قرآن

قرآن مکمل ترین پیغامات اور قوانینِ الٰہی کا ایک ایسا مجموعہ ہے جوبنی آدم کی قدرو قیمت کے تناسب سے اس کے دل‘ روح‘ عقل اور جسمانیت کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے اُس ذاتِ عالی مرتبہ نے اُفقِ انسانیت پر نازل فرمایا تھا۔

* * * * *

قرآن جس کے آج تقریباَ ایک ہزار ملین پیروکار دنیا میں موجود ہیں ‘ ایک ایسی بے نظیر‘ واحد کتاب ہے جو ابدی اورنا قابلِ تغیّر الٰہی اصولوں کے ذریعے پوری انسانیت کی رفاح اور اس رفاح تک رسائی کا نزدیک ترین اور روشن ترین راستہ دکھاتی ہے۔

* * * * *

قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو کرہءارض کی تقدیرکی حاکم نہایت عالیشا ن اور نورانی جماعتوں کے لیے ایک سرچشمہِ نور ہے۔ ان جماعتوں میں لاکھوں عالم‘ہزارہا فلسفی اور مفکر بھی شامل ہیں ۔ اور اس لحاظ سے قرآن کی سلطنت جیسی اور کوئی سلطنت بھی موجود نہیں ہے۔

* * * * *

نزول سے آج تک قرآن کو کیسے کیسے اعترازات ا ورتنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن اس موضوع پر قائم کی گئی تمام عدالتوں نے بالآخرقرآن کو بَری قرار دیا ہے اور اس سلسلے کی تمام لڑائیاں قرآن کی فتح پر منتج ہوئی ہیں ۔

* * * * *

قرآن دلوں میں بلّور کی طرح چمکنے والا ایک نور‘ روحوں کو روشنی مہیا کرنے والا روشنی کا سرچشمہ اور سراسر حقیقتوں کا مظہر ہے۔اُسے اُس کی حقیقی شکل میں صرف وہی صاحبِ ایمان روحیں پہچان اور سمجھ سکتی ہیں جو ایک پھول میں کائنات کی تمام خوبصورتیوں کو محسوس کرنے اور ایک

قطرے میں طوفان کو دیکھنے کی قابلیت رکھتی ہیں ۔

* * * * *

قرآن کا اسلوب بیان ایسا ہے کہ اُس کی آیات کو سننے والے عربی اور عجمی اصحابِ بلاغت اُسے سجدہ کرتے رہے ہیں اور‘ اُس کے مضامین کی خوبصورتیوں کا ادراک کرنے والے حقیقت شناس ادیب اُس سلطان البیان کی حاضری میں ادب سے جھک کر دُہرے ہو جاتے رہے ہیں ۔

* * * * *

مسلمان ہمیشہ صرف قرآن کی تصدیق کر کے اور اس پر ایمان لا کر ہی آپس میں اتحاد پیدا کر سکے ہیں اور اسی طرح آئندہ بھی اِس کی تصدیق کرنے او ر اس پر ایمان لانے سے ہی متحد ہو سکیں گے۔جو لوگ قرآن کی تصدیق نہیں کرتے وہ جس طرح مسلمان نہیں ہو سکیں گے اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ اُن کے درمیان مستقبل میں کبھی اتحاد پیداہو سکے۔

* * * * *

جب ہم کہتے ہیں کہ ”ایمان ضمیر کا مسئلہ ہے“ تو اس سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ” میں اللہ جل جلالہ‘ کی‘پیغمبرﷺ کی‘اور قرآن کی‘ محض زبان سے ہی نہیں اپنے ضمیر سے بھی تصدیق کرتا ہوں ۔“ ان معنوں سے منسلک ہر قسم کی عبادت اِسی صحتمند تصدیق کا اظہار کرتی ہے۔

* * * * *

وہ دور جس میں جہالت اور کفر کی در ندگی کے باعث انسانیت پریشان اور سرگرداں تھی اُس وقت اُس وحشیانہ ماحول میں ایک نور کا طوفا ن اٹھا تھا جس نے ایک ہی ہلّے میں ساری دنیا کو نور میں ڈبو دیا تھا۔اس طرح کا سب سے بڑا انقلاب ایک ہی مرتبہ آیا تھا اور تاریخ اس کی کوئی اور مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اور اس انقلاب نے قرآن کے وسیلے سے حقیقت کی شکل اختیار کی تھی۔ اس کی گواہی دینے کے لیے بس تاریخ ہی کافی ہے۔!

* * * * *

انسان کو حساس ترین موازنے کے ذریعے انسان کے معنی اور ماہیت‘ حق‘ حکمت‘ اللہ تعالیٰ کی ذات‘ اُس کی صفات اور اسمائے حسنیٰ کے بارے میں معلومات مہیا کرنے والی کتاب قرآن ہے۔ اس میدان میں قرآن کے مقابلے میں کوئی دوسری کتاب سامنے لانا بعید از امکان ہے۔ اگر تم صوفیائے کرام کی حکمتوں اور حق پرست فلسفیوں کے فلسفوں پر نظر دوڑاﺅ توتم بھی یہ بات سمجھ جاﺅ گے!

قرآن ایک واحد کتاب ہے جو حقیقی انصاف‘ حقیقی آزادی‘ متوازن مساوات‘خیر‘ ناموس‘ فضیلت‘ یہاں تک کہ حیوانوں سمیت ہر ہستی سے شفقت کا حکم دیتی ہے۔ظلم‘ شرک‘ نا انصافی‘ جہالت ‘رشوت ‘سود ‘ جھوٹ اور جھوٹی شہادت سے کھلم کھلا منع فرماتی ہے۔

* * * * *

یتیم‘ فقیر اور مظلوم کی حمایت کرنا‘بادشاہ اور غلام کو‘کمانڈر اور سپاہی کو‘ مدعی اور مدعا علیہ کو ایک ہی کرسی پر بٹھا کر باہمی معاملات پر غور کرنا سکھانے والی کتاب بھی محض اور محض قرآن ہی ہے۔

* * * * *

قرآن کو فرضی قصّے کہانیوں اور خرافات کے سرچشمے کے طور پر دکھانا ایک طرح کے بودے ہذیان کے سِوا کچھ بھی نہیں جوآج سے چودہ سو سال پہلے زمانہ جاہلیت کے عربوں کی طرف سے آج کل کے لادینوں کو ورثہ میں ملا تھا۔ حکمت اور حقیقی فلسفہ دونوں اس قسم کے ادراک کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

* * * * *

جو لوگ قرآن اور اس کے مندرجات پر باتےں بناتے ہیں کیا ان پر واجب نہیں تھا کہ وہ ‘ انسان کے اندر جو نظام‘ ہم آہنگی‘ امن و امان اور حفاظت پائی جاتی ہے اُس کے بارے میں بھی ‘خواہ وقتی طور پر ہی سہی ‘کچھ تو کہتے؟ در حقیقت اگر قرآن سے نا واقف تہذیبوں میں پائے جانے والے انتشار اور بد نظمی کو‘ اور قرآن کی روشنی سے محروم دلوں کو اپنی مصیبتوں اور بحرانوں کے باعث شدیدآہ و بکا کرتے دیکھا جائے تو ان کی ضد اور عناد کو سمجھنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔

* * * * *

انسانیت کے لئے سب سے زیادہ منظم حیات کا آسان طریقہ وہ ہے جو قرآن نے بتا دیا ہے۔ چنانچہ ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ آج متمدن اقوام نے دنیا کے چاروں کونوں میں پائی جانے والی جن خوبصورتیوں کو سراہا ہے اور جنہیں یاد کیا جاتاہے اُن سب کو صدیوں پہلے قرآن نے پسند کر کے اُن کی سفارش کی تھی۔ اب بھلا اس میں قصور یا قباحت کس کی ہے!؟

* * * * *

ہمارے ہاں ایک زمانے سے ایسے لوگ موجود ہیں جو قرآن کے بارے میں خواہ

مخواہ شیخی بگھارتے ہیں اور جنہوں نے قران کے ساتھ سر کھپانے کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ عام طور پر یہ وہ جاہل لوگ ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ در حقیقت کچھ بھی نہیں جانتے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ بےچارے جس کتاب کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے آج تک نہ اس کتاب کے بارے میں کوئی تحقیق کی ہے اور نہ ہی کچھ پڑھا پڑھایا ہے۔ دراصل ان کے دعووں میں اور اُن جاہلوں کے دعووں میں ‘ جو مثبت علوم کے خلاف اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کوئی خاص فرق بھی تو نہیں ہے۔ مگر حقیقتوں کو اچھی طرح جاننے کے لیے عوام کو ابھی کچھ عرصہ او رانتظار کرنا پڑے گا ۔

* * * * *

یقین کیا جاتا ہے کہ جو لوگ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں وہ حضرت محمدﷺ پر اور جو حضرت محمدﷺ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ جل جلالہ‘ پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔چنانچہ قرآن پر ایمان نہ لانے والے لوگ حضرت محمدﷺ پر بھی ایمان نہیں لاتے اور جوحضرت محمد ﷺ پر ایمان نہیں لاتے وہ اللہ جل جلالہ‘ کو بھی نہیں مانتے۔ گویا یہ ہیں ایک سچا مسلمان ہونے کی حدود!

* * * * *

قرآن کے وسیلے سے انسان ایک ایسے بلند ترین مرتبے تک پہنچ چکا ہے جہاں وہ خدا سے خطاب کر سکتا ہے۔ جس شخص کو اپنے اس قدر بلند رتبے پر پہنچ جانے کا شعور ہے وہ قرآن کو اپنی زبان میں سنتے ہوئے درحقیقت اپنے رب کو سن رہا ہوتا ہے‘اپنے رب سے کلام کر رہا ہوتا ہے۔ اور اگر وہ قسم کھائے کہ اُس نے اپنے رب کے ساتھ کلام کیا ہے تو اُس کی قسم جھوٹی نہیں سمجھی جاتی۔

قرآن کے منور ماحول میں انسان اپنی دنیاوی زندگی میں ہی قبر اور برزخ سے گزر کر محشر اور پل صراط کو دیکھ لیتا ہے‘جہنم کی دہشت سے کانپ اٹھتا ہے اور اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جنتّوں کی خوشگوار ڈھلانوں پر چل پھر رہا ہے ۔

جو لوگ مسلمانوں کو قرآن پڑھنے سے اور اُس کی گہرائیوں میں جانے سے روکتے ہیں وہ اس طرح اِن لوگوں کودین کی روح اور اسلام کے نچوڑ سے دور کر رہے ہوتے ہیں ۔

* * * * *

مجھے یوں لگتا ہے جیسے مستقبل قریب میں ہی انسان کی تعریف اور حیرت سے بھری آنکھوں کے دیکھتے ہی دیکھتے جب اوقیانوسِ قرآن کی جانب بہنے والے مختلف علوم‘ تکنیک‘ فنونِ لطیفہ اور صنعتوں کے دھارے اپنے سرچشمہِ حقیقی سے جا ملیں گے اوریوں اس کے ساتھ یکجان ہو جائیں گے تو تمام علمائ‘محقق‘ فنکار اورصنعتکار بھی ایک بار پھر اپنے آپ کو اُسی اوقیانوس میں پائیں گے۔

* * * * *

مستقبل کے دور کے قرآن کا دور ہونے کو کوئی بڑی بات نہیں سمجھنی چاہیے! کیونکہ قرآن اُس ذاتِ عالی کا کلام ہے جو ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے ملا کراکٹھا کرکے دیکھتی ہے۔