کیا نیت نجات کے لیے کافی ہے؟

جو نیت انسان کو عمل پراکساتی ہے، وہ اسے ناکامی سے بچاسکتی ہے،لیکن جو نیت عزم اورسعی میں نہ بدلے ، اس میں یہ صلاحیت قطعاًنہیں۔نیت ارادے، عزم، احساس اور کسی طرف متوجہ ہونے سے عبارت ہے۔نیت کے ذریعے انسان کو اپنی منزل کی سمت کااندازہ اوراپنی ترجیحات کا علم ہوتاہے، جس کے نتیجے میں اس میں اپنے مقصد کو پانے کااحساس پیداہوتاہے۔ نیت تمام اعمال کی بنیاد اورانسان کی طرف منسوب تمام رجحانات اورمیلانات کاوسیلہ ہے،نیزیہ انسانی ارادے اورتخلیقی صلاحیت کی مضبوط اورمحفوظ ترین اساس ہے،بلکہ یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہوگاکہ کائنات اورانسان سے متعلق ہرچیزکی ابتدا اوربقا نیت پرمنحصر ہے۔نیت کے بغیر کوئی چیزوجودمیں آسکتی ہے اورنہ ہی باقی رہ سکتی ہے۔

ہرچیزکاآغاز ایک ذہنی تصورسے ہوتاہے پھریہ ذہنی تصورمنصوبے میں ڈھلتاہے اور آخرکارعزم و ارادے کی بدولت حقیقت کاروپ دھارتاہے، تاہم جیسے اس ابتدائی تصوراورنیت کے بغیرکسی کام کاآغاز نہیں ہوسکتا،ایسے ہی جس نیت کے پیچھے عزم اورفیصلے کی قوت نہ ہو وہ بے ثمر رہتی ہے اوراس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔بہت سے امورسے نیت کی قوت کااندازہ ہوتا ہے، لیکن جو لوگ زندگی کاحقیقی شعورنہیں رکھتے وہ نیت کی تاثیرسے ناآشنا رہتے ہیں۔

انسان کے اچھے اوربرے اعمال کے لیے بھی نیت کی بڑی اہمیت ہے۔اگراس پہلو سے دیکھیں توایک طرف نیت شفا اوراکسیر کادرجہ رکھتی ہے،لیکن دوسری طرف یہ ایسی آندھی کی صورت اختیارکرلیتی ہے،جوانسان کے تمام اعمال کوضائع کرکے ان کا نام ونشان تک مٹا دیتی ہے۔ بسااوقات گندم کے ایک دانے کی بقدرچھوٹاسا عمل حسن نیت کی بدولت بڑھ کرہزار خوشوں کی صورت اختیارکرلیتاہے یاپانی کاایک قطرہ دریابن جاتاہے، لیکن دوسری طرف پہاڑوں جیسے اعمال بری نیت کی وجہ سے بے ثمراوربرباد ہوجاتے ہیں۔

رکوع وسجود، روزہ اورگناہوں اور بعض مباح امورسے بھی اجتناب اگر بندگی کے مکمل احساس کے ساتھ ہو تو بندے کوعالم بالاکے عالی مقامات پرپہنچاکربادشاہ بنا دیتا ہے، لیکن اگراس شعوراوراحساس کے بغیر ان سے بھی زیادہ اعمال کیے جائیں توان کے کرنے والے کو سوائے بے آرامی اورتھکاوٹ کے کچھ حاصل نہ ہوگا، لہٰذا رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کچھ امور کوچھوڑنے کے ساتھ ساتھ بعض اعمال کوایسے طور پرسرانجام دینابھی ضروری ہے کہ وہ اشرف المخلوقات حضرتِ انسان کے مقام کے شایاں ہوں۔جس کام یاسعی کامقصدخوشنودئ خداوندی نہ ہواس کاکوئی فائدہ نہیں۔

حسن نیت ایسی اکسیرہے،جو معدوم کووجودبخشتی ہے،لیکن بری نیت موجود کو فناکرکے اس کے اثرات تک زائل کردیتی ہے۔میدانِ جہادمیں اپنے خون سے لت پت بہت سے لوگ بری نیت کی وجہ سے جہنم میں جاتے ہیں، لیکن نرم وگداز بستروں پرجان دینے والے بہت سے لوگ حسن نیت کی بدولت جنت کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ روشن مستقبل کی خاطر لڑنے والوں کے ہمراہ بہت سے لوگ ذاتی مفادات کی خاطربھی جنگ میں شریک ہوجاتے ہیں، لیکن جب اول الذکرلوگ اعلیٰ علیین کے مقام پرفائز ہوتے ہیں، مؤخرالذکر لوگوں کواسفل السافلین میں پھینک دیاجاتاہے۔

نیت ایک ایسی جادوئی چھڑی ہے، جوہماری اس عارضی زندگی کوابدی زندگی میں بھی تبدیل کر سکتی ہے اورعذاب اور بدبختی کی زندگی میں بھی بدل سکتی ہے۔جولوگ اس چھڑی کا درست استعمال کریں گے ان کی زندگی کاکوئی پہلوبھی تاریک نہ رہے گا،بلکہ ان کی ساری زندگی جگمگا اٹھے کی اوروہ ہمیشہ کی اطمینان بخش زندگی پالیں گے،کیونکہ جب یومیہ ،ہفتہ وار اورماہانہ فرائض اخلاص کے ساتھ ادا کیے جائیں توان پرملنے والااجروثواب صرف ان کی ادائیگی کے اوقات تک محدودنہیں رہتا،بلکہ زندگی کے تمام لمحات کااحاطہ کرکے ان پراپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔جہادکے لیے مستعد سپاہی کو اس وقت بھی جہاد کا ثواب ملتارہتاہے،جب وہ عملاً جہاد نہیں کر رہاہوتا،اسی طرح جوپہرہ دار اپنی باری پرکسی قلعے یاچھاؤنی میں پہرداری کے فرائض سرانجام دیتا ہے، اسے کئی کئی ماہ تک مسلسل عبادت کرنے والے کی عبادت کاثواب ملتارہتاہے۔ بندۂ مؤمن کے عارضی زندگی میں ابدی سعادت کو پانے اورکافرکے نصیب میں ہمیشہ کی بدبختی اورندامت کے لکھے جانے میں یہی رازمضمرہے، ورنہ ظاہری انصاف کاتقاضا تویہ تھاکہ انسان کواس کی عبادت اورنیکی کے مطابق جزا اورگمراہی ومعاصی کی بقدرسزادی جاتی، یعنی نیک آدمی اتنے ہی سال جنت میں رہتا،جتنے سال اس نے دنیامیں نیکی کے ساتھ گزارے اور گناہ گار اتنے ہی سال جہنم میں جلتاجتنے سال اس نے دنیامیں گناہوں میں گزارے،حالانکہ نیک یا بد انسان کاخلود تووہ آخری نقطہ ہے، جس سے پار کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابدی سعادت و شقاوت انسان کی نیت میں مضمر ہوتی ہے۔جس طرح ابدی ایمان اور استقامت کاعزم ابدی سعادت کاذریعہ ہے، اسی طرح ابدی کفراورانحراف کاعزم ابدی شقاوت کاوسیلہ ہے۔ چونکہ زندگی کے آخری لمحات میں بندگی کے احساس سے سرشار انسان ساری زندگی خواہ وہ ایک ہزارسال ہی کیوں نہ ہو،اسی نہج پرگزارنے کے لیے پُرعزم ہوتاہے، اس لیے اس کے ساتھ اسی عزم اورنیت کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے اوراس کی نیت کو حقیقی عمل کی حیثیت سے قبول کیاجاتاہے،اسی لیے کہاگیاہے:‘‘مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہترہے۔’’{qluetip title=[(1)]}(1) کشف الخفاء، العجلونی،۲؍۱۴۳؛ مجمع الزوائد،الھیثمی، ۱؍۶۱.{/qluetip} دوسری طرف اگرزندگی کے آخری لمحات میں کافرکی نیت یہ ہو کہ وہ ساری زندگی خواہ وہ ایک ہزارسال ہی کیوں نہ ہو، کفروالحاد پرہی گزارے گاتواسے اس کی نیت کے مطابق سزادی جائے گی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بار ے میں اصل اعتبارانسان کی عارضی زندگی کانہیں،بلکہ مستقبل کے بارے میں اس کی نیت کاہے۔اس نیت کی تجلیات اورابدی سعادت پرایمان رکھنے کی بدولت مؤمن ابدی جنت کا اور کافرابدی جہنم کامستحق ٹھہرتاہے۔

جس طرح جانتے بوجھتے شعوری طورپرکفراختیارکرنے والا ملحد سزا پائے گا،اسی طرح کفراورگناہوں کاسبب بننے والے شیطان کو بھی نہ ختم ہونے والی سزاملے گی۔درحقیقت شیطان بھی اپنی تخلیق کے تقاضوں کے مطابق بہت سے فرائض وخدمات سرانجام دیتاہے۔انسان کی بہت سے صلاحیتوں کو جلااورارتقابخشنے،اس کی فطرت میں پوشیدہ خام صلاحیتوں کوپختہ کرکے ظاہر کرنے اورقلب وروح کو ہر وقت مستعد اورچوکنا رکھنے میں شیطان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

شیطان فرداورمعاشرے پرتسلط حاصل کرکے ان کے دلوں میں اپنے زہرآلود بیج بونے اور ان میں گناہ کرنے کی صلاحیت پیداکرنے کی کوشش کرتاہے۔دلوں میں انحراف پیدا کرنے کی ان شیطانی کوششوں کامقابلہ کرنے کے لیے انسان کے روحانی جذبات بیدارہو کر بالکل ایسے ہی چوکنے ہوجاتے ہیں، جیسے جسم کادفاعی نظام جراثیم کے خلاف الرٹ ہوجاتاہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی لطائف اوران کی استعدادمیں نمو و ارتقاہوتاہے،کیونکہ اس دوران انسان اپنے ابدی دشمن کے شرسے بچنے کے لیے بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتاہے اوریہ انسان کی قلبی و روحانی زندگی کے اعتبارسے معمولی سے نقصان کے بدلے بہت بڑا فائدہ ہے۔اس قسم کی معنوی تاثیر انسانی روح میں جذبہ پیدا کر کے اسے بیدار اور چوکنا رہنے پرابھارتی ہے،جس کے نتیجے میں انسان کی بہت سے قیمتی مگرخام صلاحیتوں کو پختگی ملتی ہے اورنفس کے خلاف جہاد کرنے والے بہت سے بہادر اولیائے کرام تیارہوتے ہیں۔

اگرچہ شیطان ان ممتاز ہستیوں کے پیداہونے اوران کے عالی مقامات پرفائز ہونے کاذریعہ بنتاہے،لیکن اس کی وجہ سے وہ کسی ثواب کامستحق نہیں ٹھہرتا،کیونکہ وہ یہ کام خداکی محبت میں فناہستیوں کومزیدبلندیاں عطاکرنے کے لیے نہیں کرتا،بلکہ اس کا مقصد انہیں گناہوں میں مبتلا کرناہوتاہے۔چونکہ اس کی نیت بری ہوتی ہے، اس لیے اس کا عمل بھی براہے، لہٰذا اس کے ساتھ اس کی بری نیت اوربرے اعمال کے مطابق معاملہ کیاجائے گااوراس کے اس عمل کی وجہ سے نیک لوگوں کوجوعالی مقام حاصل ہوئے،اس کا اعتبار نہیں کیاجائے گا۔شیطان کی نیت اور عمل دونوں برے ہیں اوروہ قصداً گناہوں کی دعوت دیتاہے: ﴿قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْنٍo قَالَ فَاہْبِطْ مِنْہَا فَمَا یَکُونُ لَکَ أَن تَتَکَبَّرَ فِیْہَا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِیْنَo قَالَ أَنظِرْنِیْ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَo قَالَ إِنَّکَ مِنَ المُنظَرِیْنَo قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الأعراف: ۱۲۔۱۶) ‘‘اللہ نے فرمایا: ‘‘جب میں نے تجھ کو بھی حکم دیا تھا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا؟’’ اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں۔ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیااور اسے مٹی سے بنایا۔ فرمایا:‘‘تو بہشت سے اتر جا۔ تجھے شایاں نہیں کہ یہاں تکبر کرے پس نکل جا کہ تو ذلیل لوگوں میں سے ہے۔’’اس نے کہا:‘‘مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما، جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔’’ فرمایا:‘‘اچھاتجھ کو مہلت دی جاتی ہے۔’’بولا کہ مجھے تو نے گمراہ کیا ہی ہے میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان کو گمراہ کرنے کے لئے بیٹھوں گا۔’’ یہ پہلی نافرمانی کر کے شیطان نے شعوری طورپرکفراورمعصیت کے راستے کواختیار کیا اور انسانیت کوبہکانے کی شیطانی قسم مسلسل چلنے والے انسانی ڈرامے کی اساس ہے۔

اگرچہ شیطان کے اس عزم وارادے کے ردعمل میں بعض انسانی جذبات بیدارہوتے ہیں اورانسان بعض فضائل اختیارکرتاہے،لیکن اس کی وجہ سے شیطان کوکوئی ثواب نہیں ملتا،لہٰذا یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ مؤمن کے لیے نیت ہی سب کچھ ہے۔وہ انفرادی عمل میں جان پیداکرتی ہے اورانسانی زندگی کوایک کے مقابلے میں ہزارگنا زیادہ پیداوار دینے والے کھیت میں تبدیل کرتی ہے، تاہم جس طرح نیت دنیاکی تھوڑی سے محدود زندگی کوابدی زندگی میں تبدیل کردیتی ہے، اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کی بدبختی اورخسارے کاذریعہ بھی بنتی ہے۔آخرت کامعاملہ اعمال کے مطابق کیاجائے گا، لیکن اعمال کامدارنیت پرہے۔