برداشت(تحمل مُروّت)

کھول دے‘ اپنا سینہ ہر انسان کے لئیے جتنا کھول سکتا ہے کھول دے۔ اتنا کھول دے کہ سمندروں کی طرح ہو جائے۔ ایمان سے پورا پورا کام لے اور انسانوں کے ساتھ محبت کر۔ کوئی پریشان دل ایسا نہ رہ جائے جس کے بارے میں تجھے تشویش نہ ہو اور جس کی طرف تو نے ہاتھ نہ بڑھایا ہو۔۔۔۔۔۔!

* * * * *

اچھے لوگوں کی تعریف اُن کے اچھائیوں کے ساتھ کرو۔ایمان والے دلوں کے ساتھ مروّت کے ساتھ پیش آﺅ۔کافروں کی طرف اِتنی نرمی سے بڑھو کہ اُن کے دل کا کینہ اور نفرت پگھل کر عائب ہو جائے۔ اور اپنے سانسوں میں ہمیشہ مسیحا بنو۔۔۔۔۔!

* * * * *

سڑکوں میں سے رنگین ترین سڑک پر‘بیانات میں سے جاذب ترین بیان کے ساتھ آفاک سے لین دین کرتے ہوئے یہ مت بھول کہ تو ایک راہبر ِعظیم کی پیروی کر رہا ہے! مت بھول! اور جن لوگوں کے پاس اِن خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بھی نہیں ہے اُن کا خیال کرتے ہوئے انصاف کر!

* * * * *

برائیوں کو نیکیوں سے رد کر‘اگر کوئی بداخلاقی سے پیش آئے تو اِسے نظرانداز کر دے! ہر شخص اپنے طرزِ عمل سے اپنے چال چلن کی عکاسی کرتا ہے۔ تُو برداشت اور تحمل کی راہ اختیار کر اور رسم و رواج سے نابلد لوگوں کے ساتھ عالی ظرفی سے پیش آ۔۔۔۔!

* * * * *

محبت سے محبت کرنا اور دشمنی کا دشمن ہونا ایمان کے جوش سے بھرے دل کا سب سے ممتاز وصف ہے۔ہر ایک سے نفرت کرنا‘ دل کو شیطان کے حوالے کر دینے کایا پاگل پن کا نتیجہ ہے۔ تُو انسان سے محبت کر اور انسانیت پر حیرت کا اظہار کر۔۔۔۔۔!

* * * * *

بے حد احتیاط کر کہ تجھے ایک مرتبہ بھی نفس کی حاکمیت میں نہیں گرنا چاہیے۔کیونکہ اس کے مطابق تیرے سِوا ہر شخص مجرم ہے‘ہر فرد بد بخت ہے۔ اور یہ بات سب سے سچی بات کہنے والے کے بیان کے مطابق متعلقہ شخص کی ہلاکت کا نام ہے۔ تُو اپنے نفس کے خلاف خوب سخت ہو اور دوسروں کے خلاف نرم سے بھی نرم تر ہو۔۔۔۔۔!

* * * * *

توُاپنے ایسے طرزِ عمل اور طور طریقے پر دھیان رکھ جو دوسروں کو تجھے چاہنے والے بناتا ہے اور تیری نظروں میں اِنہیں محبوب بناتا ہے! یہ مت بھول کہ وہی چیزیں تجھے بھی چاہے جانے اور پسند کئے جانے کا وسیلہ بن سکتی ہیں ۔ہمیشہ انسانوں کی طرح سلوک کر اور رحمدل ہو۔۔۔۔!

* * * * *

حق تعالےٰ جو سلوک تیرے ساتھ کرتا ہے اُسے میعارتسلیم کرتے ہوئے تجھے بھی عوام کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرناچائیے۔اس حالت میں عوام کے بیچ میں تو حق تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے او ر اکیلے پن کی وحشت کے دونوں موقعوں سے بچ جاتا ہے۔

* * * * *

خالق کی نظروں میں تیری کیا حیثیت ہے اس کا اندازہ توُ یوں لگا سکتا ہے کہ تیرے دل میں خالق کے لیے مخصوص کئے گئے مقام کی حیثیت کیا ہے۔ اور عوام کے نزدیک تیرا کیا مقام ہے۔ اس کا اندازہ تیرے ان کے ساتھ کئے گئے طرزِ عمل سے ہو سکتا ہے۔ ( دونوں صورتوں میں اللہ اور عوام کے ساتھ اپنے طرزِعمل کو ترازو میں رکھ کر دیکھ لے کہ کون سا پلڑا بھاری ہے۔) تُو ایک لمحے کے لیے بھی حق تعالیٰ سے غافل نہ ہو! اور”انسانوں کے درمیان انسانوں میں سے ایک انسان ہوجا۔

* * * * *

اگر تیری روح میں یہ بات پوری طرح گھر کر چکی ہے کہ ایمان رکھنے والے لوگ تیرے ساتھ بڑائی کر سکیں گے تو سمجھ لے کہ یہ خیال تیرے غلط فیصلے اور کم عقلی پر ‘ تیرے ایک کمزور انسان ہونے پر اور تیری روح کی پستی پر مبنی ہے! چناچہ فوراَ کسی ایسے متقی سے رجوع کر جو تیرے دل کو گرما سکے اور تیری آنکھوں سے آنسو جاری کر واسکے۔

* * * * *

مختصر یہ کہ انسانوں کے درمیان اپنے لیے محبت اور اعتبار کی حفاظت کے لیے محبت بھی حق کی خاطر کر اور نفرت بھی! اور ایک ایسا انسان بن جا جس کا دل حق تعالیٰ کے لیے کھلا ہوا ہو۔۔۔۔!