تصوّف

تصوف وہ مسلک ہے جس کے ذریعے انسانی ضمیر کو اسلام کی حقیقت کا احساس دلا کرحقیقت کے ادراک میں اُس کی مدد کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے جو لوگ اپنی موجودہ زندگی کا شعور نہیں رکھتے وہ اسلام کا ادراک نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی دوسروں کے قصّے کہانیوں سے ہی تسلی ہو جاتی ہے وہ بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکیں گے۔

* * * * *

نتیجے کے اعتبار سے انسان کے ‘ عجز‘ فُقراوراُس کی بے قدری کا ادراک کرتے ہوئے اس کی ہستی کی بنیاد تشکیل دینے والے حق تعالیٰ کے وجود سے نکلتی شعاعوں اور اس کی صفات کی تجلیوں کے سامنے انسان کے مکمل طور پر پگھل کر نابود ہو جانے کا دوسرا نام تصوّف ہے۔

* * * * *

تصوّف ‘ انسان کی روح کی وہ کیفیت ہے جس میں وہ پاک صاف ہو جانے کے بعد اس کی ذات سے مل کر یک جان ہو جاتی ہے اور زمان ومکان کی تمام حدود کو پارکر کے ایک نا معلوم بُعد تک جا پہنچتی ہے۔ چنانچہ تصوّف کے وسیلے سے ہر فرد معراجِ نبوی کے دوران کھولے جانے والے دروازے سے گزر کر آگے جاتا ہے‘ پھر اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے‘ اور یوں ایک طرح معراج کا مظہربن جاتا ہے۔ بے شک یہ معراج متعلقہ شخص کی قابلیت اور استعداد کے مطابق ہوتا ہے۔

* * * * *

فلسفہ اور حکمت انسان کی سوچ کے افق کو وسیع کرتے ہیں اور اُسے اشیاءاور حوادث کو پہچاننے میں مدد دیتے ہیں ۔ جہاں تک تصوف کا تعلق ہے تو یہ ایک نا قابلِ ادراک بُعد میں خالقِ اشیاءو حوادث سے انسان کے ملاپ کا انتظام کرتا ہے اور اُسے اللہ کا دوست اور ساتھی ہونے کے مرتبے تک پہنچاتا ہے۔

* * * * *

جیسا کہ اہلِ طریقت کے ہاں بھی دیکھا گیا ہے‘ تصوف ذکروفکر کے ذریعے لا متناہی”کمالاتِ الہیٰہ“ سے فیض یاب ہو کر انسانی روح کو منّور کرنے پر مشتمل ہے۔یہ انسان کی خودی کو پیمانہ بنا کر ابدیت پر ایک طرح کا فرضی خط کھینچ لینے سے شروع ہوتا ہے اور خودی اور اسرارِ خودی سے ہاتھ کھینچ کر ہر شے کے بارے میں جاننے کے لیے اُس ذات سے درخواست کرنے پر ختم ہوتا ہے۔

* * * * *

اُلوُھیت کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے جہاں فلسفے کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا وہاں تصوّف اس موضوع پر دل کے لیے ہاتھ پاﺅں اور آنکھ سے تحقیق کرنے کا ایک راستہ مہیا کرتا ہے۔یہ وہ راستہ ہے جس سے عقل ننگے سر اور ننگے پاﺅں ‘ اپنے خیالات سمیت مایوسی سے لوٹ آئی تھی۔اس راہ پر دل کو ایک فاختہ کی طرح پر لگ جاتے ہیں اور وہ اپنے قدر شناس اصولوں کی بنا پر ”موجود“و” مجہول“ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔اس کے بعد حاصل کردہ عرفان کے متعلق یہ کہہ کر اعلان کر دیتا ہے کہ ماَعارفنک َ حقّا مَعَر فَتَک یعنی ”تجھے ہم حقیقی طور پر پہچان نہ سکے ۔“

* * * * *

تصوّف اسلام کی روح ہے ۔ اس کے بغیر اسلام کے متعلق سوچنا بھی محال ہے۔جہاں تک مختلف طریقتوں کا تعلق ہے تو انہوں نے اسے اور زیادہ منظم بنا دیا ہے۔