جب تمام انبیائے کرام کا تعلق جزیرہ عرب سے تھا تودوسرے علاقوں کے بسنے والے عقیدہ وعمل کے بارے میں کیسے جوابدہ ہو سکتے ہیں؟

اس سوال کے دوحصے ہیں:

اول: انبیائے کرام کاصرف جزیرۃالعرب سے تعلق ہونااور دیگر علاقوں اور براعظموں میں ان کا ظہورنہ ہونا۔

دوم: جن قوموں کی طرف انبیائے کرام کی بعثت نہیں ہوئی، انہیں عذاب دینا قرین انصاف نہ ہونا۔

ہم ان دونوں حصوں پرعلیحدہ علیحدہ گفتگو کریں گے،لیکن اصل بحث کا آغاز کرنے سے پہلے معاشرے میں انبیائے کرام کے مقام ومرتبے پرروشنی ڈالنامناسب معلوم ہوتاہے۔

نبوت بہت بلندمقام ہے۔یہ حق تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کے ساتھ رابطے کاایک ذریعہ اوراِس دنیامیں اِس جہاں سے ماورا رہنے والوں کی زبان و دل ہے۔اس میں عظمت، انتخاب اورپیغام بھیجنے اورمکلف بنانے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔نبی صرف عبقری صلاحیتوں کا ہی مالک نہیں ہوتا،جن کے ذریعے وہ واقعات کی تہہ تک پہنچ جاتاہے، بلکہ ایسی ہستی ہوتی ہے، جس کی تمام صلاحیتیں اورقابلیتیں انتہائی متحرک ،پرنشاط اورفعال ہوتی ہیں اوروہ اس دوران عظمت کے نئے آفاق رقم کرتے ہوئے رحمت خداوندی کی بادِصبا کو قبول کرنے کے لیے ہرلحظہ تیار رہتی ہے۔

نبی کاجسم روح کے تابع اوراس کی عقل دل کے زیر نگیں ہوتی ہے۔ اس کی نگاہیں ہمیشہ اسماء و صفات الٰہیہ کے عالم کی طرف اٹھی رہتی ہیں۔جہاں اس کی نگاہیں پہنچتی ہیں،وہاں اس کے قدم پہنچ جاتے ہیں،دوسرے لفظوں میں وہ ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔نبی کے تمام کے تمام احساسات مکمل طورپربیدار رہتے ہیں۔نبی کے دیکھنے، سننے اورسمجھنے کی صلاحیتیں نہ صرف عام انسانوں سے زیادہ،بلکہ فطرت کی حدودسے متجاوز ہوتی ہیں۔تجزیہ وتحلیل کرنے کی اپنی محدود صلاحیتوں میں رہتے ہوئے ہمارے لیے ان کے ماوراء الفطرت علوم کے آفاق تک پہنچنا، بلکہ ان کے قریب تک رسائی حاصل کرنابھی ممکن نہیں۔

انسانیت انبیائے کرام کی مددسے اشیاء کی حقیقتوں کاانکشاف کرسکتی ہے۔ ان کی ہدایات و تعلیمات کے بغیر اشیاء و واقعات کی حقیقت تک رسائی ممکن ہے اورنہ ہی درست انداز سے فطرت میں دخل اندازی ہوسکتی ہے ۔

ان کی اولین ذمہ داری اورپہلاسبق ہی انسانیت کو خدائی قوانین اور فطرت کے اسرار ورموز کی تعلیم دیناتھی۔یہ سبق ابتدائی انسانوں کے لیے خاص تھا۔ اس کے بعد انبیائے کرام نے اس عظیم خالق کے اسماء وصفات کی وضاحت کی، جس پرساری کائنات اورہستی گواہ ہے، نیز انہوں نے ہرقسم کے ادراک سے ماورا خالق کی معرفت کے لیے درست معیارات بتائے۔ وہ خالق ایساہے، جس کے دست قدرت میں ذرے سے لے کرکہکشاں تک کے سارے جہاں ہیں۔ان پراس کاحکم چلتاہے اوروہ جیسے چاہتاہے تسبیح کے د انوں کی طرح انہیں ایک کیفیت سے دوسری کیفیت اورایک شکل سے دوسرے شکل کی طرف پھیرتاہے۔ اگراس مقدس وبلند ذات کی صفات کے بارے میں انبیائے کرام کی واضح تعلیمات نہ ہوتیں، تواس کے بارے میں کوئی صحیح رائے قائم نہ کی جاسکتی۔

اس سے پتاچلاکہ اشیاء و واقعات کی حقیقت اورتہہ تک پہنچنے اورانسانیت کومکمل ضابطہ حیات فراہم کرنے کے علاوہ انبیائے کرام کی ایک اہم ذمہ داری لامتناہی قدرت کی حامل ذات کے اسماء وصفات کی وضاحت کرنااورحق تعالیٰ کے ساتھ ان اسماء و صفات کے تعلق پرروشنی ڈالنابھی ہے۔

لہٰذا کسی بھی زمان و مکان کے انبیائے کرام کے انوارات کے فیض سے محروم رہنے کا احتمال نہیں ہوسکتا، خصوصاً جبکہ انسانیت ان کی تعلیمات کے بغیرکائنات کے بارے میں واضح اور صاف نظریات قائم کر سکی اورنہ ہی اس کے بارے میں فلسفیانہ شکوک وشبہات اور تضاد بیانیوں سے باہرنکل سکی، لہٰذا عقل،حکمت اور قرآن اس بات پرمتفق ہیں کہ ہر قوم،براعظم اوردورکسی نہ کسی نبی کی تعلیمات وہدایات سے بہرہ مندرہے ہیں۔اس کے برعکس کسی اوراحتمال کی قطعاًگنجائش نہیں۔

جب عام مشاہدہ ہے کہ چھوٹے سے عجائب گھریامعمولی سی نمائش گاہ میں بھی تعارف کرانے والے ماہرین اورراہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے اوران کے بغیر عجائب گھراور نمائش گاہیں اپنی افادیت اور مقصد کھو بیٹھتی ہیں تویہ کیونکر ممکن ہے کہ زائرین اس کائنات کے عظیم الشان محل کو اس کی خصوصیات اورراز و ں سے آگاہ کرنے والے راہنماؤں اورمرشدوں کے بغیردیکھنے کے لیے آئیں۔

کیااس نظام وکائنات کے قادرمطلق خالق،کائنات کو خدائی شاہکار کی بہترین صورتوں کی نمائش گاہ کے طورپرپیش کرنے والے اور اپنے آثار و تخلیقات کے ذریعے دیکھنے والوں کو اپنی ذات کا تعارف کرانے والے خداکے بارے میں یہ خیال کیاجاسکتاہے کہ اس نے ان تمام آثار اور نمائشوں کو پیش کرنے کے بعد شوق واشتیاق سے انہیں دیکھنے کے لئے آنے والوں کو اپنی ذات وصفات سے آشناکرانے کے لیے خصوصی افرادکاانتخاب نہ کیاہوگا۔اگرایساہوتا تو نعوذباللہ اللہ تعالیٰ کے تمام پرحکمت کاموں کا بے مقصد ہونااوراس کے تمام حکیمانہ اقدامات کا قابل اعتراض ہونالازم آتا، حالانکہ کائنات کی ہرچیزیک زبان ہوکراعلان کررہی ہے کہ قادر مطلق کا ہرکام حکمت پر مبنی ہے اوروہ بے مقصدکام کرنے سے پاک ہے۔

مزیدبرآں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ہرامت میں انبیائے کرام کے مبعوث ہونے کی خبر بھی دیتے ہیں۔ارشادخداوندی ہے:﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾(النحل:۳۶)‘‘اور ہم نے ہر امت میں کوئی پیغمبر بھیجاکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں کی پرستش سے اجتناب کرو۔’’لیکن انسانیت نے ان عظیم ہستیوں کے پڑھائے ہوئے سبق کو جلد ہی فراموش کردیا،بلکہ انہی انبیائے کرام کو تقدس و الوہیت کا مقام دے کر صراط مستقیم سے انحراف اختیارکر لیااور دوبارہ بت پرستی میں مبتلا ہوگئی۔یونان کے کوہ اولمپس سے لے کر ہندوستان کے دریائے گنگا تک انسانی ذہن کے تخلیق کردہ سینکڑوں بت ملتے ہیں۔ ان مذاہب کے موجودہ خدو خال اپنی ابتدائی شکل وصورت سے بہت مختلف ہیں، لہٰذا چین کے کنفیوشس اورہندوستان کے برہما و مہاتما بدھ کو ان کے ظہورپذیرہونے کے معروف حالات و اسباب کے تناظرمیں دیکھنا درست معلوم نہیں ہوتا،کیونکہ زمانہ ہرچیز کو بوسیدہ کر دیتا ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی آراء و اقدار تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لہٰذااس کا درست اندازہ لگانابھی ممکن نہیں کہ ان حضرات کی طرف منسوب موقف ان کے ابتدائی اصل موقف سے کس قدر مختلف ہے۔ اگرقرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں ہمیں غیرمبہم انداز میں آگاہ نہ کرتاتوہمارے لیے کنیسہ کی چاردیواری میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مورتیوں کے گرد بت پرستانہ رسوم اداکرنے والے پادریوں کے خیالات و افکار کی روشنی میں آپ علیہ السلام کی شخصیت کی حقیقت سے آگاہی ممکن نہ ہوتی، کیونکہ انسان کو خداکامقام دینا اور خداکو انسان کے مقام تک گرانا، تین کو ایک اورایک کو تین قراردینے کے واضح عقلی تضاد کا شکار ہونا، عقیدے کو مسخ کرنااورعقل و دانش کامذاق اڑانااللہ تعالیٰ کے حق میں سب سے بڑی گستاخی اورتوہین ہے۔

آج اس بات کا مشاہدہ کیاجاسکتاہے کہ مسیحی عبادت خانوں میں تحریف شدہ دینی شعائر شکل وصورت کے لحاظ سے یونانی اوررومی بت پرستی سے زیادہ مختلف نہیں۔اگرقرآنی وضاحتیں اورہدایات نہ ہوتیں توکنیسہ اوراس میں ہونے والی رسوم وعبادات کودیکھ کرحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور‘‘اپالو’’کے درمیان امتیاز کرنامشکل ہوتا۔

لہٰذاجب زمانی لحاظ سے ہم سے قریب ترہونے کے باوجودمسیحیت کی کتاب اورنبی کے بارے میں اس قدرتحریف ہوئی ہے تواس سے بھی پہلے ادوارمیں نہ جانے کتنے مسیح گزرے ہوں گے اورتحریف وتبدیل کانشانہ بنے ہوں گے۔اس سلسلے میں نبی کریمﷺکایہ ارشادبھی بڑی اہمیت کاحامل ہے کہ ہرنبی کے حواری اپنے نبی کی رحلت کے بعد اپنی ذمہ داریاں اداکرتے رہے، لیکن ان کے بعد آنے والوں نے ہرچیزکوبدل ڈالا۔آج باطل دکھائی دینے والے نہ جانے کتنے مذاہب آغاز میں وحی کے چشمہ صافی سے پھوٹے ہوں گے،لیکن اپنے پیروکاروں کی جہالت اور دشمنوں کی ظالمانہ عداوت کے نتیجے میں بالآخر مکمل طورپراوہام وخرافات کامجموعہ بن گئے۔ لہٰذاآج باطل مظاہرکے حامل اکثر مذاہب عام طورپرماضی میں صحیح اورمضبوط بنیادوں پر قائم تھے اوریوں لگتاہے کہ ہردورمیں کسی نہ کسی نبی کی تعلیمات کے اثرات باقی رہے ہوں گے۔

جیسے کسی نبی کی نبوت کاانکارکرناکفرہے، ایسے ہی غیر نبی کو نبی کہنابھی کفرہے۔ بدھ مت کا ہندومت سے ظہورپذیرہونا یا زیادہ محتاط الفاظ میں اس کا اس سے قریب ترہونا بجاطورپر محل نظر ہے، اسی طرح کنفیوش ازم کے بانجھ اورتنگ نظرفلسفے کے پیچھے موجود فکر کی تحقیق کرنابھی ضروری ہے، میری رائے میں‘‘شامانیہ’’{qluetip title=[(1)]}(1) شامانیہ شمالی ایشیا کا قدیم دین ہے۔اس دین کے مطابق ایک غیرمرئی عالم ہے، جسے خداؤں، شیاطین اور اسلاف کی روحوں کاعالم کہاجاتاہے۔اس عالم تک صرف شامان کی رسائی ہوتی ہے۔ شامان ایسے کاہن کوکہتے ہیں جوبیماروں کے علاج، مخفی باتوں سے پردہ اٹھانے اورحالات پرقابوپانے کے لیے جادوسے کام لیتاہے۔(قاموس المورد) {/qluetip} کو بھی بکثرت تاویلات کاشکارہونے کے تناظرمیں دیکھناچاہیے۔

خواہ ان مذاہب کے اصل سرچشمے اور مآخذ صاف ستھرے ہوں یا ان میں کچھ گدلاہٹ آگئی ہو، اتنی بات یقینی ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے مختلف تھے۔وہ یا تو امتدادِ زمان کاشکارہوگئے یانئے نئے اضافوں کے نتیجے میں ان کی ابتدائی حالت میں تبدیلی پیداہو گئی۔

اگربفرض المحال ان مذاہب کے بانیان زندہ ہو کر لوٹ آئیں تو وہ اِنہیں اپنے مذاہب سے بالکل مختلف چیزسمجھیں گے۔دنیاکے بہت سے مذاہب تحریف و تبدیلی کانشانہ بن چکے ہیں،جن میں سے ایک بڑی تعدادکااصل ماخذصحیح تھا۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:﴿وَإِنأُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ ﴾(فاطر:۲۴)‘‘اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔’’یہ حکم عالمی اور عمومی ہے،لیکن ہمیں ساری دنیا میں آنے والے انبیائے کرام جن کی تعداد بعض روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزارہے، کا علم نہیں۔ ہم ان میں سے صرف اٹھائیس انبیائے کرام کو جانتے ہیں اوران کے بھی زمان ومکان کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتے، تاہم ہم دنیامیں مبعوث ہونے والے تمام انبیائے کرام کے بارے میں جاننے کے مکلف نہیں ہیں۔جن انبیائے کرام کاقرآن کریم میں تعارف نہیں کرایاگیاان کے بارے میں مسلمانوں کی عدم واقفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ مِنْہُم مِّن قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْہُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ﴾ (غافر:۷۸) ‘‘اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے تم سے بیان کر دئیے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔’’ لیکن علم تاریخ ،ادیان،فلسفہ اور انتھراپولوجی سے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پرواقع انسانی معاشروں کے عقائد میں بہت سے مشترکہ نقاط کی نشاندہی ہوتی ہے، مثلاًتمام معاشروں میں کثرت سے وحدت کی طرف سفرپایا جاتاہے، غیرمعمولی طورپربڑی مصیبت کے وقت ہرچیزسے رخ موڑکرایک ہی ذات عالیہ سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اوراس کے سامنے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ماورائے طبیعت ہستی سے متعلق طرزعمل اورکردارکے مظاہرمیں مشابہت پائی جاتی ہے، جس سے سرچشمے اور معلم کی وحدت کی طرف اشارہ ملتاہے، یہی وجہ ہے کہ جزائر کناری (Canary Islands) سے لے کرملائیشیا کے اصلی باشندوں اورریڈانڈینز سے لے کرقبائل ‘‘ماوماو’’ تک ایک جیسے دینی شعائر، مذہبی رنگ، انداز اورنغمات ملتے ہیں۔

ڈاکٹرمحمودمصطفی نے دوقدیم وحشی قبائل کے بارے میں جومعلومات فراہم کی ہیں ان سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ڈاکٹرمحمودلکھتے ہیں کہ قبیلہ ماوماو‘‘موجای’’نامی خدا پر ایمان رکھتاہے۔یہ خدا اپنی ذات اور افعال میں یکتا ہے۔ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی پیدا ہوا ہے،کوئی چیزاس سے مشابہت رکھتی ہے اورنہ ہی اس کی ہمسرہے۔ اسے آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اورنہ ہی ذہن اس کا احاطہ کرسکتے ہیں، تاہم اس کے آثارسے اسے پہچاناجاسکتا ہے۔ قبیلہ ‘‘نیام نیام’’سے بھی قبیلہ ‘‘ماوماو’’ جیسی باتیں منقول ہیں۔ وہ ایک ایسے معبود پر ایمان رکھتے ہیں جوہرچیزپرحکومت کرتاہے، جنگل میں موجودہرچیزکواپنی مرضی کے مطابق حرکت دینے اور چلانے پر قدرت رکھتاہے اورشرپسندوں پربجلی کے شعلے پھینکاوہے، دوسرے لفظوں میں وہ ‘‘معبود حقیقی’’ پر ایمان رکھتے ہیں۔

اس سے ظاہرہوتاہے کہ خدا سے متعلق ان لوگوں کاعقیدہ قرآنی عقیدے سے بہت مشابہت رکھتاہے،بلکہ کہاجاسکتاہے کہ قبیلہ ‘‘ماوماو’’ تقریباًسورۃالاخلاص کے مضمون کا اظہار کرتا ہے۔ تمدن سے دور اور معروف انبیائے کرام کے حلقہ اثرسے باہررہنے والی یہ قدیم ترین اقوام ایسے وقت میں کیسے خدا سے متعلق اتنے عمیق اورصحیح عقیدے تک پہنچ گئیں جب وہ زندگی کے سادہ ترین قوانین سے بھی ناآشنا تھیں۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ آیت مبارکہ ﴿وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْنَہُم بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُونَ﴾(یونس:۴۷)‘‘اور ہر امت کی طرف پیغمبر بھیجا گیا پھر جب ان کا پیغمبر آجاتا ہے تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔’’ ایک عالمی اورعمومی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اورکوئی خطۂ ارض اس کی حدودسے خارج نہیں ہے۔

ڈاکٹرمحمودمصطفی کی گفتگوسے ملتی جلتی گفتگو میں نے عراق کے شہرکرکوک میں ریاضیات کے پروفیسرعادل زینل سے سنی۔عادل زینل سے میں۱۹۶۸ء سے واقف ہوں۔وہ کہتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے قیام کے دوران میں امریکا کے اصل باشندوں ریڈانڈینزسے بکثرت ملتااوران کی بہت سی باتوں پر مجھے سخت تعجب ہوتا۔امریکاکے اصل باشندے عقیدہ توحید سے ہم آہنگ مختلف دینی شعائر کی پابندی کرتے تھے۔وہ زمانے سے ماورا ایک ایسے خداپرایمان رکھتے تھے،جو کھاتاہے اورنہ پیتاہے۔وہ بکثرت کہتے کہ کائنات میں جوکچھ بھی ہورہاہے وہ اس خداکی مشیت وارادے سے ہورہاہے۔وہ خداکی بہت سی سلبی اوروجودی صفات{qluetip title=[(2)]}(2) ان سے مراد وجود، قدم، وحدانیت،قیام بذاتہ اورحوادثات سے پاک ہونے کی خدائی صفات مرادہیں، مثلاًصفت وجود عدم کی، صفت وحدانیت تعددکی اورصفت قدم فناکی نفی کرتی ہے۔ {/qluetip} کاتذکرہ کرتے تھے۔ اس قدربلندافکار ان کی سادہ اورغیرمتمدن زندگی سے میل نہیں کھاتے ۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ مشرق ومغرب اوردنیاکے دوردرازعلاقوں میں رائج عقیدے کی توجیہہ صرف ان رسولوں کے ذریعے کرنا ہی ممکن ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے شہروں اور علاقوں کی طرف بھیجاتھا، کیونکہ بڑے بڑے فلسفیوں کے حیطۂ ادراک سے خارج اس قدرمتوازن عقیدہ توحید کوماوماو،نیام نیام اورمایاقبائل ایسے غیرمتمدن لوگوں کے فکر کا نتیجہ قرار دیناممکن نہیں، لہٰذا ثابت ہواکہ جس انتہائی مہربان ذات نے شہدکی مکھیوں اورچوانٹیوں کو سربراہ سے محروم نہیں رکھا اس نے انسانیت کوانبیائے کرام کے بغیرنہیں چھوڑا،بلکہ تمام روئے زمین میں روشنی پھیلانے کے لیے انبیائے کرام کومبعوث فرمایا۔

اب ہم سوال کے دوسرے حصے ‘‘کیاجس شخص نے کسی نبی کونہیں پایا اسے عذاب دیا جائے گا؟’’کی طرف آتے ہیں۔

سوال کے پہلے حصے کے جواب میں ہم نے دیکھاکہ زمین کاکوئی خطہ بھی نبوت کی روشنی سے محروم نہیں رہا۔اگرچہ خشک سالی کے عارضی ادواربھی گزرے ہیں، لیکن جلدہی رحمت خداوندی موسلادھار بارش کی مانند برسنے لگی،اس لیے ہرشخص نے کسی نہ کسی درجے میں اس رحمت کو سنا، دیکھا،چکھا یااس سے سیرہوا، تاہم جن علاقوں میں تحریف کاعمل جلد شروع ہوا ان میں زمانہ فترت {qluetip title=[(3)]}(3) دو نبیوں یا رسولوں کا درمیانی زمانہ۔{/qluetip} کی پہنچتی ﴿وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولاً﴾(الاسراء:۱۵)‘‘اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔’’ اس سے ثابت ہواکہ سب سے پہلے قوموں کو عذاب سے ڈرایا جاتا پھر انہیں احکام کا مکلف بنایاجاتااوراس کے بعد ان کے ساتھ عذاب یا رحمت کامعاملہ کیاجاتاتھا۔

یہ درست ہے کہ اس مسئلے کی تفصیلات میں علمائے اسلام کی آراء مختلف ہیں۔امام ماتریدی اور ان کے پیروکاروں کے نزدیک وجودِ خداوندی سے ناآشنا شخص کاکوئی عذرقابل قبول نہیں، خصوصاًجبکہ کائنات میں موجود ہزاروں دلائل و براہین اس کے وجودپردلالت کرتے ہیں، لیکن اشاعرہ کے نزدیک آیت مبارکہ﴿وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولاً﴾ (الاسراء: ۱۵) ‘‘اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔’’ کامطلب یہ ہے کہ عذاب کا استحقاق صرف تبلیغ کی ادائیگی کی صورت میں ہوتاہے۔بعض حضرات نے ان دونوں آراء میں تطبیق دیتے ہوئے کہاہے کہ جس شخص نے کسی نبی کونہیں پایا،لیکن اس نے کسی بت کی پرستش کی اورنہ ہی اللہ تعالیٰ کے وجودکاانکارکیاوہ نجات پائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ فکری لحاظ سے تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں اورحوادث و واقعات سے نتائج اخذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، لہٰذا پہلے ایسے لوگوں کی راہنمائی کرناضروری ہوتاہے اوراس کے بعدہی فیصلہ کیاجا سکتاہے کہ کون سزا کا مستحق ہے اور کون انعام کا سزاوار ، لیکن اگر کوئی شخص کفرکو پیشہ اور طرزعمل بنالے،اس کے حق میں دلائل دے اورخداکی خلاف اعلانِ جنگ کرے تواسے اپنے کفر و الحادکی سزا مل کررہے گی، خواہ وہ زمین کے کسی بھی کونے میں رہتاہو۔

خلاصہ کلام یہ کہ زمین کاکوئی خطہ یاشہر انبیائے کرام کے وجودسے محروم رہااورنہ ہی زمانہ فترت کبھی بہت طویل ہوا۔ہر دور کا انسان کسی نہ کسی نبی کی چلائی ہوئی بادِنسیم کے معطر جھونکوں سے محظوظ ہوتارہا، تاہم جن علاقوں میں مرور زمانہ سے وہاں کے نبی کا نام تک لوگوں کو بھول گیا اور اس کی تعلیمات کے نشانات مٹ گئے،ایسے دور کو دوسرے نبی کے ظہورپذیرہونے تک زمانہ فترت سے تعبیرکیاجاتاہے اور ایسے دورکا انسان اگرکفر اختیار کر کے شعوری طورپر اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار نہ کرے تو اس کی مغفرت کردی جائے گی۔واللہ اعلم