر کے ہمارے دلوں میں جوش پیدا کیا ہے۔تُونے ہماری زبان کی گرہیں کھول کرہمیں یہ شرف عطا کیاہے کہ ہم تیری اِن خوبصورتیوں کو داستانوں کی شکل دے کر اپنا حق ادا کریں ۔تیرے بے مثال جمال کی تشہیر کرنے والی کائنات کی اِس کتاب کا ہم سینکڑوں مرتبہ مطالعہ کریں ‘ بارہا تیری ہستی کے گُن گاتے نغمے سنتے رہیں ‘ اور اِس کتاب کو اور نغموں کو بار بار تیرے دیدار کے مشتاق لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنے بازوﺅں پر پر لگوالیں پھر بھی ہماری اِس نورانی ماحول کی دپیاس نہیں بجھے گی‘ پھر بھی ہم تجھے سُننے کی خاطر‘تجھ پر کان دھرنے کے لیے تیری ہی طرف بھاگیں گے اور تیری راہ کے حسرت بھرے سودائیوں کی حیثیت سے ہمیشہ تیرا ہی نام گُنگناتے رہیں گے۔

اے سلطان‘ کہ جس نے اپنی ہستی کی پوشیدہ خوبصورتیوں سے ہمارے دلوں کو آگاہ کیاہے!آج تک ہزارہا مرتبہ تیرا ذکر سنایا گیا‘بارہا تیرے عشق کے پیاسوں کے دلوں کو آبِ کوثر کے کٹوروں کے کٹورے پیش کیے گئے‘مگر وہ چمکتی دمکتی روحیں جو تیری راہ میں چل چل کر مٹی بن چکی ہیں ‘اُن کے جنت کی ہواﺅں کی طرح چلتے نغموں کے مقابلے میں اِس تھکی ماندی آواز‘ اس شکستہ رباب‘ اور اس اناڑی ہاتھ کاذِکر کِس کام کا؟ لیکن یہ تُو ہے جس نے ہر شخص کو بات کرنے کا حق عطا کیا‘ ہم تیری درگزر کرنے کی وسعت کو اپنے بے شرم چہرے کا نقاب بنا کر‘ تیرے نقیبوں اور نمائندوں کے فصیح و بلیغ بیانات کے دوران اپنا ”ٹوٹا پھوٹا نغمہ“ سُنانے کی جرات کرتے اور تیری بخشش کی پناہ مانگتے ہیں ۔

تاہم اس موضوع پر آخری لفظ اُنہیں کا ہو گا۔ ہم ایک مرتبہ پھر اعتراف کرتے ہیں کہ صورتِ حال یہی ہے۔ اُن دکے آبشاروں جیسے بیانات کے دوران ہم ازسرِنو تیرا ذکر کرنے‘ اور تیری معرفت کے بے کراں سمندروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

آج تک ہم تیرا بیان کرنے والوں میں سے کچھ نقیبوں کی بات سن چکے ہیں ‘ اُن کی آوازوں پر کان رکھتے ہوئے اُن کے اِشاروں کو بھی ٹوہتے رہے ہیں ۔ اب ہماری خواہش یہ ہے کہ ہمارے دلوں تک کھُلنے والے ہر راستے کو ایک ایک کھڑکی تصوّر کرتے ہوئے تیرے مختلف اشاروں اور اشارے کرنے والوں کے ساتھ ہر شے سے تیرے بارے میں پوچھیں ‘ ہر جگہ پر تجھے تلاش کریں ‘ اور ایک مختلف راہ سے تجھ تک پہنچنے کے لیے بلندیوں کی جانب بڑھتے جائیں ۔ اپنے نور سے ہماری آنکھوں دکو منوّر کر کے ہمارے دلوں کو درماں عطا کر ! راستے میں ہی رہ جانے والوں کی مدد کے لیے بھاگ کرپہنچنے والے تیرے در کے اِن سچّے غلاموں کو ایک بار پھر یہ امکان عطا کر دے کہ وہ تیری ذات کو بیان کر سکیں اور یوں اپنے اُن غلاموں کو ابدی خوشی سے ہمکنار کر دے‘ جن کا یقین ہے کہ تیری راہ ہر شخص کے لیے آزاد نہیں ہے۔ تیری ذات کو عظمت اور اُن کی ذات کو نقابت ہی زیب دیتی ہے۔