ادبیات

ادبیات کسی قوم کی روحانی ساخت‘ سوچ اور عرفان کی دنیا کی ایک فصیح و بلیغ زبان ہوتی ہے۔ جن افرادکی روحانی ساخت‘ سوچ کا نظام‘ اور عرفان کی زندگی مشترک نہیں ہوتی وہ خواہ ایک ہی قوم کے افراد کیوں نہ ہوں اُن کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔

* * * * *

الفاظ ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک‘ ایک روح سے دوسری روح تک خیالات منتقل کرنے کے اہم ترین وسیلوں میں سے ایک وسیلہ ہیں ۔ جو اربابِ فکر اس وسیلے کو کامیابی سے استعمال کرسکتے ہیں اُنہیں تھوڑے ہی عرصے میں اپنی روح میں جوش کھاتے خیالات کی نمائندگی کے لیے بے شمار انسان مل جاتے ہیں اور وہ اپنے خیالات کی بنا پرزندہ ءجاوید ہو جاتے ہیں ۔ جن لوگوں کے لیے یہ بات ممکن نہیں ہوتی وہ عمر بھر خیالات کی ٹیسیں برداشت کرتے رہنے کے باوجود اپنا کوئی نقشِ قدم پیچھے چھوڑے بغیر مر مٹ جاتے ہیں ۔

* * * * *

ادبیات کی ہر نوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ‘ کہ جن میں اُس کا اپنا منفرد سازو سامان اور ادا کا مقصدبھی شامل ہیں ‘ بذاتِ خود بیان کی ایک راہ اور متعلقہ نوع کی مخصوص زبان ہوتی ہے۔ ہر شخص کسی حد تک سمجھتا ہو تو بھی اِس زبان کو حقیقی معنوں میں استعمال کرنے اور اُس میں کلام کرنے والے محض شاعر اور ادیب ہی ہوتے ہیں ۔

* * * * *

جس طرح سونے اور چاندی کی پہچان صر ف زرگرکو ہوتی ہے اِسی طرح الفاظ کے جواہرات کو بھی الفاظ کے جوہری ہی سمجھتے ہیں ۔حیوان زمین پر گرے پھول کو منہ میں لے کر چبانا شروع کر دیتے ہیں ۔ یا پھر پھول کی قدر نہ جانتے ہوئے اُسے پاﺅں تلے روند کرآگے نکل جاتے ہیں لیکن انسان اُسی پھول کو سونگھ کر اپنے سینے پر ٹکا لیتے ہیں ۔

* * * * *

بلند خیالات اور مفہوم ہر صورت میں ذہن پراثرانداز ہوں گے‘ دلوں میں ہیجان پیدا کریں گے‘اور روح کی طرف سے اُنہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔انہیں خوش اسلوبی سے بیان کرنا چاہیے ورنہ ایک طرح کے لفظ پرست لوگ معنوں کی کمر پر پھٹے پرانے اڑتے بکھرتے لباس دیکھ کران کے اندر چھپے ہوئے جوہرات کی قدروقیمت نہیں پہچان سکیں گے۔

* * * * *

ادبیات کی غیر موجودگی میں نہ حکمت کو اس کا موجودہ پُر شکوہ مقام ملتا‘ نہ فلسفہ دورِ حاضر تک پہنچ سکتا‘ اور نہ ہی خطابت ہمارا متوقع کردار ادا کر سکتی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمت‘ فلسفے اور خطابت نے ادبیات کے سامنے ایک لازوال سرمائے کی طرح اپنے خزانوں کی نمائش کر کے اُسے حیاتِ ابدی حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔

* * * * *

ادباءاور شعراءباطنی اور مادی دنیا کی خوبصورتیوں کومشاہدے کے وسیلے سے محسوس کر کے ُانہیں بلانے میں ایک نَے نواز کی طرح ہوتے ہیں ۔ اُن کی وساطت سے انسان اُس گیت کی بلند ہونے والی آوازوں کے معنی اور ماہیت کو سمجھتا ہے جو کئی گویّے مٍل کر گاتے ہیں ۔وگرنہ جذبات کے ذریعے اُن کی روحوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے شعلوں سے بے خبر کوئی شخص یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ نَے کیا ہے اور نَے سے نکلنے والی فریاد کیا معنی رکھتی ہے۔

* * * * *

اگر اُس کا ماخذ پاک صاف ہو توفن کی ہر شاخ اور فن کا ہر ٹکڑا‘ آب و ہوا کے مختلف طبقات کی الگ الگ خوبصورتیوں ‘اُن کے مخصوص پھولوں اور پھلوں ‘اور اُن کے ذائقوں اور خوشبوﺅں کا اظہار کرنے کے لحاظ سے کم و بیش ایک ہی جیسا خوبصورت‘ دلکش اور نفیس ہوتا ہے۔

* * * * *

ادب کا ماجرا بھی بالکل فن کی دیگر اصناف کی طرح ہے۔یہ بھی چھٹی حِسّ‘ اشیاءکے ساتھ یک جان ہونے‘ بالائے ہدف ا ور فوق الزمان ہونے کی کیفیت‘ اور اِس کیفیت ( یا ابعادِ ثلاثہ ) کے ذریعے ابدیت تک جا پہنچتا ہے۔اِس لیے فنکار کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کہ وہ مشاہدے میں آنے اور محسوس کی جانے والی ہر شے کو پھلانگ کر عالمِ بالا سے آنے والے جھونکوں کی آمد کے لیے اپنے آپ کو کُشادہ دل رکھے۔

* * * * *

نظم ہو یا نثر مقاصد کے اظہار کے لیے استعمال کیا جانے والا ہر لفظ ایسا ہونا چاہیے کہ وہ جواہرات کی صندوقچی کی طرح تفکّر کے گوہر پاروں کی حفاظت کر سکے۔ الفاظ ایسے ہونے چاہیئں جو نہ سوچ کی جگہ اپنا لےں اور نہ ہی اُسے گہنا دیں ۔ الفاظ کی یہ صندوقچی خواہ زمُرد ہی کی کیوں نہ ہو‘ اپنے اندر رکھی ہوئی چیز( یعنی سوچ یا مقصد) کو جتنا گہنائے گی اُتنا ہی متعلقہ الفاظ کی تاثیر اور معنی بیان کرنے کی قوت کو کم کر دے گی۔ایسے( غیر ضروری طور پربھڑکیلے) الفاظ کا دیرپا ہونا بھی بعیداز امکان ہے۔

* * * * *

زبان‘ سوچ کے اظہاراور ادراک کا ایک ذریعہ ہونے کے علاوہ‘ فن‘حسن اور ادب کے موضوعات سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے۔لفظ ”ادبیات“ یقیناََ زبان کے اِسی پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔

* * * * *

ادبیات میں بنیادی عنصر معنی ہیں ۔ اس لحاظ سے بھی یہ بات اہم ہے کہ جو الفاظ بھی کہے جائیں چھوٹے ہوں مگر متموّل اور بھرپور ہوں ۔ بعض لوگوں نے تشبیہہ‘اِستعارہ‘ کنایہ‘تلمیح‘ تکرار اور ذومعنویت(PUN )جیسے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کی ہیں جوپرانے لوگ علم اُلبیان اور علمِ نحوسے متعلقہ موضوعات میں اِستعمال کرتے تھے۔ مگر میرے خیال میں عمیق ترین معنوں والے الفاظ کو اُن صاحبِ یقین اور ترکیب ساز دماغوں کے پاس تلاش کرنا چاہیے جو دنیا اور عقبیٰ کا یوں مطالعہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جیسے یہ دونوں عالم ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہوں ۔ اور ایسے الفاظ کو اُن پُر ہیجان روحوں میں ڈھونڈنا چاہیے جو الہام کے وسیلے سے جوش میں آ جاتی ہیں ۔

* * * * *

جس طرح کرہِ ارض پر علیحدٰہ علیحدٰہ معاشرے اور ثقافتیں موجود ہیں اِسی طرح ادبیات کی الگ الگ قسموں کا موجود ہونا بھی ایک قدرتی امر ہے۔البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اپنی روح میں پوشیدہ ادب‘حُسن کی محبت‘اور فطرت کی کتاب سے متعلق خاکے اور نغمات کے وسیلے سے ادبیات کے اِس تنوّع ہی میں وحدت بھی پائی جاتی ہے اور ہمہ گیری کی خاصیت بھی۔

* * * * *

دیوان ادبیات‘ جو مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے گہوارے میں پل کر پختگی کی سطح تک پہنچتی ہے‘ یہ بعض لوگوں کو مشکل‘بیجا آرائش میں ڈوبی ہوئی‘ اور لا یعنی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اس نقطہِ نظر کے اسباب ہمیں خود اپنے محدود اُفق میں ڈھوندنے چاہئیں ۔میں یہ کہتے ہوئے معذرت خواہ ہوں کہ وہ ادب جس کا خمیر اُن بہادروں کے پُر ہیجان سینوں میں اٹھایا گیا ہو جو کتاب و سنّت کے سماوی ماحول میں عالمِ بالا سے اترنے والے نور کو ابد تک اپنے دلوں میں سنبھال کر رکھنے کا مُصمّم ارادہ کر چکے ہوں اور جن کی بلند قامت روحیں سارے عالموں کو ایک نئی شکل دینے کے اِرادے سے جوش و خروش میں رہتی ہوں ‘ کیا اس بات کا کوئی امکان ہو سکتا ہے کہ ایسے ادب کو وہ لوگ سمجھ سکیں جو ایک مردہ دَور کے بے جان جنازے ہیں ۔۔۔۔۔؟!

* * * * *

ہر حقیقت پہلے انسان کی روح میں ایک خصوصی حیثیت سے ظاہر ہوتی ہے اور پھرمحسوس کی جاتی ہے‘ اور اس کے بعد اس میں الفاظ سے‘ قلم سے اور ہتھوڑے سے جان ڈالی جاتی ہے‘ اُسے بلوری شکل دی جاتی ہے‘ اور اُسے نقطہ نقطہ‘ لکیر لکیر جوڑ کر فنّی اثر کے چہرے پر یا کسی فنّی اثر کی شکل میں ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے فنّی اثر کے فوق الزمان اور فوق اُلمکان حدود تک پہنچنے کا تعلق مکمل طور پر یقین اور اُس یقین کے عشق کی سطح سے ہے۔

* * * * *

ایک ہی ماحول اور ایک ہی ملک کے انسانوں کے درمیان بھی بعض اوقات ادبی بےگانگی اور کشیدگی پائی جا سکتی ہے۔یہ محض ظاہری تفاوت ہے جس کا سبب مختلف اشیاءاور حوادث کے بارے میں لوگوں کے نقطہءنظر کا باہمی فرق ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تفاوت لوگوں کے اعتقاد اور دیگر اقدار کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے باعث بھی پیدا ہو سکتا ہے۔جس طرح پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والوں کے نزدیک گہری وادی کے رہائشیوں کے نغمے بے معنی بڑبڑاہٹ ہوتے ہیں اِسی طرح گہری وادی کے باشندوں کے نزدیک پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والوں کے الفاظ بھی بڑبڑاہٹ سمجھے جاسکتے ہیں ۔

* * * * *

یک اچھے فن پارے کا‘ اُسے معرضِ وجود میں لانے والے عناصر کی کاملیّت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اِن عناصر کی کاملیّت کا تعلق اُن افراد کی کاملیّت سے ہوتا ہے جو اُن عناصر کا جزو ہوتے ہیں ۔ جہاں گودا(جوہر) ہی صحیح سالم نہ ہو وہاں پاک صاف حِس کی موجودگی بعیدازامکا ن ہوتی ہے۔اور جہاں پاک صاف حِس موجود نہ ہو وہاں شعلوں اور دہکتے رہنے والے انگاروں سے فن پارے تخلیق کرنا بھی نا ممکن ہوتا ہے۔

* * * * *

ہر فنکار کی طرح ادیب بھی کائنات کی حقیقتوں میں رنگ بھرتے‘ اُنہیں ظاہری شکل دیتے‘ اور اُن کی نوک پلک سنوارتے ہوئے ہمیشہ اپنی ذات سے متعلقہ مواد کی تلاش میں رہتا ہے۔جس روز اُسے اپنا مطلوبہ مواد مل جاتا ہے اور وہ اس کا اظہار کر لیتا ہے اُس روز وہ اپنا قلم توڑ دیتا ہے‘ برش پھینک دیتا ہے‘ اور خود محوِ حیرت و تحسین ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔اِسی لیے سب سے بڑے فنکاروں کی تلاش حق تعالیٰ کے اُن بندوں میں کی جانی چاہیے جو اُس کے وفادار مفکّر ہوں اور ایک حساس زندگی بسر کرتے ہوں ۔