حکمت اور فضیلت

عوام کے درمیان فضیلت گدّی پر یا ننگی زمین پربیٹھتی ہے جبکہ غرور شاندار کرسیوں میں بھی نہیں سماتا۔اگر قبّہ نما غرور کوایک اُلٹائے گئے کنویں کا متشابہ گردانا جائے تو فضیلت کو ایسے آسمان سے مشابہت دی جا سکتی ہے جو زمین پر اتر آیا ہو۔۔۔۔

* * * * *

جہالت انسان کو غرور کی طرف لے جاتی ہے او ر حکمت فضیلت کی طرف۔ غرور جہالت کا وہ بچہ ہے جس کے آباﺅاجداد ہی نہیں ہیں ‘جبکہ فضیلت حکمت کی اعلیٰ نسل کی اولاد ہے۔ غرور ظلم وستم کا حامی ہے اور فضیلت آزادی اور مشاورت کی۔

* * * * *

غرور ہمیشہ تنہائی میں گھومتا پھرتا اور اپنی مثالیں ڈھونڈتا رہتا ہے۔ فضیلت متواتر عوام کے ساتھ رہتی ہے کیو ں کہ وہ مطمئن ہوتی ہے کہ اسے اپنی امثال مل چکی ہیں ۔

ایک محاورہ ہے”زبردستی سے خوبصورتی نہیں ہوتی۔“ یہ بالکل بجا ہے۔ بڑائی بھی زبردستی سے حاصل نہیں ہوتی۔ ان دونوں کو اجتماعی وجدان مقرر کرتا ہے۔

* * * * *

بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے پسند کرنے والوں کو نیک بین اور پسند نہ کرنے والوں کو بد بین کہتے ہیں ۔یہ لوگ پہلی قسم کے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں اور اُنہیں اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے لوگوں کا سات گاﺅں دور تک پیچھا کر کے اُنہیں بھگا دیتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو سات گاﺅں دور بھگانے کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو یہ خودبین لوگ خود ہیں ۔

* * * * *

نیک بین کو ہر شے اچھی اور بد بین کو ہر شے بری دکھائی دیتی ہے۔بد بین ضرر رساں ہوتے ہیں ۔ اچھی چیز کو اچھاکہنااوربری چیزکو بر ا ہی دیکھنا ”حقیقت بینی “ہے۔