آرام طلبی

ہر عظیم دعوے اور حقیقت کو دوام عطا کرنے اور اُسے ایک بین الاقوامی شناخت دلوانے والے عناصر یہ ہیں : اس کے نمائندوں کے ارادوں کی پختگی‘ اُن کی صداقت‘اور متعلقہ دعوے اور حقیقت کا دفاع کرنے میں اُن کی کوششیں ۔ اِس کے برعکس کوئی دعویٰ اگر ایک طرف تو دشمنوں کے لگاتار حملوں اور زیادتیوں کی زد میں آتا رہے اور دوسری طرف سمجھدار‘صادق اور وفادار دوستوں سے محروم ہو تو جلد یا بدیر وہ دھڑام سے زمین پر آ رہے گا‘ لوگوں کے ذہنوں سے مٹ جائے گا‘ کہ یہی اُس کی قسمت میں لکھا ہو گا۔

* * * * *

جس طرح اپنی روانی کھو کر ساکن ہو جانے والے پانی سے بدبو آنے لگتی ہے اور وہ خراب ہو جاتا ہے اِسی طرح وہ سست انسان جو اپنے آپ کو تن آسانی کے حوالے کر دیتے ہیں اُن کا بھی گل سڑ کر ضائع ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔انسان میں آرام طلبی کی آرزو اُس کی موت کے خطرے کی پہلی گھنٹی اور اشارہ ہوتی ہے۔لیکن اگر ایک شخص کے احساسات مفلوج ہو چکے ہوں تو نہ وہ خطرے کی اِس گھنٹی کی آواز سنتا ہے اور نہ ہی اِس اشارے کا مطلب سمجھتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی تنبیہ اور خبردار کرنے پر بھی کان نہیں دھرتا۔

* * * * *

ہر طرح کی ذلت اور محرومی کی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ سستی اور تن پرستی ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مُردہ روحیں جو اپنے آپ کو راحت اور آرام طلبی کی گود میں دھکیل دیتی ہیں ‘ ایک دن آئے گا کہ وہ اپنی اہم ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی دوسروں پر اُمید لگائے بیٹھے رہنے جیسی ذلت سے دو چار ہوں گی۔

* * * * *

اِس سستی اور آرام طلبی کی عادت میں اگر حد درجے کی خانہ پرستی بھی شامل کر لی جائے تو سمجھ لیں کہ بالآخر خطِ دفاع کو ترک کرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور متعلقہ شخص کا اپنی روحانی موت سے دوچار ہونا اُس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ دن بدن پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ اور اگر صورتِ حال کا تجزیہ اُس شخص کے زیبِ تن کئے ہوئے لباس کے اعتبار سے کیا جائے تو وہ بالکل ہی ذلت اور تباہی کا پتہ دے گا۔

* * * * *

جنگ سے محبت اور سرحدوں کو پھیلانے کے جوش و جذبے کی وجہ سے ایک چھوٹے سے قبیلے سے ایک معظم سلطنت معرضِ وجود میں آئی اور پھر ایک دن آیا جب اِس عشق اور آرزو کی جگہ سودائے حرم نے لے لی اور وہ معظم قوم خاک میں خاک ہو گئی۔

* * * * *

حرم کے عشق اور خانہ پرستی کے باعث پہرے کی چوکیاں ترک کرنے والوں نے کئی مرتبہ اپنے ہدف کے مخالفین سے مار کھائی اور اپنے آرا م دہ گھروں اور چہچہاتے بچوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔اُندلس کا ایک کمانڈر تھا جو جنگ کرنے کی ضرورت پڑتی توجوانمردی سے جنگ کرنا نہیں جانتا تھا۔اُس کی ماں نے اُسے جو پُر عتاب الفاظ کہے وہ کس قدر بامعنی ہیں ۔”محاذ پر تم جوانمردوں کی طرح نہ لڑ سکے تو کم از کم بیٹھ کر عورتوں کی طرح رو ہی لو!“

* * * * *

انسان کو جب تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اوریہ عمل آہستہ آہستہ نہایت خاموشی سے جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایک معمولی سی غفلت ‘ مثلاََ قافلے سے تھوڑی سی دیر کے لیے علیحدگی‘ انسان کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ البتہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کو ہمیشہ ایک ہی خط پر اور ایک ہی پوزیشن میں دیکھتے رہنے کے عادی ہونے کی وجہ سے اگر کبھی کسی مینار جیسے بلند مقام سے کنویں کی تہہ میں بھی جا گریں تو اُنہیں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا(یعنی وہ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ابھی تک اپنی پرانی پوزیشن پر ہی قائم ہیں ۔)

* * * * *

جو لوگ محاذِ جنگ ترک کر جاتے ہیں ‘ اور جن کے دل میں ہر بھگوڑے سپاہی کی طرح ایک احساسِ جرم موجود رہتا ہے جو کہ بالکل طبعی ہوتا ہے‘ اور جو اپنے اُن ساتھیوں کی تنقید کا شکار بنے رہتے ہیں جو ابھی تک محاذ پر دفاعی فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں ‘ اُن کے لیے یہ بات تقریباََ بالکل ہی خارج از امکان ہوتی ہے کہ وہ اپنی گمراہی کے بوجھ سے نجات حاصل کر کے دوبارہ اپنی پہلے والی سطح پر آ جائیں ۔حضرت آدم علیہ سلام نے جب غلطی کی تو اپنے قصور کا اعتراف کرنے کی وجہ سے اُنہوں نے ایک ہی جست میں اپنا پرانا مقام پھر حاصل کر لیا۔ اِس کے مقابلے میں ابلیس اپنی بہت بڑی غلطی کے باوجود‘ اپنے دفاع کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا جس کی وجہ سے اُسے ابدی نقصان اٹھانا پڑا۔

* * * * *

جب کسی شخص کا عزم‘اِرادہ اور شعور مفلوج ہو جاتے ہیں تو اُس سے بعض اوقات اُس کے اِردگِرد کے لوگوں کی جسارت اور معنوی قوت بھی بُری طرح متاثر ہوتی دیکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو شخص اپنی قوتِ اِرادی کھو چکا وہ اگر معمولی سی پس و پیش کرے یا کسی کام کے کرنے میں ذرا سی ہچکچاہٹ ظاہر کرے تو وہ بے شمار انسانوں کی ایسی کپکپاہٹ اور مایوسی کا سبب بن جاتا ہے جیسے ان پر حقیقتاََ موت طاری ہونے کو ہو۔اگر ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائے تو وہ محض اِس کام آ سکتی ہے کہ قوم اور وطن کے دشمنوں کے حوصلے بڑھا کر اُنہیں اتنی جسارت مہیّا کر دے کہ جو اُن کی جارحانہ بھوک کو مہمیز لگا کر اُنہیں ہم پر حملہ کرنے کی تشویق دے۔

* * * * *

دنیا کی جاذبِ نظر دلکش اشیائ‘ مال و اولاد سب اپنی اپنی جگہ ایک فتنہ ہیں ‘ ایک امتحان ہیں ۔ اِس امتحان میں سب سے کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار وہ خوش بخت لوگ ہوتے ہیں جو صبح شام اپنی دلدادہ حقیقت اور”عہدوپیمان“ سے رہتے ہیں ‘ جو عزم واِرادے کے پکے ہوتے ہیں اور اپنے اِرادے پر ڈٹے رہتے ہیں ۔