خودغرضی کا گرداب

انسان کو خودی کی امانت ایک مقدس تحفے کے طور پر اِس لیے عطا کی گئی ہے کہ وہ عظیم ترین حقیقت کو پہچانے اور حاصل کرے۔یہ ایک ایسا تحفہ ہے جسے کام ختم ہوتے ہی پتھر مار کر توڑ دینا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے توخودی اکڑ پھول کر ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو اپنے مالک کو بھی نگل سکتی ہے۔خودی کی مدد سے انسان خالقِ اعظم کو ‘ اُس کی طاقت‘علم اور اِرادے کے لامتناہی ہونے کو‘ اپنی ہر کمی اور قصورکو اُس کے کھاتے میں ڈالنے کے ناممکن ہونے کے بارے میں سب کچھ جان جائے گا اور پھر اپنے سینے میں سلگائی گئی معرفت اور محبت کی آگ سے اپنی خودغرضی کو پگھلا کر ختم کر دے گا۔ا ب وہ صرف خالق اعظم کی ہستی کو ہی دیکھ سکے گا‘ اُسی کے خیال میں سوچے گا‘ اُسی کے ذریعے جانے گا‘ اور صرف اُسی کے دم سے آرام پائے گا۔

* * * * *

ہمیشہ کی خودغرضی اِس بات کی علامت ہے کہ انسان حق کو نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی اُسے سمجھ سکتا ہے‘ آخرت کی راہ پر فاصلہ طے نہیں کر سکتا اور آنکھیں بند کر کے ایک ہی جگہ پر گھومتا رہتا ہے۔ جو لوگ اپنی سوچ میں ہمیشہ خودغرضی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں ‘ خودغرضی کے ساتھ ہی اٹھتے بیٹھتے ہیں ‘ اور جس شے کے متلاشی ہوتے ہیں اُسے اپنی انا کے اندھیرے ماحول میں ہی تلاش کرتے ہیں ‘وہ اگر سالہا سال پہاڑوں اور وادیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے چلتے رہیں پھر بھی ذرہ بھر فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔

* * * * *

مجوزہ کام خواہ کتنے ہی مشکل اور تھکا دینے والے کیوں نہ ہوں ‘ اگر خودغرضی کے حساب سے کئے جائیں گے تواُن سے انسان کی فضیلت میں کسی صورت بھی اضافہ نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ دربارِ الٰہی میں قبولیت پائیں گے۔ اپنی انا کو عبور نہ کرسکنے والے لوگ‘وہ جو اپنی خودغرضی کے پیٹ میں چھری گھونپ کر اُس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر سکے ہوں ‘ وہ جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہو‘ وہ آخرت کے لیے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں وہ سب اپنے آپ کوجھوٹی تسلی اور دھوکہ دینے کے مترادف ہوتی اور اُن کی ہرقربانی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔

* * * * *

خودغرضی چونکہ ایک شیطانی خصلت ہے اِس لیے کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اِس کے نرغے میں آنے کو بھی شیطان ہی کی عاقبت تک پہنچایا جائے گا۔ شیطان کی معذرت اور اُس کا اپنا دفاع بھی ایک ایک نغمئہ خودغرضی حضرت آدم(علیہ سلام) جب افق پر اندھیرا چھاتی گھڑی میں ‘ اپنے آنسوﺅں کے بالکل نئے بادل تیار کرکے اُن سے اپنے دل کی حسرت کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے تو اُس کے مقابلے میں اِبلیس اپنی معذرت سمجھ کر جو کچھ منہ سے اُگل رہا تھا اُس کا ہر لفظ غرور اور عناد تھا اور اُس کا ہر بیان گُستاخی کے مترادف تھا۔۔۔

* * * * *

خودغرضی کی بہت سی قسمیں ہیں ۔مثلاَ وہ جس کا منبع علم ہوتا ہے‘ وہ جو دولت اور اقتدار پر مبنی ہوتی ہے‘ وہ جو عقل اور حسن و جمال کے بل بوتے پراکڑتی اور بڑھتی رہتی ہے‘ وغیرہ۔۔۔ اِن صفات میں سے ایک بھی انسان کی ذاتی خصلت ہونے کے باعث وہ اِس سلسلے میں جتنے دعوے کرتاہے اُن سب کا انجام مالکِ حقیقی کی طرف سے آنے والے عذاب کا وسیلہ اور دعوت نامہ تصور کیا جاتا ہے اور یہ اِیسی مغرور روحوں کی ہلاکت پر منتج ہوتا ہے۔

* * * * *

کسی شخص کی اناجو اُس کی انفرادی دنیا کو اپنے زیرِ اثر لے آتی ہے ‘ وہ جب ایک گروہ کی انا کے ساتھ شانے سے شانہ ملا لے تو یہ سب ایک مہیب عفریت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔یوں درندہ صفت بن جانے کے بعدکسی روح کی تمام اعلیٰ سے اعلیٰ نیکیاں بھی کالے سیاہ بادل کی طرح ہو جاتی ہیں اور ہر طرف گولے اور بم برسانے لگتی ہیں ۔جی ہاں ‘ اِس قسم کے لوگوں کا اثاثہ ءعلم ایک مصنوعی شعاع میں ‘ اِن کی دولت اکڑ اور دکھلاوے کے وسیلے میں ‘ اِن کا دل کنکھجوروں کے بستر میں تبدیل ہو جاتا ہے ‘ اُن کا حسن و جمال ایک غم کا صفحہ بن کر اِرد گِرد کے ماحول میں بدمزگی پھیلانے لگتا ہے‘ اور اُن کی عقل جو دوسروں کو دو کوڑی کا انسان بھی نہیں سمجھتی وہ ایک منحوس مسخرے کا لبادہ اوڑھ لیتی۔

* * * * *

پرانے زمانے سے خودغرضی کا مادہ پرست فلسفہ‘ اور پیغمبری دونوں حق اور انکساری کی نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ اول الذکر کی راہ میں شک وشبہات‘ہچکچاہٹ‘دھوکہ بازی‘ شدت اور غصّہ پایا جاتا تھا جس کے باعث وہ برفانی تودوں کے باہمی ٹکراﺅ کے ہیبت ناک نتیجے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں آخرالذکر کی راہ میں روشن خیالی‘ قلبی مسرت اور بشاشت‘امدادِ باہمی کے لیے تگ و دو‘ اور ایک دوسرے کی مدد پائی جاتی ہے۔

* * * * *

روح کی وہ حالت جس میں موقع ملتے ہی کوئی شخص اپنے بارے میں اِردگِرد کے لوگوں کو معلومات فراہم لگ جاتا ہے دراصل اس شخص میں کسی چیز کی کمی اور احساسِ کمتری کا اظہار ہے۔ اِس طرح کے لوگ جب تک عمدہ قسم کی روحانی تربیت کے ذریعے اپنا سارا مال متاع مالکِ حقیقی کی راہ میں قربان کرنے کو تیار نہیں ہو جاتے اِن کی یہ حالت برابر جاری رہتی ہے۔اِن کا ہر کام اکڑ‘ ہر بات ببانگِ دُہل انا‘ ہر اظہارِ انکسار اور خاطر تواضع بھی یا تو سراسر دکھلاوا ہوتی ہے اور یا ایک ایسی سرمایہ کاری جس کا مقصد دوسروں کو اِن کے بارے میں بڑ مارنا سکھانا ہوتا ہے۔ ہزار لعنت اُن خودغرضوں پر جو حق سے نا واقف ہیں ۔

* * * * *

جس طرح خودغرض انسان کا دوست کوئی نہیں ہوتا اِسی طرح اُس کے ضمیر کے لیے امن کا بھی فقدان ہوتا ہے۔