مسلمان کے ہاں عفو و درگزر کا کیا معیار ہونا چاہیے؟

عفو و درگزر مسلمان کی اہم صفت ہے،جو ہر مسلمان میں پائی جانی چاہیے۔ عفو و درگزر سے دل نرم پڑتے ہیں اور اس کے ذریعے حقائق دلوں تک پہنچائے جاتے ہیں،تاہم یہ صفت خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اس کے بارے میں معقول اور متوازن رویہ اپنانا اور افراط و تفریط کا شکار ہونے سے بچنا چاہیے۔رسول اللہﷺہر خطا سے درگزر فرماتے اور اپنے ساتھ کیے گئے ہر برے سلوک کو معاف فرما دیتے،لیکن اگر کسی معاملے کا تعلق کسی دوسرے شخص کے حق سے ہوتا یا اس کی زد دین کی کسی اساس پر پڑتی تو آپﷺشیر کی طرح غضبناک ہو جاتے اور جب تک حقدار کو اس کا حق نہ دلوا دیتے اوراس بد معاملگی کا سدباب نہ فرما دیتے چین سے نہ بیٹھتے۔

جن صحابہ کرام نے غزوہ احد کے موقع پر آپﷺکے حکم کو کماحقہ نہ سمجھنے کی وجہ سے اپنی جگہیں چھوڑ دی تھیں،جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے لشکر کی پسپائی کا باعث بنے،ان پر آپﷺنے ذرہ بھر ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی ان میں سے کسی سے داروگیر فرمائی۔ایک درشت مزاج بدو نے آپﷺسے سختی سے اپنے حق کا مطالبہ کیا تو اس کے مقابلے میں آپﷺکا طرزعمل یہ تھا کہ آپﷺنے مسکرا کر اپنے صحابہ سے فرمایاکہ اس بدو کو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دو۔آپﷺکی اعلیٰ درجے کی عفو و درگزر کی متعدد مثالوں میں سے یہ صرف دو مثالیں ہیں۔باقی فتح مکہ کے موقع پر آپﷺکی عام معافی کے اعلان کا تو دورِحاضر کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

جن لوگوں نے پیکرعفت وعصمت ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بدنام کرنے کی کوشش کی،ان لوگوں کے پروپیگنڈے سے بعض مسلمان بھی جن میں شاعرِاسلام حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی تھے،متاثر ہو گئے تھے۔بعد میں جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت میں وحی نازل ہو گئی تو آپﷺ نے ان لوگوں پر حدقذف جاری فرمائی۔اس واقعے پر کئی سال گزر گئے، حضرت حسان بوڑھے ہوگئے اور ان کی بینائی جاتی رہی۔مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے پاس حضرت حسان بن ثابت درج ذیل اشعارپڑھ رہے تھے:

حصان رزان ما تزن بریبۃ
وتصبح غرثیٰ من لحوم الغوافل

’’وہ عورتیں پاکدامن اور عقلمند ہیں۔ان پر کسی بات کی تہمت نہیں لگائی جاتی اور وہ بے خبر عورتوں کی غیبت نہیں کرتیں۔‘‘

میں نے حضرت عائشہ سے عرض کی:’’آپ اسے اپنےپاس آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں،جبکہ اس کے بارے میں ارشادِخداوندی ہے: ﴿وَالَّذِیْ تَوَلَّی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (النور:۱۱)‘‘اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہو گا۔’’ اس پر انہوں نے فرمایا: ‘‘یہ رسول اللہﷺ کا دفاع کیا کرتے تھے۔’’{qluetip title=[1]}(1) البخاری، المغازی، تفسیرالقرآن؛ مسلم، فضائل الصحابۃ.{/qluetip}

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسطح کا خیال رکھتے اور اس پر خرچ کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ بھی واقعہ افک میں ملوث لوگوں میں شامل تھا۔جب بہتان باندھنے والوں میں اس کے بھی شامل ہونے کا پتا چلا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ناراض ہو کر آئندہ اس کی معاونت نہ کرنے کی قسم اٹھالی،لیکن اس پر جلد ہی درج ذیل آیت مبارکہ کا نزول ہوا: ﴿وَلَا یَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَۃِأَن یُؤْتُواأُوْلِیْ الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلْیَعْفُواوَلْیَصْفَحُواأَلَاتُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾ (النور: ۲۲) ‘‘اور جو لوگ تم میں صاحب فضل اور صاحب مال ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ اور ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو بخش دے؟اور اللہ تو بخشنے والا ہے مہربان ہے۔’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جونہی یہ آیت مبارکہ سنی فوراً اپنی قسم اور فیصلے سے رجوع کر لیا، قسم کا کفارہ ادا کیا اور مسطح کی معاونت اور اس کے ساتھ احسان کا برتاؤ ایسے کرتے رہے جیسے کوئی ناگوار بات پیش ہی نہ آئی ہو۔ {qluetip title=[2]}(2) البخاری،کتاب الایمان والنذور، الشھادت.{/qluetip}

اہل ایمان کی بعض ایسے گناہوں سے عفو و درگزر کرنے کی مثالیں ملتی ہیں، جن سے بڑھ کر کسی کے حق میں زیادتی کا مرتکب نہیں ہوا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اس آزمائش میں سرخرو ہونے میں کامیاب ہو گئے اور دورِحاضر میں دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے ان اہل ایمان کے طرزعمل میں عبرت کا بہت سامان ہے۔

آج کے داعی حضرات کو چاہیے کہ اعلیٰ اخلاق اور عفو و درگزر کے ذریعے دلوں کو جیت کر انہیں حقائق سے روشناس کرائیں۔سختی،تیزمزاجی اور درشتگی پہلے کبھی مفید ثابت ہوئی ہے اور نہ آج ہو گی، لیکن عفو و درگزر کی گرمی سے برف کے پہاڑ بھی پگھل سکتے ہیں۔کتنے ہی دشمنوں نے نعوذباللہ رسول اللہﷺکو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن رسول اللہﷺکے عفو و کرم کے صدقے نہ صرف ان کی جان بخشی کر دی گئی،بلکہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو کر آپﷺکے مخلص ترین پیروکار اور ساتھی بن گئے۔ کیا رسول اللہﷺکے اخلاق نے ہی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دل کو موم نہ کیا تھا؟کیاآپﷺکے اعلیٰ اخلاق ہی کے نتیجے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا دل اسلام کے نورسے آشنا نہ ہوا تھا؟

درحقیقت اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اشاعت میں سرگرم لوگوں سے ایسے ہی طرزعمل کا مظاہرہ چاہتے ہیں۔اگرچہ اللہ تعالیٰ کو اپنے ازلی علم کی بنیاد پر علم تھا کہ فرعون کبھی بھی راہِ ہدایت پر نہ آئے گا،لیکن اس کے باوجوداللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو اس کے پاس بھیجتے ہوئے انہیں اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرنے کی ہدایت کی: ﴿فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی﴾(طہٰ: ۴۴)‘‘اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔‘‘

ہمارے مخالفین ہمارے ساتھ جس قدر بھی سختی اور تعصب کا برتاؤ کریں، ہمیں ان کے مقابلے میں نرمی اور خودداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔یہی بات اہل ایمان کے شایاں ہے۔قرآنِ کریم ہمیں جس قسم کے اخلاق کی تعلیم دیتاہے ان کا بھی یہی تقاضا ہے: ﴿وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاما﴾(الفرقان: ۷۲)‘‘اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گذرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گذرتے ہیں۔’’انفرادی سطح پر ایک مسلمان کو جو دستورالعمل اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے وہ حسبِ ذیل ہے: ﴿وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْم﴾(التغابن: ۱۴) ‘‘اور اگر معاف کر دو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بھی بخشنے والا ہے مہربان ہے۔‘‘

لہٰذا جو مسلمان اس بات کا امیدوار اور آرزومند ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ رحمت و مغفرت کا برتاؤ فرمائیں اسے چاہیے کہ اِس خلق کو اپنائے اور اسے اپنے اخلاق کا لازمی حصہ بنائے۔جو لوگ اس زندگی میں آئندہ کی زندگی کو پیش نظر رکھتے ہیں،انہیں اللہ تعالیٰ خاص صلاحیت اور دانائی سے سرفراز فرماتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کا مستقل روشن اور تابناک ہوتا ہے۔