شعروشاعری

شعر‘کائنات کی روح میں پوشیدہ حُسن اور تناسب‘ہستی کے چہرے کے تبسم اور دل خوش کن کیفیت کے شاعرانہ روحوں کی طرف سے اظہارکے سوا کوئی شے نہیں ۔اِن بلند روح انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دل ایک دوات اور روح اُلامین کے روشنائی بن چکے ہیں ۔

* * * * *

شعر اگلی دنیا کی تلاش کی راہ میں سنی جانے والی ہاﺅ ہو‘ یا اس مقصد کے لیے منتخب شدہ استقامت کے کراہنے کی آواز ہے۔ شعر کی صدا اور نغمے بعض اوقات محض غرغرانے کی طر ح اوربعض اوقات لطیف سے لطیف شکل میں ظہور پزیر ہوتے ہیں ۔اِس کا انحصا انسان کی اپنی باطنی گہرائی پر اور روح کی اُس حالت پر ہے جس میں انسان جی رہا ہوتا ہے۔اِس اعتبار سے بھی شعرسے متعلق ہر آواز کو اچھی طرح سمجھنے کا انحصار اِس بات پر ہوتا ہے کہ جب وہ شعر زبان پر آتا ہے تو اُس وقت روح کی کیا حالت ہوتی ہے۔صرف زبان پر آتے وقت روح کی جو حالت ہوتی ہے اُسے ہی پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

شعر‘شاعر کی بصیرت اور تاثرات پر اثرانداز ہونے والے عقیدے‘ثقافت اور طرزِ خیال کے مطابق معرضِ وجود میں آتا ہے اور اُسی کے مطابق ساخت اختیار کرتا ہے۔ اِن کے علاوہ اُسے گہرائی بہم پہنچاکرفو ق اِلادراک سطح تک پہنچانے والا واحد سرچشمہ الہام ہے۔ الہام کے باعث جوش میں آنے والے دل میں ذرّہ سورج بن جاتا ہے اور قطرہ دریا۔

* * * * *

شعر میں عقل اورتخیل کا کردار کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘اُس کا ایک گہرا پہلو وہ بھی ہوتا ہے جو اسے انسان کا دل اپنی ہی طرف سے دیتا ہے۔فُضولی کے الفاظ میں :”میرا سخن ہی لشکرِ شعراءکا علمبردار ہے“۔ دل میں پھوٹنے والی سوچوں کو جب خیالات کے پر لگ جاتے ہیں تو وہ ابدیت کے دروازوں پر زورآزمائی شروع کر دیتی ہیں ۔

* * * * *

شعر حالِ حاضر کو روشن کرنے والا ایک شعلہ‘مستقبل کی طرف روشنی ڈالنے والا ایک پروجیکٹر‘ اور اگلی دنیا کے سرچشمے سے نکلنے والی عشق اور ہیجان کی موسیقی کی ایک دُھن ہے۔ حقیقی شعروں کے ماحول میں آنکھیں روشنی کے پاس جا پہنچتی ہیں ‘ دوری نزدیکی میں بدل جاتی ہے‘ اور روح کی رسائی ایسے عزم و شوق تک ہو جاتی ہے جو کبھی نہیں بُجھتا۔

* * * * *

شعر بھی بالکل مناجات کی طرح انسان کی باطنی دنیا میں آنے والے جوار بھاٹوں اور شوق و حُزن کی کیفیتوں کو زبان پر لاتے ہیں اور شاعر کی اُس”عظیم حقیقت“ کے ساتھ اِرتکاز کے لحاظ سے لاہوتی سانسوں کی طرح آتے رہتے ہیں ۔دراصل ہر مناجات ایک شعراور ہر شعر ایک مناجات ہے۔چناچہ مناسب ہوگااگر شعر ابدیت کی طرف پر تول کراُڑنا جانتا ہو۔

* * * * *

جو شعر ابدیت کی سوچ میں پروان چڑھا ہو اور دل کے پروں اور روح کی قوت کے زور سے سوچ کی فضاﺅں میں اُڑتا ہو‘ وہ علوم کی طرح مثبت سوچ پر زیادہ اعتبار نہیں کرتا۔ متعلقہ موضوع کے ساتھ اُس کا تعلق ایک وسیلے کے طور پر ہوتا ہے۔ اُس کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ ہے غیر مادی شےہستی کی تلاش کر کے اُس کا شکار کرنا۔ اگر شعر میں ہر اُس شے کا تصور کیا جا سکتا ہو جو محسوس کی جا سکتی ہے اور جس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے‘ اور اگر تصورات تنقید کے عمل سے بغیرکاٹ چھانٹ کے گزر سکتے ہیں ‘ اور پھر اگر شاعر کی اندرونی دنیا میں ہوا کے ایک جھونکے کی طرح ظاہر ہو جانے والے یہ خفیہ عناصرالفاظ اور جملوں کی شکل میں سانس لینا شروع کرنے تک اپنے وجود اور زیست کی حفاظت کر سکتے ہیں تو ان شعروں کے ہمیشہ تازہ دَم اور زندہءجاوید رہنے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔بصورتِ دیگر زبرجد جڑی ہوئی تانبے کی ایک انگوٹھی‘ یاکوئلہ جڑے ہیروں کے ایک ہار میں اور شعر کے نام سے پیش کیئے جانے والے مواد میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔

* * * * *

چونکہ شعر کا ہدف اُس”گمنام ہستی“ کی تلاش ہے‘ اس لیے شعر ایک ایسی آواز کی طرح ہوتا ہے جو مشکل سے سمجھی جا سکتی ہے اور جو کثیراُلبعود ہوتی ہے‘ جس کی سوچ دھندلے دھندلے اسرار پر مشتمل ہوتی ہے‘ وہ جن راہوں سے گزرتا ہے وہ بے حد تاریک ہوتی ہیں اور جو ایسی اقلیم سے آتی ہیں جس کی متعدد اطراف بند ہوتی ہیں ۔اِسی وجہ سے حقیقی شعر کے ہر لفظ اور ہر جملے میں ‘ ایک ایسے سیاح کے مشاہدات اور تاثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو کسی پرا سرارمحل میں ہر آواز اور ہر تاثر پر ورطہئِ حیرت میں چلا جاتاہے۔

* * * * *

شعر ایک دل کی دھڑکن‘ ایک روح کا ہیجان اور آنکھوں کا ایک آنسو ہے۔ اور آنسو بھی تو دراصل وہ حقیقی شعر ہی ہوتے ہیں جو بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

شعر‘ شعراءکے کبھی نہ مُرجھانے والے ایک طرح کے پھول ہیں اور ان پھولوں کی ہر سُو پھیلنے والی خوشبو ہیں ۔جن پھولوں کی مٹی پاک صاف ہو ‘ پانی صاف شفاف ہو ‘ اور بیج بھی مستند ہوں تو پھر اُن پھولوں کے رنگوں اور خوشبو سے کبھی جی نہیں بھرتا۔

* * * * *

بغیر سمجھے بوجھے کچھ کہنے والوں کی نسبت اُن شاعروں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے جوبغیرکچھ کہے سب کچھ سمجھ جاتے ہیں ۔ پہلی قسم کے شاعروں کی لاف و گذاف کا بدل‘ دوسری قسم کے شاعروں کی شاعرانہ نگاہیں اور خیالات‘الفاظ اور جملوں کی ضرورت کے بغیر ہی انسان کو بہت سی چیزیں بتا سکتے ہیں ۔

* * * * *

شعروں کو محض اُن کے الفاظ کی موزونیت کی بناءپر پرکھنا غلط ہے۔ کیونکہ نثر کے بے شمار کلمات ایسے ہیں جو روح کے لیے پرکشش ہوتے ہیں ‘ اور جن کا مضمون اور بیان دلوں میں حیرت اور تحیّر جگا دیتا ہے۔ اِن میں سے ہر لفظ بذاتِ خود ایک ایک شعر کی یادگار ہوتا ہے۔ فن کی ہر شاخ کی طرح شعر بھی اگر نتیجے کے اعتبار سے لامتناہیت کے ساتھ اچھی طرح بغل گیر نہ ہو تووہ بانجھ ہوگا‘ بجھا بجھا ہو گا۔ انسانی روح جو لامتناہیت کے حُسن و جمال کی شیدائی ہوتی ہے‘ انسان کا دل جو لامتناہیت سے محبت کرتا ہے‘ انسان کا ضمیرجس کی تسلی ہی ابد اور ابدیت کے بغیر نہیں ہوتی‘ یہ سب ہر وقت فنکار کے کانوں میں سرگوشیاں کر کے اُسے اگلی دنیا کو کریدنے پراکساتے رہتے ہیں ۔جو فنکاردل‘روح‘اور ضمیر سے بلند ہونے والی اِس کراہتی آواز اور اشتیاق کے اظہار کو محسوس نہیں کرتے وہ ساری زندگی اُس جھالر والے پردے کے دوسری طرف دیکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

* * * * *

جس شعر میں معنی پر شکل کو اور شکل پر معنی کو قربان نہ کیا جائے‘ اِس کے برعکس دونوں محاذوں پر جسم اور روح کے تعلق کو قائم رکھتے ہوئے شعر ترتیب دیا جا سکے تو اُس حالت میں شعر ہر ضمیر کا پسندیدہ اور طبعی آہنگ حاصل کر لیتا ہے۔ایسے شعر کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ شاعر کا تخیّل اِ س شعر کے لیے کوئی اور امتیازی خصوصیت پیش کر سکتا تھا۔

* * * * *

شعر کا ایک ظاہری چہرہ بھی ہوتا ہے کہ جس میں زیادہ تر کلمات‘ جملے‘ میزان‘ ادا جیسی خصوصیات حاکم ہوتی ہیں ۔ جہاں تک شعر کے باطنی چہرے کا تعلق ہے اُس میں روح‘ شاعر کے عالمِ باطنی میں مایع لگے ہوئے خیالات کے اظہار کے لیے کہیں پھولوں کے چہروں اور تتلیوں کے پروں جیسے نہایت آرائشی اور ظریف جملے ڈھونڈتی ہے‘ کہیں شعلوں کی طرح ہر گرنے والی جگہ کو جلا دینے والے آتشیں کلمات‘ اور کہیں نَے کی فریادوں کی متوازن آہیں پیدا کرنے والے الفاظ تلاش کرتی ہے۔انھیں پا لینے کے بعد ان سب کو مناسب مقامات پر جوڑ دیتی ہے۔ اسے ہم شعر کا موسیقی میں بدل جانا بھی کہہ سکتے ہیں ۔

شعر کے سرچشموں میں سب سے بڑا سرچشمہ راز اور اشارے کنائے ہوتے ہیں ۔ یہ شعر میں وسعت اور احاطے کا ایسااحساس پیدا کرتے ہیں جو حقیقت میں اُس میں ہوتا ہی نہیں ہے۔ مگر یہ احاطہ پھر بھی شعر کے تقدس کے اندر اندر‘ اُس کی دیواروں کے درمیان محدود رہتا ہے۔شعر میل ملاپ کے بازوﺅں میں ابعاد حاصل کر کے معنوں کی رنگ برنگی اقلیموں کی سمت میں پھیلتے پھیلتے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جاتے ہیں مگر پھر بھی شعر ہی رہتے ہیں ۔

* * * * *

شعر پر ایک ایسا رنگ غالب ہوتا ہے جو بنیادی طور پر تخیّل اور تاثر کے باہمی امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن انسان کی ساخت میں موجود ایک دماغی غدّے کی طرح تخیّل اور احساس کے پیچھے ان پر حکم چلانے والے اور ہر نقطے پر اپنے آپ کو محسوس کروانے والے نیت اور بینائی جیسے دو اہم عناصر بھی موجود ہوتے ہیں ۔ یہ عناصر تمام شعروں اور مصرعوں میں اپنا رنگ منعکس کرتے ہیں جہاں بھی تخیّل کا پاﺅں لڑکھڑاتا ہے یہ عناصر اُسے ہاتھ سے پکڑ کر احساس کے آگے آگے ایکجادوئی چراغ کی طر ح راہوں پر روشنی بکھیرتے جاتے ہیں ۔

* * * * *

شعر جس معاشرے میں اپنے کینے‘نفرت‘ ہیجان‘ اضطراب‘ امیدوں اورانکسار سمیت بیج سے نکل کر پھلتے پھولتے ہیں اُسی معاشرے کے سانس کی مانند ہوتے ہیں ۔ جبکہ شاعر کبھی اُسی معاشرے کی سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کی طرح‘ اور کبھی اُس کی زبان اور ہونٹوں کی طرح ہوتا ہے۔اِس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہرشعر کے بارے میں کچھ کہنے سے پیشتر اُس معاشرے کی خصوصیات کا مطامعہ کرنا ضروری ہے جس میں وہ شعر اپنے بیج سے نکل کر پھلا پھولا ہو اور جس نے شعر کی تشکیل کا مواد مہیا کیا ہو۔ ورنہ اگر اُس معاشرے کی خصوصیات کو بالکل ہی نظرانداز کردیا جائے جو شعر کی دایہ کا کردار ادا کرتا رہاہے تو پھر اس شعر کے بارے میں کچھ سمجھ سکنا خاصامشکل کام ہو گا۔