نکات برائے اتحاد

دورِ حاضر میں کئی طرح کی حرکات اور رجحانات مروّج ہیں ۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارا انسان گلا گھونٹ دینے والے بحرانوں میں مبتلا ہے ۔ جس طرح علوم کی بنیاد تحقیق ہے جس کی رغبت کے محرک شکوک و شبہا ت ہوتے ہیں اِسی طرح ایک لحاظ سے بُحران‘ سوچ کی حرکات اور رجحانات کا سرچشمہ ہیں ۔جو معاشرے دورِ حاضر کے مطالبات کے مطابق اپنی تمام ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو چکے ہیں اور اپنی طبعی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اُن کے اجتماعی مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ مگرجو معاشرے ابھی اپنی مادی اور معنوی ضروریات پوری نہیں کر سکتے اور نہ ہی ابھی اِس قابل ہوئے ہیں کہ اپنی فطری ترقی کو تیز کر سکیں ‘ اُن میں داخلی اور خارجی دباﺅ اور مجبوریاں بتدریج بڑھتی چلی جا رہی ہیں جن کی وجہ سےاُن کو پیش آنے والے بحران بھی اُسی نسبت سے بڑھ گئے ہیں ۔

بحران‘ اِجتماعی افراتفری اور ہنگامے‘ برف باری‘ شدید برفانی طوفانوں اور آندھیوں کی طرح ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات نتیجے کے اعتبار سے یہ فائدہ مند بھی ثابت ہوتے ہیں ۔کیونکہ معاشرہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو بھی اچھی طرح سمجھ جاتا ہے۔ جو معاشرہ اپنے دور کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘ جو عمل اور ردِّ عمل کے ساتھ اُس دور کے حوادث کے درمیان نہیں رہ سکتا اُسے ایک زندہ معاشرے کے طور پر قبول کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ وہ ایک لحاظ سے مجبوراََ بربادی کی راہ پر چل رہا ہوتا ہے۔

ہمارے اِس دور میں بشری طبقات کی سطح پر جو شورشیں اور ہنگامے برپا ہوتے رہتے ہیں اُس طرح کے بحران اور داخلی اور خارجی دباﺅ بلاشبہ موجودہ نظام کی دیواروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ اِس وجہ سے نئی تشکیل اور تعمیر کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔جو قومیں اِن عمومی شورشوں اور واقعات کے باوجود تباہی سے بچ کر نکل سکتی ہیں وہ اپنے حصّے کا انعام پا لیں گی اور مکمل طور پر ایک نئی دنیا قائم کریں گی۔

ہماری قوم اور جن قوموں کے ساتھ ہمارے روابط ہیں اِن کے معاشروں کا اِن حالات سے مستثنیٰ رہ جانا کسی حالت میں بھی سوچا نہیں جا سکتا۔ احتمال یہ ہے کہ یہ معاشرے بھی ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں اور ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت میں گھرے رہیں گے اور ہزار قسم کی سردردیاں برداشت کریں گے‘ لیکن آخرکار یقیناَ وہ نئی زندگی پا کر اپنی پہچان قائم رکھیں گے۔

اصل مسئلہ اِس سارے ماجرے کے یعد اپنے آپ کو مکمل طور پر ایک ایسی نئی تشکیل کے لیے تیار کرنا ہے جو بنیادی ہو‘ جس میں کوئی کمی نہ چھوڑی گئی ہو اور جو نہایت مستحکم اصولوں پر مبنی ہو۔ اِس کے برعکس اگر معاشرے میں اِجتماعی قوانین کے علم کا فقدان ہو‘ علاج بھی سائنسی بنیادوں پر نہ کیا جا سکتا ہو‘ اُلٹا اور منفی طرزِ عمل اپنا لیا گیا ہوتو ہرایسے معاشرے کو یہ سب کچھ تہس نہس کرسکتا ہے۔

آج ہم بھی اِسی ”ہُوں “ یا ”نہیں ہُوں “ کے مخمصے سے دوچار ہیں ۔یا تو ہم اِن تمام بحرانوں کے بعد گہری سمجھ بوجھ اورذکا کے ساتھ ایک ایسی دنیا تعمیر کریں گے جس کا منصوبہ ہماری پوری قوم نے بنایا ہو‘ اور یوں امن سے ہمکنار ہو جائیں گے‘ اور یا پھراپنی سمجھ اور طرزِ عمل کے بَل بوتے پرایک قسم کی معمولی سی جمع تفریق اور فوائد کی خاطراٹھائی گئی ہزارہا مصیبتوں کو بے ثمربنا دیں گے اور‘ خدا بچائے‘ الٹے پاﺅں پیچھے ہی پیچھے کی طرف چلتے جائیں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ اتفاق اور نفاق( اتحاد اور پھوٹ) ایک ایسا حقیقی موضوع ہے جو ہمارے اِس دور میں اپنی اہمیت برقراررکھے ہوئے ہے۔یہ موضوع اپنی اہمیت خواہ ہر دور میں اسی طرح برقرار کیوں نہ رکھے‘ مگر ایک ایسے دور میں جب کہ اپنے آپ کو ایک نئی دنیا کے لیے تیار کرنا ضروری‘ بلکہ نہایت ضروری ہو گیا ہے ‘ یہ موضوع اُن تمام اِجتماعی مسائل میں سرِفہرست آ گیاہے جودن بدن نہایت سنجیدہ شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔وہ لایعنی باہمی اختلافات اور پھوٹ جس کا خمیازہ یہ قوم صدیوں سے بھگتتی چلی آ رہی ہے‘ حساسیت کی صفِ اوّل میں پہنچے ہوئے موجودہ دور میں ہولناک حدود تک پہنچ چکے ہیں ۔ مجھے بڑے اطمینان سے کہنا چاہیے کہ یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں ہے کہ ہماری زندگی کی بقا کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔

آج ہمارا معاشرہ علمی اور فکری ساخت کے اعتبار سے حتی الامکان اُتھلے پانی میں ہے‘قلبی اور روحانی زندگی کے لحاظ سے بھی نہایت مفلس ہے‘ لیڈروں اور رہنماﺅں کے اعتبار سے اِس کا کوئی مالک ہی نہیں اور اِس کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہے۔ وہ معاشرہ جس کا سرچشمہ ہی رواداری کے فقدان اور تعصب کا شکار ہو اورجس کے ماحول سے یہ وبائیں ختم نہ کی جا سکی ہوں ‘ وہاں اتفاق اور اتحاد کے بارے میں سوچنا بھی خاصا مشکل کام ہو گا۔

سمجھوتہ اور باہمی مصالحت چونکہ کسی اور شے سے پیشتر عقل اور منطق پر منحصر ہیں اِس لیے وہی وحدت اور قلبی اتحاد قابلِ برداشت ہو سکتا ہے اور دیرپا رہ سکتا ہے جو عقل اور منطق پر مبنی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اِس دور میں زیادہ باتیں جذباتی وحدت اور بھائی چارے کے بارے میں کی جاتی ہیں ۔ مگر ایسی وحدت اور بھائی چارہ کمزور‘ نا کافی اورکم عمر ہوتا ہے۔

کِسی ایک مخصوص گروہ کی مخالفت میں مجمع لگانا‘ یا پھر دشمنی کے جذبات کے تحت اکٹھے ہونا‘ کِسی پر حملہ کرنے یا خود پر حملہ کیئے جانے کی روحانی حالت کے تحت اکٹھا کیا جانا‘ جذباتی اِتحادوں کی وقتی لہروں پر مبنی ہوتا ہے۔آج کل اہمیت اور کمیت کی حدود کے اندر معرضِ وجود میں آنے والا ایسا اتحاد چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ایک ملک کے لیے قطعاََ ناکافی ہے اور اِسے خاص کر ہمارے مقدس اصولوں کے نقطئہ نظر سے تو بالکل ہی جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ اِسی طرح یہ ہمارے قومی لحاظ سے بھی بالکل بے معنی ہو گا۔

لہٰذہ آپس میں پھوٹ ڈالنے والے اندرونی اور بیرونی عناصر کو پیشِ نظررکھتے ہوئے اِس بات کی بڑی شدت سے ضرورت ہے کہ ایسے مشترکہ نکات پر مذاکرہ کیا جائے جو قومی سطح پر ہمارے اتحاد کی بنیاد بن سکیں ۔ اِس کے ساتھ ہی ہمار ی قو می وحدت کو عقل اورمنطق کی روشنی میں نئے سرے سے زیرِ غور لایا جائے۔ جی ہاں ! آج اِس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اپنے وسائل‘ ہدف اور مقاصد کے تعین اور توثیق کے معاملات کو ازسرِ نَو زیرِ نظر لا کر ایک وجدانی میثاق کو مطمع نظر بنا لیا جائے۔وحدت ہماری مادّی‘ معنوی‘ دنیاوی اور اُخروی فلاح و بہبود کی بنیادی اینٹ ہے۔اِس کی خاطر اور کچھ نہیں تو کم از کم اینگلو سیکسن۔ویلزمعاہدے کی نوعیت کے ایک معاہدے کی ضرورت ہے‘ بلکہ نہایت اہم ضرورت ہے۔

ہمیں اپنے دشمنوں کو مصروف رکھنا چاہیے‘ اُنہیں اپنے مسئلوں پر غوروفکر کرنے اور اپنی آنکھیں کھولنے کا موقع نہیں دینا چاہیے‘ اِسی طرح جن مسئلوں کے حل کے لیے عقل‘ قابلیت اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے اگر ہم اُن سے نپٹ نہیں سکتے تو بھی ہمیں کم از کم اتنی سمجھ اور قابلیت کا تو ضرور اظہار کرنا چاہیے کہ ہم دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں اور خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ختم کرنے کی تیاریاں نہ کرنے لگ جائیں ۔ دراصل یہ سب کچھ تو ہماری مجبوری بھی ہے۔۔۔ ۔۔۔۔۔

سوچ اور فہم کا اختلاف پیدائش کے فرق کا نتیجہ ہوتاہے۔یہی خالق کی منشاءہے اور اِسی میں اُس کی رحمت اور حکمت پوشیدہ ہے۔لیکن انسان اِس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بھی وہی آہنگ اور انتظام اپنائے جو شریعتِ فطری میں موجود ہے۔عالمِ اصغر میں قضا و قدر حکم فرما ہے جبکہ عالمِ بشری میں عمُومی شرائط کی حدود کے اندر ہی اندر خوداختیاری کا حکم چلتا ہے۔اگرسب سے پہلی ہستی کا معرضِ وجود میں آنا ایک احسان تھا تو بعدازاں آنے والا ہر احسان کِسی نہ کِسی سبب پر منحصر ہوتاہے۔

اِجتماعی اتحاد اور برابری ایک احسان ہے جسے حاصل کرنے کا راستہ ضمیروں کے باہمی اتحاد اور دلوں میں پیدا ہونے والی مروت اور انسانیت پسندی کے خمیر سے گزرتا ہے۔ لہٰذا خود پرستی کو‘ جو کہ اپنے نفس کی محبت اور اِسی کی عبادت کا اظہار ہے‘ اور خود پرستی کے وسائل کو ہدف اور مقاصد کا مقام دے دینا پسِ پردہ شرک ہے۔ یہ تو ایک ایسی حق ناشناسی ہے جیسے کوئی کہے کہ ”اگر میرے ہاتھوں ایک نیکی نہیں ہو سکتی تو مجھے دوسروں کی طرف سے کی جانے والی نیکی اور اُس نیکی کے وسائل کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“یہ ایک ایسا بے ڈھنگا پن اور تعصب ہے جیسے کوئی اپنے ماتحت اشخاص کی اچھائیاں تو دیکھ لے مگر اپنے ماتحت نہ ہونے والے ہر شخص پر کفر‘ گمراہی اور گناہ کاری کا ٹھپہ لگا دے۔ میرے خیال میں اگر ایسا تعصب اوربے ڈھنگی سوچ وجدان سے الگ کر کے دور نہ پھینک دی گئی تو متذکرہ بالا طرز کا سمجھوتہ یا عہدنامہ ناممکن ہوگا۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی ضروری ہے ‘ بلکہ ناگزیر ہے‘ اور ہمارے مقدس اتحاد اور بقاءکا تقاضا بھی ہے کہ ہم اپنے خیالات کے اُن باہمی تفرّقات کو جو بنیادی نہیں ہیں بالکل نارمل قبول کریں اور اپنی قوم کے دوسرے افراد کو بھی اِسی خیال میں حصّہ داربنائیں ‘ خاص کر کسی دوسرے ملک کے باشندے کے سامنے‘ خواہ بناوٹی خوش خلقی کے طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ باقی رہے آپس میں پھوٹ ڈالنے والے ایک طرح کے وہ عناصر جو ہمارے لازمی اور مقدس قومی اتحاد کے لیے خطرے کا باعث ہیں اور جنہیں ہم معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کر سکتے‘ تو اِن کے وجود کو قبول کرنا بھی حقیقت کا اظہار ہے۔مثلاَ:

۱۔دینی خدمات کا ایک لمبے عرصے تک بیچ میں لٹکتے رہنا‘ پھر الگ الگ افراد اور جماعتوں کا اِس فرض کو اپنے ذمہ لے لینا‘ اس حالت میں جب کہ ان جماعتوں میں ایسے لوگوں کافقدان ہو جو اِن افراد اور جماعتوں سے اپنی بات منوا سکتے ہوں اور اُن کو لیڈر کے طور پر صحیح راستہ دکھا سکتے ہوں ۔

اِس فقدان کے باعث ہر گروپ کا علیحدہ علیحدہ راہیں پکڑ کر اُن پر چلنا شروع کر دینا۔اُن میں سے ایک گروہ نے گاﺅں میں قرآن کورس شروع کر کے ‘ ایک اور گروہ نے احیائے دین کے نقطئہ نظر سے لکھی گئی کتابیں پڑھ پڑھ کر‘ ایک گروہ نے روشن خیال لوگ تیار کر کے‘ اور ایک گروہ نے سیاسی معاملات میں حصّہ لے کر اپنی قوم کی خدمت کرنے کا سوچ لیا۔ اِس اعتبار

سے یہ سب لوگ دین اور وطن کی خدمت کرنے میں مصروف توہیں مگر ہیں سب الگ الگ۔۔۔ ۔

۲ ۔ اِن گروہوں میں سے ہر گروہ کا اُن افراد کو مجددّوں کی طرح دیکھنا جو راہبر کے طور پر اُن کے راستوں کو روشن کرتے اور اُن کے لیڈروں کا کام کرتے ہیں ۔یہ بات خواہ ایک لحاظ سے بالکل معصومانہ ہی کیوں نہ ہو ‘ مگرآپس میں پھوٹ ڈالنے کا سبب بن رہی ہے۔کیونکہ” مسلمانوں کے وجدان کے مطابق جتنا عرصہ دین کی تشریح مجددّ کرتے تھے‘ کہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا‘ اُن ادوار میں جب دین کے مقابلے میں بُرائیاں بڑھ جائیں گی‘ تب علمی اور عملی خدمات کے لیے سامنے آنے والے اشخاص اور اُن کے تابع افراد ہمیشہ مل جائیں گے۔“ اُن ادوار میں عوام کی سوچ اور روح کی تشکیل کے دوران اور جمعیت کے مُردہ پہلوﺅں میں زندگی پھونکتے وقت موجود متعلقہ لوگوں کو مجدّد کہا جائے گا۔ یہ لوگ اپنے تا بعین کے لیے بے ضرر ہوں تو ہوں مگر مبتدیوں اور عجمی لوگوں کے ہاتھوں میں اُن کا ایک پھوٹ ڈالنے کا عنصر بن جانا بالکل نا گزیر ہے۔

۳ ۔مہدی مسلک میں بھی وارد ہونے والے لیڈروں کی اِنہی خصوصیات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ آخری زمانے کے اِس دہشتناک فتنے کے خلاف مہدی مسلک کا عقیدہ افراد کے لیے بھی اور جمیعت کے لیے بھی ڈوبنے سے بچانے والے ایک کمربند کی طرح ہے۔ جی ہاں ! جس دور میں اعتقاد کے بندھن کمزور پڑ جائیں ‘ عمل ترک کر دیا جائے‘ اور لین دین کے معاملات کو پوری طرح پسِ پردہ ڈال دیا جائے ‘تو پھر ایک ایسے حریق العادت ذات کا وجود لازم ہو جاتا ہے جو ایک ہی ہلّے میں او ر ایک ہی سانس میں اِن سب کاموں کے لیے جنہیں ہم محال کہتے ہیں ضروری اصلاحات نافذ کر دے۔اِس پلان کے مثالی پہلو ایک طرف‘ اِس ۸۹۱) کی نیک خیالی کے بارے میں حیران ہونے کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ لیکن افراد سے منسوب کرد ہ بڑائی اور جمیعت سے منسوب کردہ زودحسی کو پیشِ نظر رکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ اِس سے آپس میں پھوٹ یا علیحدگی پیدا ہو جائے۔

۴۔اِن کے علاوہ ہماری ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے باہمی اختلافات کے بیرونِ ملک سے بھڑکائے جانے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک اور معاصر اِس بات کو کبھی بھی ہضم نہیں کر سکے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو سلطنتیں قائم کرتی‘ اور صدیوں تک انسان کی تقدیر پرحکمرانی کرتی رہی ہے۔

گزشتہ تقریباََ ایک ہزار سال میں لڑی گئی” تمام لڑائیاں اور حملے اُس دشمنی کی علامت ہیں جو ہماری قوم کے خلاف پالی جاتی رہی ہیں ۔“ اسلحے کی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ تجارتی ناکہ بندیاں ‘ ہمارے یعض بین الاقوامی مسائل میں ہمارے اتحادیوں کا ہمارے مفاد کے خلاف موقف کا غیر متوقع اظہار‘ اِسی اثناءمیں بعض مغربی ممالک کا اُن بین الاقوامی اِداروں میں بھی جن کے ہم ممبر ہیں ہمیں تیسرے درجے کی ریاست کے طور پر دیکھنا‘ ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک اور ہماری قوم کوابھی تک دوستانہ نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا۔اب جبکہ یہ معاملہ اور طرزِ عمل پانی کی سطح کے اوپر آ چکا ہے اگر اب بھی ہم اِس کے پسِ پردہ بعض منفی طورطریقوں کی موجودگی کو نظرانداز کرتے رہیں تویہ یقینا ہمارے نابینا ہونے کی دلیل ہو گی۔ ایک نقطئہ نظر سے اگر یہ منفی طور طریقے مفادپرستی پر مبنی باہمی تعلقات کے حامی ممالک کی صورت میں نارمل بھی سمجھ لیے جائےں پھر بھی یہ ایک تاریخی حقیقت سے کم نہیں ہیں ۔یہ حقیقت جس کے پیچھے بلاشبہ ایک مختلف قسم کی ذہنیت بروئے کار ہے ‘ہمیشہ سے مختلف قسم کے جاسوسی اداروں کی مصروفیت کا میدانِ عمل بنی رہی ہے۔

پرانا بھیس بدل کر ہی سہی‘ آج بھی خطرہ پہلے ہی کی طرح موجود ہے۔جی ہاں ! گزشتہ زمانے میں یہ خطرہ بیرونی ہوتاتھا‘ چنانچہ اِس کا مقابلہ کرنا آسان تھا۔مگر آج اِس کے ساتھ اندرونی خطرہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ لہٰذا مقابلہ نسبتاََ زیادہ مشکل سمجھا جاتاہے۔بداخلاقی جو ایک وبائی مرض کی طرح سارے معاشرے کے گِرد چپکی ہوئی ہے‘ اور اب جبکہ اِس معاشرے کو اپنے پاﺅں پر کھڑا رکھنے والی تمام بنیادیں گرچکی ہیں ‘ تو وہ نسلیں جو لادینی اخلاق‘ انکاری اخلاق‘تشہیری اخلاق کے نام سے پہچانی جانے والی مختلف ذہنی بیماریوں کی وجہ سے اپنی مقدس اقدار کے خلاف بے لحاظ نسلیں بن چکی ہیں ۔اُن کے بارے میں اگرنہایت شرمناک اسلوبِ بیاں استعمال کریں توکہہ سکتے ہیں کہ وہ فکری اور روحانی بد نسلی کا شکار ہو چکی ہیں ۔اور آج اُنہیں اِس چیز کااحساس بھی نہیں ہے کہ وہ ایک لرزا دینے والی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔

یہ دعویٰ کرنا تو خاصا مشکل ہے کہ اِس ساری گڑبڑ اور ابتری کا اہلِ ایمان طبقے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جی ہاں !اُن کے نزدیک کبھی تفہیمِ دین کا تخمینہ لگانا‘ کبھی عادات و اطوار اور مزاج کی تعمیل کرانا‘ اور کبھی نسلی معاملات کو کُریدنا‘ اِن سب معاملات کی طرف توجہ دینا نہایت ضروری ہے کیونکہ بیرونی طاقتیں اُنہیں اپنے حوالہ جات کے مرکز کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔یہ درست ہے کہ دین کی خدمت کرنے والے گروہوں کے بارے میں ایسا کوئی سنجیدہ قسم کا شعبہ موجود نہیں ہے کہ یہ گروہ اِس قسم کے اختلافات پیدا کرنے والے رجحانات میں الجھ چکے ہیں ۔یا یہ کہ اِن کی پرورش اور کنٹرول اِن رجحانات کو پھیلانے والے اداروں کے ہاتھ میں ہے۔”اگر بعض دینی گروہوں کے بارے میں اِس طرح کے دعوے اور افواہیں موجود ہوں بھی تو“ ایمان اور قرآنی تعلیمات پر مبنی جماعتوں کے متعلق ایسے مضبوط شواہد موجود ہیں جن کے مطابق وہ بیرونی عناصر سے کبھی ہدایات نہیں لیں گے۔لیکن جماعتوں کے فکری اور روحانی پختگی کی سطح پر نہ پہنچ سکنے کے باعث اِن میں تعصب کا موجود ہونا ممکن ہو سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس تعصب کے باعث اندرونی چپقلشیں بھی ظہور پزیر ہو سکتی ہیں ۔ اِس قسم کی چپقلشیں جن کی موجودگی پر لا علمی کا پردہ پڑا ہو‘ وہ دشمن کے نفرت انگیز مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں ۔

خواہ ترکی ہو خواہ ساری دنیائے اسلام‘ اُسے باہمی امداد کی خاطر اکٹھا ہونے کی ہر تحریک کے لیے مندرجہ ذیل خطرات ہمیشہ موضوعِ بحث ہو سکتے ہیں :۔

۱۔بعض بڑے بڑے لوگوں کا اپنے مادّی اور معنوی مفاد میں مقام اور شہرت کے جنون کے احساس کو روبکار لا کراپنے مخالف گروہوں کو رقابت کی طرف دھکیلنا۔

۲ ۔اسلام کے نام پر کی جانے والی سرگرمیوں کے دوران خدمتِ خلق کرنے والی مخالف جماعتوں کو توڑ پھوڑ پر مبنی حرکات پراُکسانا۔

۳ ۔علم وفضیلت کا پھل حاصل کرنے کا زمان و مکان آخرت ہے جسے بہت ہی دور کا مستقبل سمجھا جاتا ہے۔ اُس کی بجائے ہرچھوٹی سی سرگرمی اور سعی کے فوراََ بعداِس پھل کے حصول کی اِسی دنیا میں امید رکھنا۔

۴ ۔خدمت کرنے والے اداروں میں با اثر اور حیرا ن کُن طریقے سے کام لینے والے عملے کے اثرورسوخ کوذائل کرنے کی خاطر اُن کے مقابلے میں ایک نیا گروہ لا کھڑا کرنا اور اِس متبادل گروہ کے ذریعے داخلی چپقلشوں کی ابتدا ءکر کے ملک کے اندرپھوٹ اور تقسیم پیدا کرنا اور یوں سارے معاشرے کوٹکڑے ٹکڑے کر کے ختم کر دینا۔

۵ ۔تمام قومی خدمت کرنے والوں کا بنیادی محرّک اُن کے اپنے مسلک کی محبت ہو تو اُس کی جگہ اُنہیں دوسرے مسلک کے لوگوں کے خلاف دشمنی میں اتنا مشغول کر دینا کہ اُن کے پاس اپنے اصل مقصد کے لیے وقت ہی نہ بچے۔یوں خدائی مدد کے ایک اہم وسیلے کو ختم کر دینا۔

اِن سب خطرات کے علاوہ ہم اِس بات کا بھی ذکر کر سکتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنی تسکین نہ کر سکنے کے باعث ایک قلبی اور روحانی خلاءتک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ‘اور عوام ایک طرح کے عجیب و غریب خیالات اور سسٹم میں پھنسے ہوئے ہیں جس کے باعث وہ بڑی حد تک اپنی قلبی اور روحانی زندگی سے بہت دور پہنجا دئیے گئے ہیں ۔۔۔۔

جی ہاں ‘ ہمارے لوگ ایک طرف سے تو یوں اپنے علمِ باطنی کی بنیادوں اور قواعد سے محروم کر کے چھوڑ دئیے گئے ہیں اور دوسری طرف ایک الگ‘ غور طلب موضوع یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بعض وجوہات کی بناءپر اپنی قومی حدود سے بہت دور پہنچا دئیے گئے ہیں جہاں اِنہیں ایک”خوش باش اقلیّت“ کہا جا سکتا ہے۔ اِن وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اِن لوگوں کو آزاد منش‘ اپنے آپ میں سرمست‘ اپنے حیوانی احساسات کے حوالے سے سٹیج پر پیش کیا جاتا ہے۔یہ کیوں کیا گیا ہے اِس کے ذمہ داربعض محرّکا ت اور عناصر ہیں جو دل میں شبہات پیدا کرتے ہیں ۔

عمرانیات اور علم اُلانسان کے ماہرین کا آپس میں اِس بات پر اتفاق ہے کہ روئے زمین پر آج تک بے دین قوم کوئی نہیں گزری۔”تاریخ کے کسی بھی دور میں روئے زمین کے کسی بھی مقام پر آج تک کسی بھی بے دین معاشرے سے پالا نہیں پڑا۔“ دِین کا احساس فطری اور طبعی ہے۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ انسان کی اولاد کو اِس احساس سے محروم کرنے سے انفرادی اور اجتماعی افسردگی کی بعض قسموں کی راہ کھل جاتی ہے۔وہ لوگ جن کا قلب اور وجدان بھوکا رہنے دیا جاتا ہے وہ کِسی نظام کے مطابق یا کسی بھی نظام کے بغیر‘ اپنی مرضی کے مطابق یقینا اِس بھوک کی تسکین کی راہیں تلاش کریں گے اورکوشش کریں گے کہ اِس طبعی ضرورت کو پورا کریں ۔ اِس طرح تسکین کے لیے ہر مزاج اور مشرب کے اپنے رنگ کے مطابق انتخاب کی جانے والی راہ کِس قسم کی پیچیدگیوں کا باعث بنے گی۔میرے خیال میں وہ ہر طرح کی وضاحت سے برَی ہے۔

” کسی معاشرے میں اقدار کی طوائف اُلملوکی اور اس کے نتیجے میں چاقوﺅں کا استعمال اور خون خرابہ۔۔۔“ تو جناب یہ ہے نتیجہ زندگی کے اُس فلسفے کا جو قدرت اور فطرت کو مدِنظر رکھے بغیر اپنایا جاتا ہے‘ اور یہ ہے ہمارا پریشان وطن جس پرہزار قسم کی ابتری اور گڑبڑ کی حکمرانی چلتی ہے!

علاوہ ازیں ‘اِس قدر ابتری اور گڑبڑ کے ساتھ ساتھ ایک اور علیحدہ سنجیدہ موضوع بھی ہے جس پر غور و غوض کرنا ضروری ہے‘ اور وہ ہے بھونچکے ہوئے لوگوں کی حالت۔ یہ وہ لوگ ہیں جو”وطن“ کا مطلب”توران“ ملت کامطلب”فاشزم“اور”دین“ کا مطلب”رجعت پسندی“ سمجھتے ہیں ۔ اِن”عُشّاقِ ماَہ لقا سلطان“ کے سودوسو سال سے زبان پر لائے ہو ئے الفاظ اور کاغذ پر لکھے ہوئے کلمات کو سمجھنا خاصہ مشکل کام ہے۔ایک وقت تھا جب یہ لوگ تمام راستوں کو مغرب سے جا ملاتے تھے۔مغربی ڈھلانوں اور ساحلوں کی سیروسیاحت کا انتظام کیا کرتے تھے۔

یہ عجیب و غریب گروہ جتنا عجیب و غریب تھا اُتنا ہی اٹلی کے سیاسی مافیا کی طرح اِس کا کوئی سنجیدہ حساب کتاب بھی نہیں تھا۔ اِس گروہ نے بعدازاں اپنی پوری طاقت کے ساتھ” شہنشاہیت“ اور سرمایہ داری نظام کے بارہ اماموں پر گولیاں برسانی شروع کر دیں ۔اِس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ہمارے ہاں تقلیدِ مغرب کسی چھان بین کے نتیجے میں شروع نہیں کی گئی تھی اسی طرح دوسرے سوداﺅں کے ساتھ ساتھ ہمارا اس سے اور اس کے نظام سے منہ پھیر لینا بھی کسی ایسے ویسے حساب اور پلان سے منسلک نہیں تھا۔اِن کی ہر چیز محض ایک سوکھے سودا پر اور ہر حملہ ایک مہم پر مشتمل تھا۔۔۔۔

نتیجے کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس دور میں قومی اور مذہبی اقدار کی تباہی نے ایک طرف تو ایک ایسے گروہ کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار کی جو الحاد اور دہریت کا حامی تھا‘ اور دوسری طرف بعض مشروع ضروریات پوری کرنے کی غرض سے الگ الگ گروہ قائم کر دئیے جو ایک دوسرے کے وجود سے بے خبر تھے اور کسی نظام سے بھی منسلک نہ تھے۔ ان گروہوں کے اپنے اپنے مذہبی اور اجتماعی خدمات کے حلقے مقرر کر دئیے گئے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی جماعتوں کے معرضِ وجود میں آنے کی راہیں کھل گیئں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن فرقوں کے مابین جگہ جگہ سخت قسم کی تُو تُومیں میں ‘ اندیشہ آمیز جھگڑے اور خطرناک لڑائیاں شروع ہو گئیں ۔اِس پر طُرہ یہ کہ اخلاص اور صداقت جو عمل کی روح ہیں کہیں نظر نہ آئیں ۔اگرچہ محبتِ نفس اور انحصارِ فکر نے اپناکردار ادا کیا مگر لڑائی جھگڑے بے قابو ہونے کی حد تک جا پہنچے۔

اس قدر مشکلات اور پریشانیوں میں ‘ جب کہ ہستی کی حفاظت بھی بہت دشوار ہو چکی تھی یہ بات باعثِ شکر ہے کہ ایک دستِ عنایت نے ہمیں نئی اور صحتمند صورتِ احوال سے روشناس کرا دیا۔ اس میں بعض نئے عناصر بھی ظہور پذیر ہو گئے۔ ہماری روحیں قربان ہوں ہمارے اُس رب العزت پر جس نے ہمیں اِن حالات سے دوچار کرایا۔

گروہ بندی کی حِس انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے۔احکام کا بجا لانا بھی طبعی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِس احساس کو بے ضرر‘ بلکہ فائدہ مند کیسے بنایا جائے۔ اگر اِسے اچھائی کی طرف نہ موڑا جائے تو یہ اکثر انسان کو اور اِس کی فطرت کو بھی اُلٹی سمت میں لے جاناشروع کر دیتی ہے۔اور خود متعلقہ شخص کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ضرررساں بن جاتی ہے۔ جتنا عرصہ یہ حِس جہالت‘ناشائستگی اور تعصب جیسے مضرِ انسانی پہلوﺅں سے مدد لیتی رہتی ہے تب تک سمجھ لیجیئے کہ قتل و غارت اور لڑائی جھگڑے تیار کھڑے رہتے ہیں ۔ اِس کے برعکس جِس نسبت سے تعلیم و عرفان‘ تحمل و برداشت کا جذبہ پھیلتا جائے گا اُسی نسبت سے باہمی سمجھوتوں اور صلح صفائی کا ماحول پیدا ہوتا جائے گا او ر مختلف گروہوں کے مابین ایک ”امن کی لکیر“ کے دکھائی دیتے رہنے کا احتمال ہمیشہ موجود رہے گا۔میرا خیال ہے کہ یوں فطرت اور فطرت کے قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ہمارے ردِّ عمل کی تیزی کو بریک لگ جائے گی اورہماری گرم مزاجی اور غصّے پر قابو پایا جا سکے گا۔

دعوے کا انصاف پر مبنی ہونا‘ہدف اور بنیادی اصولوں کا مشترک ہونا‘یہ اتنے مضبوط‘ گہری جڑوں والے اور کبھی نہ ڈو لنے والے عناصر ہیں جو ضوابط اور وسیلوں کے اختلافات کو بے اثر بنا سکتے ہیں ۔اس صورتِ حال میں غیر اہم بہانوں کے ذریعے اختلافات پیدا کرنا طفلانہ مزاج‘ حقیقت سے نا واقفیت‘ اور بے مروّتی کی علامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ”اللہ جل جلالہ‘ سے وصال کے راستوں کی تعداد مخلوق کے سانسوں جتنی ہے“۔ اگر ہم اس حقیقت کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو اِس راہ میں جو کوشش بھی کی جائے اُسے سراہنا چاہیے۔اِن راہوں پر کیا جانے والا سفر عزیز سمجھا جانا چاہیے اور ہر خدمت کی تعریف کی جانی چاہئیے۔ دوسروں کو کفر اور گمراوی میں دیکھنا یا گنہگار کہنا بے فائدہ ہونے کے علاوہ ایک خطرناک سوچ بھی ہے۔

میرے خیال میں ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی منتخب کردہ راہ کو بیان کرنے‘ اِسے متعارف کرانے اور اِس پر چلنے کی رائے دینے میں مشغول رہے اور زندگی اُس کی محبت میں گزارے۔یہ راستہ جس طرح عقل اور منطق کا راستہ ہے اِسی طرح ایمان اور قرآن کے مطابق ایک ضرورت بھی ہے۔اِس راہ پر”ہر شخص اپنے مسلک کی محبت کے مطابق حرکت کرتا ہے‘ دوسرے گروہوں کے خلاف دشمنی نہیں پالتا‘ دوسروں پراس کی طرف سے کی جانے والی تنقید تخریبی‘ تباہ کُن‘ اور توہین آمیز نہیں ہوتی۔وہ اپنے گروہ کا اعتماد کسی دوسرے گروہ کی جڑ کاٹنے اور ذلت میں نہیں تلاش کرتا‘ وہ اُسے بھی ایک بھائی سمجھتا ہے اوراُس کے نقائص کا کھوج نہیں لگاتا‘ اُس کی فضیلت اور کامیابیاں دیکھ کر اُن کی قدر کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔“ مختصر یہ کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات ذہن میں سے نہیں نکالتا کہ وہ ہر شخص کے ساتھ مل کر ایک نیکی کی دوڑ میں شامل ہے اور پھر اُس کی مجبوری ہے کہ وہ اِنہیں لوگوں کے ساتھ اپنی کمر پر ایک قیمتی خزانہ اٹھائے رکھے۔یوں وہ ہر شخص کو ایک ہی سمت میں جانے والااپنا مددگار قبول کرتا ہے‘ ہر کامیابی کی عزت کرتا ہے‘ ہر سعی کی تعریف کرتا ہے‘ اور مدد کرنے والے ہر ہاتھ پر بوسہ دیتا ہے۔

دورِ رسالت پناہ میں لوگوں کی یہی سوچ تھی اور عملی زندگی بھی اِسی سوچ کے خطوط پر جاری رہتی تھی۔ باوجود اِس بات کے کہ افہام و تفہیم کے عناصر شعور کی سطح تک پہنچ چکے تھے اور دوستی کے معنی بھی خاصی حد تک آگے کی سطح تک پہنچائے جا چکے تھے‘ پھر بھی اس وقت تک علیحدہ علیحدہ قسم کے پھولوں اور پھلوں کی ضمانت دینے والی مختلف قسم کی استعداد کِسی طور پر حاصل نہیں ہو سکی تھی۔

اِدھر ابُو ذراور عبدالرحمٰن بِن عوف ‘اُدھر بلال اور حضرت عثمانؓ کی ایک ہی موضوع پر دی جانے والی رائے کا اختلاف کِسی طرح کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ یہی حال بعض موضوعات کی تفصیل پر اُن کے نقطئہ نظر کے اختلاف کا تھا۔ مگر اٍس کے باوجود اِن اختلافات پر کبھی کوئی شخص تعجب کا اظہار نہیں کرتا تھا۔

اِس خیال سے کہ اجتماعی وحدت پر چوٹ نہ آئے‘ قبیلوں کے تصور کو کسی حد تک بیچ میں نہیں لایا جاتا تھا۔ جی ہاں ‘بالکل اسی طرح جیسے مہاجر اور انصار جیسے دو معزز عنوان کبھی موضوعِ بحث نہیں بنائے جاتے تھے۔ عوث اور حزرج جیسے نام بھی ہمیشہ ہمیشہ سے استعمال ہوتے چلے آ رہے تھے۔جب سعدبن معاذ کے قبیلے سے کہا جاتا”حضرتِ پیغمبرﷺ کے لیے کھڑے ہو جاﺅ“ تو ”طبیعتِ بشر“ اِس کی تائید کرتی۔ ہر قبیلے کو علیحدٰہ علیحدٰہ احکام کے تحت جہاد کے لیے لے جایا جاتا تھا۔ مگر فتح اور ظفر کے نام پر وطن دوستی کے آتشدان جلائے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ آپس میں جنگ کرنے کے علاوہ اپنے اپنے قبیلوں کا فخر سے نام بلند کرنے کے لیے کیئے جانے والے دوسرے تمام مقابلوں کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔” قرآن حفظ کرنے والے ہم میں سے ہیں (یعنی ہمارے قبیلے کے لوگ ہیں )“” فلاں ہم میں سے ہیں ‘ فلاں ہم میں سے ہیں “ کی طرح کے کلمات ہر موقع پر بولے جاتے تھے اور اِن میں سے تقریباََ سبھی کا ہمیشہ تحمل سے جواب دیا جاتا تھا۔ ایسی ہر بات تیزی سے ترقی کرنے والے متعلقہ گروہ کے لیے ترقی کے سنگِ میل کا کام دیتی تھی۔

جی ہاں ‘ یہ سب کچھ بھی تھا اور ساتھ ہی آپس میں اتفاق اور ہم آہنگی بھی تھی ۔ رضائے الٰہی حاصل کرنے کی ڈھلان پر سمفونی کے نغموں میں ہم آہنگیِ اصوات کی سی حالت کی طرح قوم کا ہر فرد نغمے میں حصّہ لینے والے باقی تمام افراد کے ساتھ ہم آہنگ آواز میں نغمہ سراہوا کرتا تھا۔ یہ اِس لیے ممکن تھا کہ ہر شخص روحانی پختگی کی سطح کو پہنچ چکا تھا‘ ہر شخص حق پرست تھا‘ اور جن اشیاءکو مقدس سمجھتا تھا اُن کے اُفق پر جھنڈا گاڑنے کے لیے پاگل ہو جاتا تھا‘ اور اِس بات کا خواہشمند ہوتا تھا کہ فرائض کی تعظیم کی جائے۔اُس کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ وہ فرض کون ادا کرتا ہے۔۔۔جب دن چڑھ آیا اور صبح ہو گئی تو پھر اگراُسے سلطان بنا دیا جاتا یا بھکاری‘ کیا فرق پڑتا تھا۔۔۔۔۔!

نئی نسل کے انصار اور اُن کے حواری اپنی خوشیوں کو دوسروں کی خاطر بھول جانے والے پرلے درجے کے بے لوث انسان ہونگے جو اپنے اِرد گِرد کے لوگوں کی لذتوں اور خوشیوں کو دیکھ دیکھ کر اپنے دلوں میں جنّت پیدا کر لیتے تھے۔

ہمارے دور کی فرقہ بندیوں میں سے شاید سب سے خطرناک وہ ہے جوخون اور نسل کی بنیاد پر قائم ہو گئی ہے۔یہ بھی بیرونی ذرائع سے یہاں پہنچی ہے۔ اِس کے بیرونی وسائل سے ہمارے ہاں آنے کے بارے میں ہمارے روشن خیال طبقے کے کسی شخص کے دل میں شک کی قطعاََ کوئی گنجائش نہیں ۔ اِس دور میں جب باہمی جھگڑے ریاستی بلاکوں کے درمیان ہوتے ہیں ‘جب پوری دنیا کو متاثر کرنے والے ٹکراﺅ مختلف نظریوں کے مابین ہوتے ہیں ‘ جب ساری دنیا ایک بہت بڑے گاﺅں کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں مختلف قومیں واضع یونٹوں اور بلاکوں میں شامل ہو چکی ہیں ‘ وہاں اِس طرح کی فرقہ وارانہ سوچ بڑی عجیب و غریب نظر آتی ہے۔ بِالخصوص ایک ہی علاقے میں ایک ہی معاشرتی وضع کے باشندوں کا مختلف نسلی گروہوں میں مطالع کرنا بے حد مضحکہ خیز سوچ ہے۔ یہ سوچ نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ مستقبل میں ہنگاموں اور لڑائی جھگڑوں کے لیے زمین تیار کرنے کے نقطئہ نظر سے بھی نہایت خطرناک ہے۔ یہ سوچ اِس لیے بھی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارا وطن جس نے اپنی سر زمین پرصدیوں سے مختلف قوموں کو آپس میں ایک ہی قوم کی طرح گھُل مِل کر رہتے دیکھا ہے وہاں ایسی شے تلاش کرنا جسے ہم”صاف خون“ یعنی اصیل کہتے ہیں ‘ ایسا ہی ہے جیسے لوحِ محفوظ کے بارے میں مطلع ہونے کی کوشش کرنا ہو۔ البتہ یہ ڈضرور ہے کہ ا ناطولیہ کے شمال‘ جنوب‘ مشرق‘مغرب مختصر یہ کہ تقریباَ اِس کی ہر سمت میں ایک دوسرے سے خاصے مختلف طبقوں کے لوگ آباد ہیں ۔اِن میں کئی ایسے گروہ بھی ہیں جو مختلف نسلوں سے منسلک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اِن گروہوں میں سے ہر ایک دانستہ طور پر یا غیر دانستگی کے باعث اِس مضحکہ خیز صورتِ حال میں پھنسا ہوا ہے۔

اب چونکہ قرآنِ کریم کی سارے عالم کے لیے دی گئی دعوت کو قبول کرنے کے سِوا نہ کوئی اور چارہ رہ جاتا ہے اورنہ ہی کوئی دوسری سند موجود ہے‘ لہٰذا ہمیں اپنے سیاسی اور غیر سیاسی تمام گروہوں کے انسانوں کو قرآن کی یہ دعوت دے کر یوں پکارنا چاہئیے:” اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور خبردار آپس میں تفرق سے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جاﺅ۔“ ماضی کی طرح آئندہ بھی اِس قسم کے بھائی چارے کو حقیقت کی شکل دینا ممکن ہے۔ مناسب ہو گا کہ یہ نہایت سنجیدہ مسئلہ فرمانِ الٰہی کے عدس کے نیچے رکھ کر عقل اور منطق کے اصولوں کے مطابق حل کیا جائے۔

آخر اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے مسائل کو جذبات اور ہیجان سے متاثر ہو کر راگ الاپنے کی طرح حل کرنے کی کوشش کی بجائے اپنے مقدس اصولوں کے اندر رہتے ہوئے ایک اجتماعی معاہدے کی شکل میں حل کریں ۔ یہ اب ہماری مجبوری بھی ہے۔کیونکہ بیرونِ ملک سے دخل اندازی کرنے والے عناصر کے گھڑے ہوئے مختلف امکانات‘ اور خود ہمارے درمیان بھی بعض ذاتی مفادپرست گروہوں کا ظہور‘ عِلاوہ ازیں اپنے مقدس نصب اُلعینوں اور تصورات کے بارے میں ہمارے جذبہءاحترام کا تذبذب‘ ہمارے عظیم قومی نظریے اور متعلقہ قابلِ توقیر معنوں کی جگہ کا ایک طرح کے چھوٹے موٹے حساب کتاب اورمفادات کا قبضہ کر لینا ‘ یہ سب حقیقتیں اِس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم آپس کے رابطوں کو اور زیادہ مضبوط سطح پر لے آئیں ‘ یہ اِس طرح ہونا چاہیے کہ اپنی تمام مشترک اقدار کو اکٹھا کر کے اُن کا موازنہ اُن عناصر سے کیا جائے جو ہمارے درمیان پھوٹ ڈال رہے ہیں ۔ ایمان کی بنیادوں پر ہمارا اتحاد‘ اعمال اور عباد ت کے لحاظ سے باہمی اتفاق‘ اورپھر وطن اور ثقافت کی وحدت اچھی بری تقدیر کے معاملوں میں صدیوں پرانی باہمی شرکت‘ بیرونی دوستوں اور دشمنوں کا ہم سب کے لیے ایک ہی ہونا‘وغیرہ وغیرہ‘ یہ سب ہماری اقدارِ مشترک ہیں ۔۔۔ جی ہاں !سب سے زیادہ قابلِ قدر چیزوں سے بھی بڑھ کر متحد کرنے والے اِن عناصر کی موجودگی میں صاف ظاہر ہے کہ آپس میں پھوٹ ڈالنے یا باہمی تقسیم کو ضروری گرداننے والے عناصر تو اِس قابل بھی نہیں ہیں کہ اُن کا ذکر بھی کیا جائے۔

دراصل ہمارے پیغمبر کی طرف سے بھی اِس مسئلے کا حل اِسی شکل میں کیا گیا تھا۔ کلمئہ شہادت سب سے بڑی بنیادثابت ہونے اور قبول کیئے جانے کے ساتھ ساتھ یہ کلمہ ادا کرنے والے ہر فرد کی معصومیت کا راز بھی بن گیا ہے۔اُسامہ کا شدید عتاب کے بعد سر زنش کیاجانا‘حضور کی طرف سے محلمّ کا دور کر دیا جانا‘ اور پھر رسولِ خدا کا اُس کے منہ کی طرف بھی نہ دیکھنا‘ اور اِس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ صاحبِ شریعت کے نزدیک باہمی ملاپ پیدا کرنے والی بنیادی چیزیں کون کون سی تھیں ۔

جب مسئلہ اِس طریقے سے سامنے رکھا جائے تو پھراہلِ ایمان اور دوسروں کی پاسداری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اِس بات کی کیسے وضاحت کی جا سکتی ہے کہ اہلِ ایمان‘ اہلِ سجدہ اور اہلِ قبلہ لوگوں کے مابین سمجھوتہ نہ ہو سکے‘ آپس میں صلح صفائی ممکن نہ ہو ‘ یہاں تک کہ اُن پر کفر ‘ گمراہی اور گناہوں کے الزام لگانے کی جُرات بھی کی جائے۔۔۔۔! اور پھر اگر یہ کام کرنے والے ایسے افراد ہوں جن کا عوام پر گہرا اثر ہو تو کیا اِس وقت تباہ کاری کی قسم کے جرائم تک بھی نوبت نہیں آ جائے گی؟ جی ہاں ‘ عمومی توازن کے اِس بگاڑ کے سلسلے میں سب سے بدبخت انسان امام‘ رہبر‘ اور لیڈر ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں ”جن کی اجتماعی سطح پر کی گئی ایک غلطی ہزاروں لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔“

ہمارے خیال میں تمام راہبروں ‘ راستہ دکھانے والوں ‘ لیڈروں اور سرداروں کو ایک بار پھر یہ بات یاد دلانی مفید ہو گی کہ عمومی وجدان کی تعمیر کی جانب ایک قدم اٹھایا جائے۔

آپ کی محبت‘ آپ کی نفرت‘ آپ کا غصّہ‘ یہ سب اللہ کے نام پر ہو ۔آئیے بالآخر خودغرضی اور نفس پرستی کو خیرباد کہیں کیونکہ اپنے نفس کی پرستش کرنے والے کے لئیے نہ حق تعالیٰ کو اور نہ خلقِ خدا کو ممنون کرنا ممکن ہے۔ آئیے اپنے دوستوں سے حق کے پیمانوں کے اندر رہتے ہوئے محبت کریں اور اُن کے مقابلے میں مروّت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔اپنے دشمنوں کے

مقابلے میں چوکنّے رہیں اور اُن کی چالوں میں نہ آئیں ۔ہماری سوچ اور سمجھ کے اختلافات کو دشمنی کا وسیلہ نہ بنائیں بلکہ خوشحالی کے طور پو اِن کی قدرکریں ۔

ایک دفعہ پھردُہرائیں کہ کینہ اور نفرت کبھی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کرسکے۔یہ یقین رکھتے ہوئے کہ مہذب قوموں پر غالب آنا صرف قناعت کے ذریعے ممکن ہو گا‘ آئیے ایک مرتبہ پھر اتحاد اور مساوات کا ”عہدوپیمان“ کریں ۔

اتحاد کے مبلّغوں کی طرح ہر ملنے والے سے یہ کہنا کہ”آﺅ ہم متحد ہو جائیں “ بڑی بے تکی سی بات ہے۔ اور پھر اگر یہ بات کہتے ہوئے ہم متعلقہ شخص کو اپنے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت بھی دے دےں تو وہ سو فی صد بے حرمتی کے مترادف ہو گی۔کیونکہ اِس قسم کی حرکت آج تک حق پرست لوگوں کی اپنے گروہ سے وفاداری کو شہ دینے کے سوا اور کسی کام نہیں آئی۔اِس کے برعکس ہم اپنے آمنے سامنے والے لوگوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے اُن کے رہبروں اور بزرگوں کے بارے میں عزت کا اظہارکریں تو اِس سے ہم سخت ترین اشخاص کے دلوں کو بھی موم کر سکتے ہیں ۔

ایک مومن کی حیثیت سے ہمارے لیے نہایت اہم ہے کہ ہم کائنات کو ”مہدِ اخوت“(بھائی چارے کا گہوارا) کی نظر سے دیکھیں ‘ ہر فرد کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کا راستہ تلاش کریں ‘ خواہ کچھ بھی ہو دوسرے مومنوں کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے پیش آئیں اور اُن کے خیالات سے متاثر ہونے کے لیے اپنے دل و دماغ کو کھلا رکھیں ۔

ہمیں اُس دستِ عنایت کی تنقید نہیں کرنی چاہیے جو ہمیں تیار کر کے موجودہ سطح تک لے آیا ہے اور اب ہم جس کے انصرام اور کنٹرول کے ماتحت ہیں ۔ کون جانتا ہے کہ شاید ابھی انسانیت اپنی پختگی کا پورا ادراک نہ کر سکی ہو اور اُس کا کچھ مدتِ مقررہ کے لیے مزید موجودہ صورتِ احوال میں رہنا ضروری سمجھا گیا ہو۔

اور ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ تنقید کو ایک طرف پھینک دیں اور ذرا تقدیر پر بھروسہ کرتے ہوئے خوش خلقی کی زندگی گزاریں تاکہ اللہ بھی ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔