تربیت

ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے:”بچہ عزیز ہے تو اس کی تربیت عزیزتر ہے“ کیا سچ کہا گیا ہے! بچے کی تربیت کے سلسلے میں والدین کا طرز عمل یوں ہونا چائیے جیسے وہ ناپ تول کی غذا کھارہے ہوں ۔ یعنی بچے کی تربیت میں بھی ان کے لیے ناپ تول کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

* * * * *

پیدائش سے پانچ سال کی عمر تک کا عرصہ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں بچے کا تحت الشعور بالکل کھلا ہوا ہوتا ہے۔ اس دورمیں بچوں کے لیے اچھی مثالوں کے طور پر جس قدر کام کیا جائے واجب ہے۔

* * * * *

بچپن اور جوانی کی عمر میں حاصل کردہ اثرات اور تاثرات کا ہر انسان کے مستقبل سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اگر بچے اور نوجوان ایسی فضا میں پرورش پائیں جس میں انہیں بلند احساسات کے ذریعے جوش میں بڑے بڑے کام کرنے کے مواقع حاصل ہوں تو وہ ذہنی اور فکری حالات کے حساب سے زندہ اور اخلاق اور فضیلت کے لحاظ سے بطورِ مثال پیش کیئے جانے والوں میں شمار ہونے کے لیے نامزد سمجھے جاتے ہیں ۔

* * * * *

انسان کے احساسات حقیر اور ذلیل اشیاءسے جس قدر دور ہوں گے اُتنا ہی وہ حقیقی معنوں میں انسان ہو گا۔ وہ لوگ جن کا دل برے احساسات کے دباﺅ تلے رہتا ہے اور جن کی روح نفسانیت کے شکنجے میں جکڑی ہوتی ہے وہ اگر شکل و صورت سے انسان دکھائی دیتے ہوں تو غور کرنے کی بات ہو گی( کہ آیا وہ واقعی انسان ہیں )۔ تربیت کا وہ حصّہ جس کا تعلق جسم سے ہے اُس سے تقریباَ ہر شخص واقف ہے۔ مگر جو شے صحیح معنوں میں کارآمد ہوتی ہے وہ فکری اور جذباتی تربیت ہے۔ اور اس کا علم رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ حالانکہ پہلی قسم کی تربیت سے زیادہ تر

ان لوگوں کی پرورش ہوتی ہے جن کا مقصد مضبوط پٹھے اور جسم ہوتا ہے۔اور دوسری قسم کی تربیت سے روحانی اور معنوی انسانوں کی پرورش ہوتی ہے۔

* * * * *

کسی قوم کی اصلاح اُس کے اجزائے بد کو تباہ کر دینے سے نہیں ہوتی۔ یہ خدمت قومی ثقافت اور قومی تربیت کے ذریعے نسلوں کو انسانیت کی بلندیوں پر پہنچا کر کی جانی چاہیے۔ اگر دین‘ تاریخی شعور اور روایات کے مغلوبے پر مشتمل مقدس بیج ملک کے چاروں کونوں میں نہ بویا جائے اور پھر یہ بیج پھوٹے بھی نہ‘ توہر تباہ کی گئی بدی کی جگہ پر کئی نئی بدیاں خودرو گھاس کی طرح اُگ آئیں گی۔

* * * * *

یہ ضروری ہے کہ بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابیں ‘ خواہ نظم ہو یا نثر‘ سوچ کو قوت‘ روح کو سنجیدگی‘ امید‘ اور عظم کی روشنی مہیا کر سکیں تا کہ قوم کو ایسی نسلیں مل جائیں جن کے ارادے مضبوط اور خیالات مستحکم ہوں ۔

* * * * *

آج کی بچیاں جن پر آنے والی بچیوں کی تربیت کی ذمہ داری ہو گی اُن کی تربیت اگر چہ پھول کی سی نزاکت ‘ نفاست پسندی اور شفقت جیسی بنیادوں پر ہونی چاہیے‘ مگر اس لحاظ سے کہ اُن میں تصورِ حق کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ فولاد کی طرح مضبوط ہوں ورنہ نزاکت اور نفاست پسندی کی خاطر ہم انہیں ایک قسم کی مسکین اور عاجز لڑکیوں میں تبدیل کر دیں گے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نر ہو یا مادہ شیرشیر ہی ہوتا ہے۔

* * * * *

تربیت بذاتِ خود ایک خوبصورتی ہے اور یہ جس کسی میں پائی جائے اُس کی قدر کی جاتی ہے۔جی ہاں ! خواہ کوئی جاہل ہی کیوں نہ ہو اگر وہ تربیت حاصل کر لے تو اُسے پسند کیا جاتا ہے۔ وہ قومیں جو ملی ثقافت اور ملّی تربیت سے محروم ہوتی ہیں اُن کی مثال گنوار‘ جاہل اور آوارہ گرد افراد کی طرح ہوتی ہے کہ نہ تو ان کی دوستی میں وفا پائی جاتی ہے اور نہ ہی اُن کی دشمنی میں سنجیدگی۔

جو لوگ اس قسم کے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں ۔جو ان کی مدد پر انحصار کرتے ہیں وہ جلد یا بدیر بے یارومددگار رہ جاتے ہیں ۔

* * * * *

جو استاد اور استانیاں کسی استاد کی شاگردی میں نہیں رہتے اور کسی محکم ذریعے سے تربیت حاصل نہیں کرتے‘ وہ اُن اندھوں کی طرح ہوتے ہیں جو دوسروں کو راہ دکھانے کے لیے ہاتھوں میں چراغ لیے کھڑے ہوں ۔ بچوں میں پائی جانے والی بے حیائی اور بد تمیزی کا سبب وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی گود میں اِنہوں نے پرورش پائی ہوتی ہے۔اور جو خود گدلے پانی کی طرح غیر شفاف ہوتے ہیں ۔کسی خاندان کے اندر پائی جانے والی احساسات‘ خیالات اور کارکردگی کی بد انتظامی اس خاندان کے بچوں کی روح پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور پھر قدرتی بات ہے کہ اس سے یہ بد انتظامی پورے معاشرے میں بھی پھیل جاتی ہے۔۔۔۔

* * * * *

سکولوں میں تربیت اور قومی ثقافت پر بھی اگر زیادہ نہیں تو کم از کم دوسرے مضامین جتنا ٰہی زور دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے ایسی نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو اپنی محکم روح اور اعلیٰ کردار کے ذریعے وطن کو جنت میں تبدیل کر سکتی ہیں ۔ تعلیم اور تربیت دو علیٰحدہ علیٰحدہ اشیاءہیں ۔ انسانوں کی اکثریت معلم تو بن سکتی ہے مگر مرّبی بننے کے قابل لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔

* * * * *

سب سے زیادہ ضروری درس جن پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے‘ قومی ثقافت اور قومی تربیت کے درس ہیں ۔ اگر کوئی دن ایسا آیا جب ہم نے اس راہ پر چلنا شروع کر دیا تو وہ ہماری ترقی کے لیے کِیا جانے والا سب سے درست فیصلہ ہو گا۔

* * * * *

شاعر پیدائش سے ہی شاعر ہوتا ہے۔ عمراُلقیس نے کبھی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ آئین سٹائن سکول سے بھاگ جایا کرتا تھا کیونکہ اس کی سوچ سب سے مختلف تھی۔ نیوٹن حساب میں بہت کم نمبر لیا کرتا تھا مگر اس کی تھیوری کی بنیاد ہی حساب پر تھی۔ہم ہیں کہ دوسروں کی دیگ میں اپنا چمچہ چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔

* * * * *

بچے جن کی روح آئینے کی طرح چمکدار ہوتی ہے اور کیمرے کی سی تیزی کے ساتھ تصویریں بنا لیتی ہے‘ اُن کا اولین سکول اپنا گھر ہوتا ہے۔ اور اُنہیں سب سے پہلے تربیت دینے والی اُن کی اپنی ماں ہوتی ہے۔ ماﺅں کو ادھر اُدھر فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ ان کی پرورش ایک تربیت دینے والے استاد کی طرح کی جائے۔ یہ ایک قوم کے وجود اور بقاکے لیے اہم ترین بنیاد ہے۔