منصب مقام کا نشہ

ہر انسان میں بہت سی اچھی چیزوں کے گُودے اور بیجوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ بعض مصلحتوں کے پیشِ نظر کچھ بُری چیزوں کے عناصر بھی موجود ہوتے ہیں ۔ مثلا تعاون ‘خلوص‘ہمدردی‘ قناعت جیسی عمدہ خصلتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں میں اپنے مقام یا مرتبے کی محبت‘ اپنے منصب کا خیال‘ شہرت کی آرزو جیسی دل کو ہلاک اور روح کو مفلوج کرنے والی بُری خصلتیں بھی پائی جاتی ہیں ۔اِس اعتبار سے ہمیں چاہیے کہ اوروں سے اپنے تعلقات استوار کرتے ہوئے اُن کی اِن طبعی خصوصیات کو بھی مدِ نظر رکھیں تا کہ ہمیں بعد میں دل شکنی اور مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

* * * * *

کم و بیش ہر انسان میں مرتبے کی آرزو‘ شہرت کا احساس‘ اور منصب کا خیال فطری ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی یہ خواہش جائز طریقوں سے پوری نہیں کر سکتے اور اپنے آپ کو اِس آرزو‘ اِس احساس اور اِس خیال سے نجات نہیں دلا سکتے وہ خود اپنے لیے بھی اور اپنے قائم کردہ معاشرے کے لیے بھی بے حد مضر ثابت ہوسکتے ہیں ۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی اپنے پیٹ کی گنجائش سے بڑھ کر کھا لے اور پھر اس کے اندر قے کرنے کا رجحان پیدا ہو جو روکا نہ جائے تو یہ اُس میں افسردگی‘ توڑ پھوڑ اور (آئےرتھمیا) کا سبب بن سکتا ہے۔ جن بد لگام دلوں کی روح شان و شوکت کی مار کھا چکی ہو اگر اُن کی اِن اندرونی خواہشوں کو بھی لگام ڈال کر کسی مناسب راستے پر نہ ڈالا جائے تو اُن کے ہاتھوں بھی ہماری دنیا کے حساب میں لکھی گئی بربادیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں ۔

* * * * *

ایسے نا پختہ روح انسانوں کی ہر حرکت اور کاروائی جو وہ اپنے نفس کی تسکین کے لیے کرتے ہیں اور جو نسبتاَ شرّ سمجھی ہے‘اُسے خواہ کسی حد تک روح کی پٹائی ہی کیوں نہ سمجھا جائے‘ نتیجے کے اعتبار سے وہ ”اہونِ شر“(یعنی برائیوں میں سے اچھی برائی) بلکہ اگر بالواسطہ دیکھا جائے تو وہ اچھائی بھی سمجھی جا سکتی ہے۔جی ہاں ؟ اپنے حلق کے ذریعے”حقِ تمتع“(یعنی فائدہ حاصل کرنے کا حق) تلاش کرنے والا ایک موسیقارفُحش گانوں سے ہمارے ماحول میں پھنکار پھنکار کر دھندلا پن اور دھواں پھیلانے کے ساتھ ہی اگر ایک حمد‘ کوئی جاندار قصیدہ اور میلاد سے متعلقہ کوئی موضوع بھی شامل کر کے سب کچھ اُگل دیتا ہے تو ہم اُسے کم ضرر رساں سمجھتے ہیں ‘ بلکہ بعض لوگوں کی نظر میں تو یہ کارِ ثواب بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔

* * * * *

خلوص و اخلاص ہرکام کی روح ہوتا ہے اور یہ کام کرنے والے کی ایک خوبی ہوتی ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ عمل خالقِ دو جہاں کے نزدیک مقبول ہو‘ دل و جان سے اور بغیر کسی بدلے کی نیت سے کیا جائے‘ اور کرنے والے کے دل میں رضائے الٰہی کے سوا کوئی اور عنصر موجود نہ ہو۔البتہ ہر خدمت گزار فرد کا اِن شرائط پر کامیابی سے پورا اترنا بہت مشکل ہے۔لہٰذا ایسے لوگوں کے متعلق رائے قائم کرنے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُن پر شرّ حکمران ہے یا خیر۔ جی ہاں ‘ بعض ایسے کام بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے میں نمائش اور آلائش کا پلہ بھاری ہوتا ہے تاہم یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ و ہ کام ہمارے بلند خیالات‘پاکیزہ سوچ اور ہمارے عوام کے لیے واقعی مضر ہیں ۔ایسے لوگ اِن کاموں میں اپنی ذاتی آرزوﺅں اور خواہشات کو ملوث کر سکتے ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ رضائے حق کا خیال نہ کریں اور اپنی کی ہوئی غلطیوں کی تلافی کے لیے جھک کر آہ و بکا کرنا نہ جانتے ہوں ۔لیکن اِس کے باوجود یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ وہ اپنے عقیدوں اور پیروی کی جانے والی سمتوں کے معاملے میں حق کے ساتھ نہیں ہیں ۔

* * * * *

اِن سب باتوں کے باوجود ایک جماعت یا کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کرنے والے لوگوں میں سے اگر ہر کوئی کسی ایسے شعبے کی نمائندگی کا دعویٰ کر دے جس میں وہ خود مستقل طور پر کام کرتا رہا ہو‘ اور اُس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی اِسی طرح نمودونمائش کی خواہش میں مبتلا ہو جائیں تو معاشرے کا نظم وضبط برباد ہو جاتا ہے‘ ہرشے اُلٹ پلٹ ہو جاتی ہے۔ اور معاشرہ تیزی سے بد نظمی کی طرف چل پڑتا ہے۔ بعدازاں لوگوں کی خودغرضی کے باعث معاشرے کے ہر طبقے میں منفرد حرکات کی راہ کھل جاتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاﺅں سر کے ساتھ اور سر پاﺅں کے ساتھ خلط ملط ہو جاتے ہیں اور مرکز کا اقتدار مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔

* * * * *

اگر کسی حکومت میں کامیابی سے کام کرنے والے چہرے‘ کسی ریاست میں کام کرنے والے فعال عناصر‘ یا کسی تنظیم میں پائے جانے والی کامیاب اور متحرک روحیں اپنی ذاتی قابلیت اور کامیابیوں کے مطابق اپنے لیے بہترین حصّہ طلب کرنے لگ جائیں تومتعلقہ حکومت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے‘ وہ ریاست تباہ ہو جاتی ہے‘ اور وہ تنظیم سو منہ والا عجوبہ بن جاتی ہے۔ حکومت اپنے ڈسپلن کے بل پر‘ہر ریاست اپنے اصولوں اور اپنی بنیادوں کے باعث‘ اور ہر فوج اِطاعت‘فرمانبرداری اور حکم و احکام کی بناءپرعزت و احترام کے ساتھ قائم رہتی ہے۔ اِس کے برعکس دعویٰ کرنے کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم جان بوجھ کر اِن حیاتی عناصر کو نظرانداز کر رہے ہیں جو ہماری روزبروز کی بقاءکی ضمانت دیتے ہیں ۔

* * * * *

کاش کہ لوگوں کے دل اِس قابل ہوتے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ اور آئندہ عنایت کی جانے والی اشیاءپر قناعت کر سکتے‘ ہر گوشے میں اُس کی خوشنود ی تلاش کرنے کے قابل ہوتے! مگر یوں لگتا ہے کہ یہ ایک طرح کے خودغرض لوگ جو اپنے ہاتھوں میں پکڑی لالٹین کی بجھی بجھی روشنی پر قناعت کرتے ہو ئے سورج کی منوّر شعاعوں کی طرف سے پیٹھ پھیر لیتے ہیں یہ ابھی مزید کچھ عرصہ اپنی کمزور نظر کا علاج نہیں کروا سکیں گے‘ روشنی کا دروازہ نہیں پا سکیں گے!۔۔۔۔