نوجوانی کی خواہشات کے خطرات سے اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے؟

دور حاضر کے انسانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے ان کی اکثریت اچھے جذبات پر اثر انداز ہونے والے نوجوانی کے جذبات کے دباؤ میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے منشا کے مطابق اسلامی حقائق کو پیش کرنا مشکل ہوگیا ہے،لیکن ایسے حالات میں جدوجہد کرنے کے مثبت پہلو بھی ہیں۔جس قدر مشکلات بڑھتی ہیں اور مصائب پیش آتے ہیں،اسی قدر اجر و ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی سرفروشی کے وقت حالات کی شدت اور سنگینی ہی کی بدولت انہیں سیدالشہداء کا مرتبہ ملا۔انہیں مسلمانوں کی قلت اور کفار کی کثرت کا علم تھا،لیکن اس کے باوجود وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر قوتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد کے لیے نکل پڑے،یہی بات ان کے سیدالشہداء بننے کا ذریعہ بنی۔

جن گناہوں کی وجہ سے آج ہم پریشان ہیں وہ صحابہ کرام کے دور میں بھی موجود تھے۔ عورتیں خانہ کعبہ کے گرد برہنہ ہو کر طواف کرتی تھیں۔شراب نوشی، رشوت ستانی،قماربازی اور سودخوری معاشرے کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے تھی،لیکن صحابہ کرام نے ان تمام فواحش سے پیٹھ پھیر کر اسلام کی طرف رخ پھیرے رکھا۔وہ انسان تھے اور انسانی طبیعت اور جذبات کے مالک تھے،لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی تمام خواہشاتِ نفس کو قربان کیا،جس کے نتیجے میں انہیں عظمت اور بلندی نصیب ہوئی۔انہوں نے تمام فواحش کو چھوڑ کر پاکیزہ زندگی اپنائی اور ہر قسم کے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے نقش پا پر چلتے رہے،جس کے نتیجے میں انہیں بہت سے فضائل حاصل ہوئے اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے ہدایت کے ستارے بننے کے سزاوار ٹھہرے۔

آج بھی بہت سے خطرات درپیش ہیں،اسی لیے ایک دفعہ بیسویں صدی کے مفکر بدیع الزمان سعید نورسی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ مصائب، خطرات اور فتنوں کے دور کے ہیرو ہیں۔اگر رسول اللہ ﷺ اس صدی کی انسانیت کو پکارتے تو یوں فرماتے:‘‘آؤ! آؤ! اے خطرات کے دور کے لوگو!’’ کیونکہ اگر ہم بازار،شاہراہ، معاشرتی اور تجارتی سرگرمیوں، فرد، خاندان، معاشرے، مدرسے اور دیگر تمام محکموں اور اداروں کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کریں تو جو بات ان سب پر سچی آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی حالت ‘‘بہت ناگفتہ بہ’’ ہے۔

آپ کہیں بھی جائیں یا گھومیں پھریں گناہوں کے کچھ نہ کچھ اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔روح کے بار بار پژمردہ ہوئے اور دل میں میلا پن آئے بغیر معاشرتی زندگی کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ممکن نہیں رہا۔آج صحیح مسلمان بن کر رہنا انگاروں پر چلنے سے زیادہ دشوار ہو گیا ہے۔ہم اس قدر ہولناک اور خطرناک دور کی پیداوار ہیں۔ہماری فطرت میں موجود نفسانی خواہشات ہمیں ڈسنے کے لیے بچھو کی طرح موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔یہ خواہشات اور شہوات اس برے ماحول میں جس میں ہم جنم لیتے اور پرورش پاتے ہیں، مسلسل غذا اور تقویت حاصل کرتی رہتی ہیں،لہٰذا اس بات کا ہر وقت امکان رہتا ہے کہ خواہشات کا یہ بچھو کسی بھی وقت ہمیں ڈس کر ہمارے جسموں کو مسموم بنا دے۔

تاہم ہم نفع کی امید پر اس نقصان کو بخوشی قبول کرتے ہیں اور ہمیں حاصل ہونے والا فائدہ ہمارے لیے باعث تسلی ہوتا ہے،کیونکہ مشکلات کے اس دریا کو عبور کرنے پر ہمیں اجر و ثواب بھی اسی قدر زیادہ ملتا ہے۔جب صحابہ کرام ان کڑی شرائط پر پورے اترے تو وہ اعلیٰ درجات کے مستحق ٹھہرے۔ہمیں بھی رحمت خداوندی سے یہی امید ہے کہ وہ دور حاضر کے اہل ایمان کو اس سعادت کو پانے کی توفیق دے گی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے دور میں جبکہ گناہوں کے مواقع بکثرت ملتے ہیں اور معاصی کا ارتکاب آسان ہوگیا ہے،ہم سے بلاقصد گناہوں کا صدور ہو جاتا ہے،لیکن اس کے باوجود ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم رحمت خداوندی کی چوکھٹ کو چھوڑیں اور نہ ہی اپنے پایۂ استقلال کو متزلزل ہونے دیں۔

اپنے جذبات کی ترجمانی کے لیے مجھے اپنی بعض یاداشتیں دہرانے کا موقع دیجئے۔جب میں چھوٹا تھا تو ہمارا ایک کتا تھا جو ہماری بکریوں کی رکھوالی کرتا اور ہمیشہ ہمارے دروازے پر بیٹھا رہتا۔مجھے اس کے اس پر خلوص رویے پر حیرت ہوتی۔میں اس کے ساتھ کھیلتا اور اسے روٹی کھلاتا تھا۔میں اس سے بحث نہیں کروں گا کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کی روشنی میں میرا یہ عمل کس حد تک درست تھا،لیکن میرا مقصد صرف اپنے بعض جذبات کا اظہار کرنا ہے۔بچپن کی یہ یادیں مجھے بکثرت یاد آتی ہیں اور میں اپنے ہاتھ اٹھا کر اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر دعا کرتا ہوں:‘‘اے اللہ! جس طرح اس کتے کے اخلاص کی وجہ سے میں اس کا دوست تھا، اسی طرح آپ بھی اپنے در کے اس قطمیر (49) کو بخش دیجئے،جو آپ کے در کے سوا کسی در پر نہیں گیا... اسے بخش دیجئے اور اس پر رحم فرمائیے۔’’ ہمیں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف ہے، لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے بخشش کی امید بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کی سچی رغبت کو قبول فرماتے ہیں اور اسے رد نہیں فرماتے۔ذیل میں ہم چند قابل توجہ امور کی نشاندہی کرتے ہیں:

اول: ہر اعتبار سے پر خطر اور چکنی سپاٹ زمین پر پوری طرح چوکنا ہو کر چلنا ضروری ہے۔جیسے بارودی سرنگوں سے اٹی زمین یا دشمن کے علاقے سے احتیاط کے ساتھ گزرا جاتا ہے،آج شاہراہوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے بھی ایسی ہی احتیاط برتنی چاہیے۔

دوم: شاہراہ پرنکلنے سے پہلے ہمیں کوئی کتاب پڑھ کر،کوئی اچھا منظر دیکھ کر، کوئی وعظ سن کر یا نفس کا کڑا محاسبہ کر کے اپنے احساسات اور جذبات کی پاکیزگی کا بندوبست کر لینا چاہیے،دوسرے لفظوں میں ہمیں روحانی ماحول اپنائے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں رکھنا چاہیے۔

سوم: اکیلے باہر نہیں نکلنا چاہیے،بلکہ ہمیشہ ایسے دوست کی معیت کا اہتمام کرنا چاہیے،جو نفس کے خلاف ہماری معاونت کرے اور ہماری روح کی تروتازگی کی حفاظت کر کے اسے بیدار رکھے۔

چہارم : ہمیںسفر و حضر میں حتی الامکان روحانی زندگی سے متعلق ایسا مواد اپنے ساتھ رکھنا چاہیے، جو غفلت میں مبتلا ہونے سے ہماری حفاظت کرے۔یہ مواد جہاں گناہوں سے آڑ بنے گا وہیں ہمیشہ مراقبے اور یادِ الٰہی میں مشغول رہنے کا باعث بھی بنے گا۔جس شخص کا دل مراقبے اور یادِ الٰہی کے جذبات سے لبریز ہو وہ بہت کم گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

پنجم : جونہی کسی گناہ کا صدور یا کسی غلطی کا ارتکاب ہو فوراً ندامت اور توبہ کا اظہار کیا جائے،کیونکہ مؤمن کے دل میں سب سے کم گناہ ہونے چاہئیں اور بہت ہی کم وقت کے لئے باقی رہنے چاہئیں۔اس کے دل میں گناہ کے اثرات عارضی ہوتے ہیں اور جلد زائل ہو جاتے ہیں۔وہ تھوڑی دیر کے لیے ہمارے اور سورج کے درمیان حائل ہونے والے بادلوں کی مانند ہوتے ہیں۔جس قدر توبہ میں تاخیر ہوگی اسی قدر روح پر تاریکی چھائے گی،گناہوں کے راستے کھلیں گے اور ان کا ارتکاب آسان ہو جائے گا، لہٰذا گناہ جس نوعیت کا بھی ہو فوراً اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی طرف لپک کر ایسی صورتحال کو پیدا ہونے سے روکنا چاہیے۔

ایک صحابی گھبراہٹ کی کیفیت میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ‘‘یا رسول اللہ! میں تو ہلاک ہو گیا۔میں نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا۔ میرے بارے آپ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ ’’ رسول اللہ ﷺ نے ابھی اسے کوئی جواب نہ دیا تھا کہ آیت مبارکہ﴿وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفاً مِّنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئِاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِیْنَ﴾ (ھود:۱۱۴)‘‘اور دن کے دونوں سروںیعنی صبح اور شام کے اوقات میں اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو۔کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں۔’’نازل ہوئی،گویا اس ٹوٹے ہوئے دل کو دیکھ کر عرشِ الٰہی بھی کانپ اٹھا۔(50)

تہجد کی نماز عالم برزخ میں روشنی کا باعث ہوگی۔وہ گناہوں کو جلد مٹانے کا انتہائی کارگر ذریعہ ہے،کیونکہ نماز تہجد میں انسان بیم و رجا کی قلبی کیفیت کے ساتھ تاریک رات کے خوبصورت ترین لمحات میں دعا کے ذریعے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ایسی دعا کو اللہ تعالیٰ یقیناًشرفِ قبولیت عطا فرماتے ہیں،بشرطیکہ وہ دعااخلاص اور حسن نیت سے کی جائے۔ چونکہ جب ہم نماز میں ہم اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہو کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہیں تو وہ نمازوں کے درمیانی اوقات میں ہم سے سرزد ہونے والے گناہوں اور معاصی کو بخش دیتے ہیں،اس لیے ہمیں نوافل اور تہجد کے ذریعے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ایک طرف ہم اپنے آپ کو گناہوں کے ماحول میں گھرا ہوا پاتے ہیں اور اس صورتحال پر غمزدہ ہوتے ہیں تو دوسری طرف ایسی مثبت باتیں بھی پاتے ہیں،جن سے ان منفی باتوں کے اثرات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ہماری موجودہ صورتحال صحابہ کرام کے حالات سے مشابہت رکھتی ہے اور ہمیں ان کی مشابہت اختیار کرنے کا قوی محرک مہیا کرتی ہے۔یہ درست ہے کہ وہ وحی کے اثرات محسوس کرتے تھے، لیکن اگر ہم زمانے کی حدود سے آزاد ہوجائیں تو ہم محمدی صف میں ان کے پیچھے جگہ پاکر اپنی نجات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہماری امیدوں پر پانی نہ پھیرے۔ (آمین)