نوجوان

جوان شخص طاقت‘قوت اور ذکا کا نونہال پودا ہوتا ہے۔اگر اس کی تربیت اور اصلاح کی جائے تو وہ تمام مشکلات پرقابو پا جانے والاہرکولیس‘ دلوں کو روشن کرنے والی اور دنیا کو اعلیٰ نظام کا وعدہ کرنے والی ایک طاقت بن سکتا ہے۔

* * * * *

جمعیت ایک بلّوری برتن ہے جب کہ نوجوان لوگ اس برتن میں کسی مائع شے کی مانند ہوتے ہیں جو اِسی برتن کے رنگ ڈھنگ اور شکل و صورت میں ڈھل جاتے ہیں ۔ وہ اسی شکل میں دکھائی دیتے ہیں ۔نہ جانے نظامِ حکومت کے وہ حواری جو انہیں اطاعت اور فرماں برداری کی تاکید کرتے رہتے ہیں ‘کیا انہوں نے کبھی ان نوجوانوں کی طرف پلٹ کر دیکھا بھی ہے یا نہیں ؟

* * * * *

ہوس خاصی میٹھی‘ اور فضیلت(نیکی) تھوڑی کھٹی‘ نمکین کھا نوں جیسی ہوتی ہے۔ جب کسی نوجوان کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی آزادی دے دی جائے تو نہ جانے اس بات کے کہنے کی حاجت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں ‘ کہ وہ ان میں سے کس کا انتخاب کرے گا اور کسے رد کر دے گا۔ حالانکہ یہ ہمارا ہی فرض بنتا ہے کہ اُنہیں اس بات کی تربیت دیں کہ وہ فضیلت اور نیکی کو اپنا دوست بنائیں اور بد اخلاقی اور ذلّت کے دشمن ہوں ۔

* * * * *

ہم جس وقت تک تربیت کے ذریعے ایک نوجوان کی مدد کو نہیں پہنچتے اُس وقت تک وہ اپنی پرورش کے ماحول کااور ہوس اور ذوق کا پروانہ ہی بنا رہتا ہے۔ علم‘ بصیرت‘ اور منطق سے بہت دور گردش کرتا ایک دیوانہ‘ اور خونخوار شخص ہوتا ہے۔نوجوانوں کی عمدہ تربیت جو اُن کے ماضی پر مبنی ہو اور اُنہیں اپنے مستقبل کے لیے تیار کرے‘ اُن میں سے ہر نوجوان کومستقبل کا حضرت عمرؓ بنا دے گی۔

* * * * *

کسی قوم کا عروج و زوال اس قوم کی نوجوان نسلوں کی اُس تعلیم و تربیت پر منحصر ہو گا جو اُن کی روح اور شعور کو دی جائےگی۔ وہ قومیں جن کی جوان نسلیں پرورش کے دوران اچھی تربیت حاصل کرتی ہیں اُن کا ہمیشہ ترقّی کے لیے نامزد کیا جانا‘ اس کے برعکس وہ قومیں جو اس پہلو سے غفلت برتتی ہیں اُن کا ہمیشہ روبہ زوال رہنا بالکل ناگزیر ہے۔

* * * * *

جو لوگ کسی قوم کے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنا چاہیں ‘ وہ اگر اس قوم کے جوانوں کو دی جانے والی تربیت کامطالع کر لیں تو ان کی پیشین گوئی سو فی صد درست نکلے گی۔