اِنسانیت یا مُروّت

جیسے سلوک کی امید توُ دوسرے لوگوں سے کرتا ہے‘ دوسروں کا تجھ سے امید کیا جانے والا سلوک بھی ویسا ہی ہے۔

* * * * *

دوسروں کی مدد کو بھاگنا اللہ تعالےٰ کی عنایت میں پیش کیا جانے والابلیغ ترین دعوت نامہ ہے۔

* * * * *

خواہ ایک ہی مسکراہٹ سے کیوں نہ ہو‘ تجھے اپنے بھائی کو خوش کرنے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔

* * * * *

انسانوں سے محبت کرنا اور اِس محبت کا اُنہیں احساس دِلانا آدھی عقل کے برابر ہے۔

* * * * *

انسانوں کے درمیان تیرا مقام وہی ہے جو تیری نظروں میں اُن کا مقام ہے۔

* * * * *

جو لوگ مسلسل اپنے اردگرد کے لوگوں پر چیختے چلاتے رہتے ہیں ‘ وہ اپنی خواہشوں کے خلاف دوستوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اور دشمنوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔

* * * * *

جو شخص ہر جگہ ناک گھُسیڑتا رہتا ہے وہ کبھی بھی تہمت سے نہیں بچ سکتا ۔

یہ مت بھول کہ تجھے خوشی پہنچانے والی چیزیں سارے جہان کو بھی خوش کرنے والی چیزیں ہوتی ہیں ۔

* * * * *

عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے ماحول کی طاقت کو بھی اپنی طاقت کے طور پر استعمال کرنا جانتا ہے۔۔۔۔۔بے عقل اور اناڑی انسانوں کے لئے اس امکان کا استعمال تو ایک طرف وہ اپنے گردونواح کو قصوروار ٹھرا کر اس طاقت کوخود اپنے خلاف استعمال کیئے جانے کا سبب بنتے ہیں ۔

* * * * *

ہمسائیگی ہمسائیوں سے ہی کی جاتی ہے۔

* * * * *

تجھے جس کسی کے شر سے اندیشہ ہے‘ تُو اُسے اپنی نیکیوں سے نرم کرنے کی کوشش تو کر!

جب تجھے سزا دینے کی طاقت حاصل ہو جائے تو لوگوں کو معاف کر تا کہ معافی کی بھی قدر ہو۔

* * * * *

خبردار ! یہ مت بھول کہ تیرے بہت سے بھائی ایسے بھی ہیں جنہیں تیری ماں کی گود میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔۔۔!

* * * * *

ماسِوا غیر مشروط طور پر اطاعت کرنے والوں کے‘متعصب قسم کے لوگ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو روند کر گزر جاتے ہیں ۔

ہر شخص کو خوش رکھنا ہر بہادر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔

* * * * *

نیکی پانے کا راستہ نیکی کرنے کی راہ سے گزرتا ہے۔

* * * * *

غرض انسان کو اندھا‘ بہرہ اور بے حس بنا دیتی ہے۔

* * * * *

ہمارا دوسروں کے ساتھ اچھا یا برا سلوک‘ کل ہمیں پیش آنے والے سلوک کا بیج ہوتا ہے۔

* * * * *

روح کے آئینے میں اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیاں بھی قطار در قطار نظر آتی ہیں ۔

* * * * *

آئیڈیل انسان چاہے نہ چاہے ایک موم بتی کی طرح جلتا اور دوسروں کو روشن کرتا ہے۔

لمبی زبان اور چھوٹا ہاتھ سانپوں کو تو شاید زیب دیتا ہو مگر انسان کے لیے سانپ بن جانے کے مترادف ہے۔

* * * * *

معاف کرنے کی قیمت اسی نسبت سے بڑھتی یا کم ہوتی ہے جس نسبت سے سزا دینے کے امکانات اور اختیارات بڑھتے اور کم ہوتے ہیں ۔