نصیحت

نصیحت زندگی کی کشتی کا مرکزی مستول ہے۔

* * * * *

اگر نصیحت بے فائدہ ہوتی تو کیا اللہ ایک بھی پیغمبر بھیجتا دنیا میں ؟

* * * * *

نصیحت ایک اہم وسیلہ ہے جس کے ذریعے نیکیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ نیکی کابدلہ نیکی ہے اور ثواب کا بدلہ ثواب۔

* * * * *

نصیحت کرنے والے کو چاہئے کہ وہ ہر شخص سے پہلے خود اپنی بیان کردہ نصیحت پر عمل کرے تا کہ اُس کے کہے پر یقین کیا جا سکے۔میرے خیال میں اگر ماضی میں کی گئی نصیحت کارگر ثابت ہوئی ہو مگر آج وہی نصیحت بے اثر ہو جاتی ہے تواس کیوجوہات اِسی اصول میں ڈھونڈنی چاہئیں ۔

* * * * *

اندھوں کی رہبری پر انحصار کرنے والے اگر جہاں ہیں وہیں کھڑے رہیں تو اپنی منزلِ مقصود کو زیادہ قریب پا لیں گے۔

* * * * *

دلوں کی کنجی نرم مزاجی اور نرم زبانی میں ہے۔

* * * * *

واعظ وہ ہے جو ساری جماعت کو ایک ہی آن میں دیکھ کر قابو کر سکے۔

* * * * *

الفاظ کے ذریعے بیان کرنے کے مقابلے میں عملی طور پر بیان کرنے پر ہمیشہ جلد یقین آ جاتا ہے۔

* * * * *

نرمی سے بات کر و تا کہ دلوں کے دروازے کھُل جائیں ۔ اپنے اندر قلبی گرمائش پیداکرو تا کہ سننے والوں کا ضمیرتمہار ے خیالات کو خوش آمدید کہے۔ اپنے طرزِ عمل سے خلوص کا اظہار کرو تا کہ تمہارے کہے کی تاثیر میں دوام آ جائے۔۔۔۔!

* * * * *

جب تمہارے کہے ہوئے تمام الفاظ ہوا میں لٹکتے رہ جائیں ( یعنی بے اثر ثابت ہوں )

تو اپنے مخاطب افراد پراچھے طریقے سے سختی کرنے کی کوشش بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

* * * * *

نیکی سے زیادہ بڑی نیکی اور بدی سے زیادہ بڑی بدی بھی ہوتی ہے۔اِن میں سے کِسے اور کب ترجیح دینی چاہیے اس کا علم عقلمندوں اور الہام پانے والوں کو ہوتا ہے۔