بے ثباتی اور ثبات

حقیقت کو پا لینا اور اُسے اپنا دل دے دینا جس قدر اہم ہے ‘ حقیقت کو پا کر اُس سے وفاداری کرنا‘ اُس کی بتائی ہوئی راہ پر ثبات سے چلتے رہنا بھی اُتنا ہی اہم ہے۔اور اُس پر سختی سے قائم رہنا بھی ایک قابلِ قدر خاصیت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص روحانی طور پر حقیقت کی روشنی پا لیتا ہے اُس کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ آسانی سے اپنی راہ اور جہت تبدیل کر لے گا۔۔۔! جہاں تک ایسے لوگوں کا تعلق ہے جو صبح شام بغیر وقفے کے اپنے محراب تبدیل کرتے رہتے ہیں ‘ تو وہ اِن بدنصیبوں میں سے ہوتے ہیں جو ابھی تک حقیقت کو نہیں پا سکے‘ یا اُن نالائقوں میں سے ہوتے ہیں جنہیں حقیقت کی قدروقیمت کی سمجھ ہی نہیں آ سکی۔

وہ خوش قسمت لوگ جنہوں نے اپنے دلوں کو حقیقت کے سمندر کا ساحل بنا لیا ہے‘ وہ ایک غیر تسکین پذیر آرزو اور اشتیاق کے ساتھ اُس سمندر سے آنے والی لہروں کو اپنے سینے پر قبول کرتے اور پھر یہ پوچھ کر اپنے لیے شہرت کماتے ہیں کہ ”کیا اور بھی ہیں ؟“ یہ وہ لوگ ہیں جن کا دورِ جستجو ختم ہو چکا ہے‘ جو اپنا محراب پا چکے ہیں ‘اور جن کی روحوں میں حقیقت ہمیشہ کے لیے گھر کر چکی ہے۔ جہاں تک لگاتار موجزن رہنے والے لوگوں کا تعلق ہے تووہ یا تو جستجو کے اصولوں سے نابلد محدودِے چند ناتجربہ کار شخص ہوں گے یا پھرایسے قوتِ فیصلہ سے محروم افراد ہوں گے جو جستجو اور حصول کے فرق سے ناواقف ہونے کے باعث اِن دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیتے ہیں ۔حاصل وہی کرتے ہیں جو جستجو کرتے ہیں ۔ جو حاصل کر چکتے ہیں وہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے ہیں ۔ اور جو سرگرداں یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے حقیقت کو پا لیا ہے وہ زندگی بھر ایک ہی جگہ پرگھومتے رہتے ہیں ۔

* * * * *

ایک ہی جگہ پر ڈٹ کر اپنی پوزیشن کی حفاظت کرنا دشمن کو مغلوب کرنے اور اپنے ہدف تک پہنچنے کا اوّلین ذریعہ ہے۔ محاذ کو ترک کر کے الگ ہو جانے والے‘ اپنی پوزیشن کو ترک کر دینے کی گھڑی سے ہی شکست کی راہ پر گامزن سمجھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

محاذ سے فرار ہونے والا ہر شخص سب سے پہلے اپنے ضمیر کے سامنے اور پھر تاریخ اور آنے والی نسلوں کے سامنے اپنے آپ کو ملزم گردانتا ہے۔ اِس وجہ سے گویا وہ اپنے مقصد کے دشمن عناصر کے ہاتھوں پِٹ جاتا ہے۔ ہر عظیم دعوے کی خاطر اپنی پوزیشن کا ثبات کے ساتھ دفاع کرتے رہنا بہادری کی علامت ہے۔ ہوا کی رَو کے مطابق اڑتے پھرنے والے نفس کے غلام جو آزادی قبول نہیں کرتے‘ اگر یہ بات نہ سمجھیں ‘ اِسے سمجھنے کی نیت بھی نہ رکھتے ہوں تو وہ علیحدہ بات ہے ۔ مگر جو حقیقتاََ انسان ہیں وہ جب ایک مرتبہ حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں تو پھر ذاتی مفادات اُن کے پاﺅں کی زنجیر نہیں بن سکتے‘ خوف اُن کا راستہ روک کر اُن کے لیے سدِراہ نہیں بن سکتا‘ شہوت اُن کا پیچھا نہیں کر سکتی۔ وہ اِن سب رکاوٹوں کے اوپر سے گزر جاتے ہیں جیسے وہ ہوا میں پرواز کر رہے ہوں ۔

* * * * *

خدمت کے دوران لگاتار اپنے افکار اور مقام تبدیل کرنے والے لوگ نہ صرف اپنی خوداعتمادی اور بھروسے کے احساسات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں بلکہ مسئلے کے حل میں اپنے ساتھیوں کے لیے بھی امیدشکن ثابت ہوتے ہیں ۔ جس طرح ذوق و شوق سے مارچ کرنے والی کسی جماعت میں سے کسی ایک شخص کا صف سے نکل کر غائب ہو جانا اُس یونٹ کی رفتار کی روانی میں خلل اور اِس جماعت میں ابتری پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے بالکل اسی طرح ایک مشترکہ آئیڈیل کے حصول کی دئیے گئے کسی گروہ میں سے بعض لوگوں کا علیحدہ ہو جانا بھی دوستوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔اُن میں (شرمندگی) بد بینی اور ذلت کا احساس پیدا کر تا ہے‘ جبکہ دشمنوں کو خوشیوں سے ہمکنار کر دیتا ہے۔

* * * * *

وہ لوگ جو اکثر اپنے عہدوپیمان توڑ کر فیصلے کرنے کے معاملے میں ڈھلمل یقینی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں ‘ ایک دن آتا ہے جب وہ خوداعتمادی کھو کر آہستہ آہستہ دوسروں کے زیرِ اثر چلے جاتے ہیں ۔یہ مفلوج روحیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت مکمل طور پر کھو بیٹھتی ہیں اور پھر اپنے لیے بھی اور اپنے معاشرے کے لیے بھی ایک ضرررساں عنصر بن کر رہ جاتی ہیں ۔

* * * * *

آج ایک قسم کے چھوٹے چھوٹے حسابوں تلے پسے جانے والے‘ اپنی حیثیت‘ منصب‘ شہرت‘ اور شہوت جیسی چیزوں میں الجھ کر رہ جانے والے لوگ جب مفادات کی قوس ِقزح کی طرح ہمارے افق پر چھا جائیں گے‘ جب اُن کے خوف اور اندیشے ہمارے اِرادوں پر کمند پھینکیں گے‘ توپھر کون جانے وہ لوگ کیا کچھ کر ڈالیں گے۔۔۔۔؟

* * * * *

انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے پتہ چلتا ہے ہزاروں مزدوروں اور جانبازوں کا خون پسینہ بہا کر کئی شہر اور قلعے فتح کئے گئے مگر کئی بار محض ایک غدّار اور نامرد کی غدّارانہ حرکت کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ سب دوبارہ ہاتھوں سے نکل گئے۔ایسے واقعات خواہ صرف کسی ایک قوم تک ہی محدود کیوں نہ ہوں ‘ تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ لغاتوں میں بھی نہیں سما سکتے۔

* * * * *

آہ‘ قاتل شہرت‘ بے ایمان شہوت‘ قابلِ نفرت طمع کاری !۔۔۔کتنی روحیں ہیں جو محض ایک ہی بار تمہارے احاطے میں آئیں اور آتے ہی پیلی زرد ہو کر مُرجھا گئیں ۔ کتنے دل ہیں جو تمہاری آب و ہوا میں آ کر خزاں رسیدہ پودوں کی طرح پتہ پتہ جھڑنے سے غائب ہو گئے۔ اور کتنے سروقامت انسان تمہارے شوخ قہقہوں کے نتیجے میں معبد چھوڑ کر میخانوں میں جا گرے۔ جی ہاں ‘ تمہارے ماحول میں آنے والے دلیر جوان تتلی بن گئے‘ پھوہڑ ہو گئے۔تمہارے اِردگِرد آنے والے جوان بوڑھے ہو کرغائب ہو گئے!۔۔۔