حریّت(آزادی)

حریت کا مطلب ہے روح کے بلند احساسات اور خیالات کے علاوہ کسی قسم کی بندش یا پابندی قبول نہ کرنا‘ خیر اورفضیلت کے علاوہ اور کسی قسم کے اصول کا مقید نہ ہونا۔

* * * * *

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے ضمیر کی آزاد فضاﺅں میں اڑتے پھرتے ہیں اور خواہ ایک پل کے لیے ہی کیوں نہ ہو اپنے آپ کو قید یا اسیری میں محسوس نہیں کرتے۔ اور کئی دوسرے لوگ بھی ہیں جو محلوں اور کاشانوں کے دماغ کو چکرا دینے والے اور آنکھیں چندھیا دینے وا لے جاہ و جلال اور دبدبے کے باوجود حریّت کو اس کی ساری گہرایوں کے ساتھ کسی طرح محسوس نہیں کرتے اور نہ اس کا ذائقہ چکھ سکتے ہیں ۔

* * * * *

جو لوگ حریّت کو مکمل آزادی سمجھتے ہیں وہ جان بوجھ کر یا نادانستگی میں انسانی آزادی اور حیوانی آزادی کو ایک دوسرے سے خلط ملط کر دیتے ہیں ۔ حالانکہ گھٹیا قسم کی نفسانی اور جسمانی خواہشات پورا کرنے کو مادر پدر آزاددلوں کی طرف سے حریّت کے زمرے میں شامل کرنا کُلّی طور پر ایک حیوانی خاصیت ہے۔اس کے مقابلے میں وہ آزادی جو روح کی راہ سے رکاوٹیں ہٹا کر ضمیر کے جرائت مند بننے کے امکانات پیدا کرتی ہے وہ مکمل طور پر ایک انسانی خاصیت ہے۔

* * * * *

حریّت کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ یہ غیر مشروطیت اور لااُبالی پن کے پاتال تک گرے بغیر‘ انسان کے دماغ کااپنی مادّی اور معنوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے بندھنوں سے آزاد ہونے کا نام ہے۔

* * * * *

حریّت انسان کو کہتی ہے:” تم حق کے متعلق خیالات سے مربوط رہتے ہوئے دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی مرضی کے مطابق جو چاہو کر سکتے ہو۔“

* * * * *

مقبول حریّت تمدنی حریّت ہوتی ہے۔ اور یہ وہ حریّت ہے جو دین اور اخلاق کی جواہرات سے جڑی ہوئی زنجیروں سے اور صحیح و سالم خیالات کی سونے کی پیٹی سے بندھی ہوتی ہے۔

وہ حریّت جو دینی احساسات اور دینی سو چ کو نہیں مانتی‘ جو اخلاق کی قدر نہیں کرتی‘ جوفضیلت کا گہوارا نہیں ہوتی‘ وہ ایسی خارش جیسی بیماری ہے جس سے ہر قوم نفرت کرتی اور دور بھاگتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے معاشرے جلد یا بدیر‘اپنا تمام آرام و آسائش کھو بیٹھیں گے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ یہ ناممکن ہو جائے گا کہ ارد گرد کے معاشرے اس سے قطع تعلق نہ کر لیں ۔