کافر اورمنکرِخدا سے گفتگوکاآغازکیسے کرناچاہیے؟

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے کچھ امورکی وضاحت کرنامفیدمعلوم ہوتاہے:

خداکے انکاراورمنکرین کی کئی اقسام ہیں۔مخصوص معتقدات، ایمان کے بارے میں طرزعمل اورایمانی مسائل کے بارے میں ایمان یاکفر کی سطح کے نتیجے میں ایمان یاکفرکے متعدد درجات وجودمیں آتے ہیں۔جس طرح ایمان کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنے والاشخص ان کاانکارکرنے والے سے مختلف ہوتاہے،اسی طرح یہ دونوں شخص ایسے شخص سے مختلف ہیں جو تمام ارکان ایمان کا بالکلیہ انکارکرتاہے اور کسی کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ دوسرے لفظوں میں انکارِ خدا کی انواع کی درج ذیل ترتیب سے درجہ بندی کی جاسکتی ہے:

انکارکی ایک قسم ایمانی تعلیمات سے لاپروائی برتنے کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔ انکار کی یہ قسم کسی فکریامقصد و ارادے پرمبنی نہیں ہوتی، بلکہ اس کاسبب بے توجہی ہے۔عام طور پر اس قسم کا انکارخواہشات کی پیروی کرنے والے ایسے کم عقل لوگوں میں دیکھنے میں آتا ہے، جنہیں منطقی اندازسے سوچنے کی عادت نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کو ایمانی تعلیمات دینا اورسمجھانا نہ صرف مشکل،بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوتاہے۔ان کا طرزعمل بھیڑ چال سے متصف ہوتا ہے۔ وہ اکثریت کے ساتھ چلتے ہیں اورمعاشرتی دباؤکے مطابق طرزعمل اختیار کرتے ہیں۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ایمان کی بنیادی تعلیمات قبول نہیں کرتے۔ان کے انکار کاسبب کچھ بھی ہو انہیں کافرو بے دین ہی سمجھاجائے گا۔معاشرے کے اکثر و بیشتربے دین اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔

تیسری قسم ان لوگوں کی ہے، جو ان باتوں کوقبول نہیں کرتے، جنہیں قبول کرنے کی ایمان دعوت دیتاہے۔ماضی کی بہ نسبت دورِحاضر میں ایسے لوگوں کی تعدادمیں اضافہ ہواہے۔ آخری دوقسم کے ملحدین کومزید دو ذیلی اقسام میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

الف: وہ ملحدین جوہرچیزکاسبب مادے کو قراردیتے ہیں اورکسی بھی مابعدالطبیعات بات پرایمان نہیں رکھتے۔

ب: دوسری قسم کے ملحدین وہ ہیں جو بعض مابعد الطبیعات اور روحانی مظاہر کو تسلیم کرتے ہیں۔

انکارِخداجابراورسرکش انسانوں کی اہم ترین خصوصیت اوردورِحاضرمیں نوجوانوں کو درپیش بحران کا اہم ترین سبب ہے۔انکارِخدا بدامنی، بربادی اورمصائب کا بنیادی سرچشمہ اور سبب ہے،بلکہ یہ کہنابے جا نہ ہوگاکہ انسانیت کے لیے سب سے زیادہ منحوس اور تاریک دور انکارِخدا اورایمان سے دوری کا دور رہاہے۔سب سے پہلے نشاۃ ثانیہ اورانقلابِ فرانس کے راہنماؤں نے انکارِخدا کا علم بلند کیااوراس کی اشاعت کی۔ان کے بعد آنے والوں نے اسے مستقل دین کی حیثیت سے قبول کرلیا،جس کے نتیجے میں اسے فروغ ملا، یہاں تک کہ آج اسے دنیاکے کئی حصوں پرغلبہ حاصل ہے۔{qluetip title=[(1)]}مصنف کااشارہ اشتراکیت کی طرف ہے۔ یہ سوویت یونین اورمشرقی یورپ میں اشتراکیت کی ناکامی سے پہلے کی بات ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}

دورِحاضرمیں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انکارِخدا محض ایک وحشیانہ اورجنونی فلسفہ ہے۔ معاشرتی اوراقتصادی علوم کی بہ نسبت علم نفسیات کو اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، کیونکہ جب ہم ذہنی امراض اور نفسیاتی مریضوں کی مختلف اقسام کا دورِحاضرکے دہریوں سے موازنہ کرتے ہیں توہم یہ تسلیم کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں کہ الحاد ایک نفسیاتی مرض ہے،جس پرعلم نفسیات کو توجہ دینی چاہیے۔

اگرچہ یہ میرا اختصاصی موضوع ہے اورنہ ہی اس کا اوپر ذکرکردہ سوال سے براہ راست تعلق ہے، لیکن چونکہ ہم نے الحاد کی سادہ سی تقسیم کی ہے، اس لیے ہم یہ کہنامناسب سمجھتے ہیں کہ ایمان کی طرح الحادکے بھی مختلف مراتب اور درجات ہوتے ہیں۔منکرِخداکو کہی جانے والی ہر بات میں اس کے مرض کاعلاج اورشفا نہیں ہوتی،بلکہ منکرین خداکی مختلف اقسام میں سے ہرقسم کے ساتھ علیحدہ برتاؤ کیاجانا چاہیے اوراس کے تقاضوں کے مطابق اس کی راہنمائی کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، لہٰذامنکرین خداکے انکارکے اختلاف کے مطابق ان کی اصلاح و ارشاد کے اصول بھی مختلف ہونے چاہئیں۔ اصلاح وارشاد کو بارآوربنانے کے لیے سب سے پہلے تویہ جاننا ضروری ہے کہ منکرخدا کا اوپر ذکر کردہ اقسام میں سے کس قسم سے تعلق ہے۔جب یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا تو اس بات کی بھی کسی حدتک وضاحت ہوجائے گی کہ اس کی اصلاح کے لیے کیا بات کہنی چاہیے۔ ذیل میں اس بارے میں کچھ ضروری ہدایات ذکرکی جاتی ہیں۔

۱۔ مخاطب کے انکارکی نوعیت معلوم کی جائے کہ اس کا انکار کلی نوعیت کاہے یااس کاتعلق صرف بعض ارکانِ ایمان سے ہے، تاکہ ہم صرف انہی نقاط پرتوجہ مرکوز کر کے انہیں زیادہ اہمیت دے سکیں، نیز مخاطب کے انکارکی نوعیت کا جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگرمخاطب لاپروائی یا اندھے تعصب میں مبتلاہے توہم وقت اورمحنت کوفضول ضائع نہ کریں۔

۲۔ مخاطب کے ساتھ اس کے فہم کے مطابق گفتگو کرنے کے لئے اس کے معاشرتی اور علمی مقام کا جاننابھی بہت اہم ہے۔مشاہدہ ہے کہ انسان اپنے سے کم تعلیم یافتہ شخص کی بات پر کان نہیں دھرتا،بلکہ اس پر منفی ردِعمل کااظہارکرتاہے۔خودپسندی اوراناپرستی کے اس دور میں کسی کوقائل کرنایاکوئی بات سمجھانا بہت مشکل ہے۔یہ دشواری اس وقت اوربھی بڑھ جاتی ہے جب مخاطب پڑھالکھاہوا اورکچھ معلومات رکھتاہو۔ایسے لوگوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بات کرنے والے کا علمی معیار ان کے مساوی ہو، ان سے براہ راست گفتگو نہ کی جائے اور ان پریہ ظاہر نہ ہونے دیاجائے کہ وہ اس گفتگوکے مخاطب ہیں۔

مخاطب کے لیے قابل فہم زبان کااستعمال بھی بڑی اہمیت رکھتاہے۔ہمارے فکری بگاڑ اور زبان پرپڑنے والے اس کے اثرات سے ہماری زبان کو اس قدرنقصان پہنچاہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم اپنے وطن میں ایک ہی زبان استعمال کر رہے ہیں۔{qluetip title=[(2)]}جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعدترکی میں ترقی کی علمبردارجماعتوں نے ترکی زبان سے عربی اورفارسی کے الفاظ نکالنے کی وسیع پیمانے پرتحریک چلائی اوران کی جگہ ترکی زبان کے متروک الفاظ ڈال دئیے یاان الفاظ کانئے سرے سے اشتقاق کیا یاان کی جگہ فرانسیسی اور انگریزی زبان کے الفاظ ڈال دیئے اور اس طرح انہوں نے زبان کو فطری طریقے سے ارتقا نہ کرنے دیا۔اس کا نتیجہ دو نسلوں کے درمیان افہام وتفہیم کی دشواری کی صورت میں نکلا۔ باپ کو اپنے بیٹے کی گفتگو سمجھنے میں دشواری پیش آتی، نوجوان ترکی کاکلاسیکل ادب سمجھنے سے قاصرہوگئے اورترکی کے رسم الخط کوعربی رسم الخط سے لاطینی رسم الخط میں تبدیل کرنے اورقدیم ترکی کے بہت سے الفاظ کو ترکی لغت سے نکالنے کے بعد نوجوانوں کے لیے ترکی کا کلاسیکل ادب پڑھناممکن نہ رہا۔ (عربی مترجم){/qluetip}ریڈیواورٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات اس زبان کی وحدت سازی میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں،لیکن مختلف نظریات کی پیروکارمختلف جماعتیں اپنے رسائل ،کتابوں اوراخبارات میں ایک ہی زبان کے مختلف اسالیب اوراندازاستعمال کرتی ہیں،{qluetip title=[(3)]}بائیں بازواورمغرب زدہ لوگوں کے رسائل کتابوں اور اخبارات میں ترکی کے خودساختہ، نئے اور غیرملکی زبانوں کے الفاظ بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔دوسری طرف اسلامی اخبارات اورکتابوں میں عثمانی دورکے الفاظ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔(عربی مترجم){/qluetip}جس کی وجہ سے بیچاری نئی نسل تذبذب کاشکارہے۔

ترکی زبان کی مختلف اصطلاحات اوراسالیب نے نسلوں کے درمیان وسیع خلیج حائل کر دی ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کے مناسبِ حال اسلوب اور زبان سے واقفیت بہت ضروری ہے، بصورتِ دیگر ان کے ساتھ گفتگو بہروں کے ساتھ گفتگوکے مانندہوگی، دوسرے لفظوں میں ایسی اصطلاحات اورالفاظ استعمال کرنے چاہئیں جن سے فکراورمقصداچھی طرح واضح ہوجائے۔

۳۔ ہم جوبات مخاطب کوبتانایاسمجھاناچاہتے ہیں اس کے بارے میں ہمیں گہری واقفیت ہونی چاہیے اورہمارے ذہن میں متوقع سوالات کے تسلی بخش جوابات پہلے سے موجود ہونے چاہئیں، ورنہ چھوٹی سے غلطی یالغزش سے سارامعاملہ تل پٹ ہوجائے گا۔ہماری ناواقفیت اور عدم بصیرت کے ان اعلیٰ حقائق پرمنفی اثرات پڑیں گے، جن کاہم دفاع کرناچاہتے ہیں اور مخاطب کی نظرمیں ان کی قدرومنزلت ختم ہوجائے گی،جس سے منفی تاثرملے گا اورمخاطب دوبارہ ایسی گفتگو میں شرکت سے گریزکرے گا۔

ایسی صورتحال پیداکرنے والے کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو وہ شدیدغلطی کامرتکب ہو رہاہوتاہے۔کتنے ہی نوجوان جاہل مرشدوں کی ناقص معلومات کے نتیجے میں بے دینی کی کھائی میں جاگرتے ہیں۔پرانے دورکی ایک عوامی کہاوت ہے:‘‘الامام الجاہل یذھب بالدین و الطبیب الجاہل یذہب بالروح’’(جاہل امام کی وجہ سے دین کا خاتمہ اورجاہل طبیب کی وجہ سے جان کاخاتمہ ہوتاہے۔)بلکہ جاہل امام کانقصان جاہل طبیب سے کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ جاہل طبیب کانقصان دنیاکی مختصر سی زندگی تک محدودہوتاہے،جبکہ جاہل امام لوگوں کی ابدی زندگی بربادکرتاہے۔

۴۔ مناظرانہ اسلوب اختیارکرنے اورمخاطب کوخاموش کرانے کی کوشش کرنے سے اجتناب کرناضروری ہے۔ایسااسلوب اختیارکرنے سے ایک تومخاطب کے اناپرستی کے جذبات بھڑکتے ہیں دوسرے اس کاکوئی مثبت نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوتا۔دلوں میں نورِایمان کاپیداہونا مرشدکے تعلق مع اللہ پرموقوف ہوتاہے۔ہدایت اللہ تعالیٰ کے چاہنے پر ملتی ہے، لہٰذا رضائے الٰہی کے حصول کی نیت کے بغیر غافل لوگوں کے اسلوب کے مطابق گرماگرم مباحثوں اور مناقشوں سے اگرمخاطب خاموش ہونے پرمجبوربھی ہوجائے تب بھی ان کے کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے، خصوصاًجبکہ ایسے بحث و مباحثے کا وقت پہلے سے طے ہو اور اعصابی تناؤکی کیفیت میں اس کے لیے تیاری کی گئی ہو۔ایسے لوگ مناظر کی بجائے مدمقابل کی حیثیت سے آتے ہیں۔ان کے دل ایک دوسرے کے خلاف غیظ وغضب اور کینے سے بھرے ہوتے ہیں اوروہ اپنے سے پوچھے جانے والے تمام سوالات کے جوابات تلاش کرکے آتے ہیں۔اس کے بعد جوصورت حال پیش آتی ہے وہ سب کومعلوم ہے ... آپ اسے جو بات سمجھانا چاہتے ہیں وہ اسے ردکرنے کے لیے دوستوں سے مراجعت کرتا ہے، کتابیں کھنگالتاہے اورہرممکن حیلہ اختیارکرتاہے، جس کے نتیجے میں وہ انکارخداکے راستے میں ایک قدم اورآگے چلاجاتاہے،گویاایسی صورت میں مطلوبہ نتائج سے بالکل برعکس نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

۵۔ مخاطب سے گفتگو کرتے ہوئے اس کے دل کی تاروں کو چھیڑنا چاہیے۔ ہر جملہ سچائی،محبت اورخلوص سے لبریز ہوناچاہیے اورگفتگو کے دوران مخاطب کی شخصیت اوراس کے افکارپرچوٹ مارنی چاہیے اورنہ ہی درشتگی کااظہارکرناچاہیے،ورنہ ہماری گفتگوکااس پرکوئی اثرنہ ہو گا،بلکہ ممکن ہے کہ وہ ہمارا مخالف بن جائے۔مرشدکوشفیق و مہربان طبیب کا سا طرزعمل اختیار کرنا چاہیے۔اپنے مخاطب کو شفایاب کرنے کی کوشش کرے،اسے توجہ دے،اس کی بات غورسے سنے اور ایک سچے مکالمہ کرنے والے اورحقیقت کے متلاشی انسان کی مانند اس کے دردِ دل کو سمجھنے کی کوشش کرے۔اگرایسے ماحول میں بات کی جائے تووہ آب زم زم کی طرح مخاطب کے دل میں اتر کراسے پاک کردیتی ہے۔اس وقت کہاجاسکتاہے کہ ہمیں اس کے دل تک رسائی حاصل ہوگئی ہے۔ ہمیں مخاطب کے چہرے کے تاثرات پڑھ کران کے مطابق گفتگوکرنی چاہیے اورکسی ایسی بات کو نہیں دہراناچاہیے، جس سے اسے تکلیف پہنچتی ہے۔

یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ جب مخاطب ہم سے جداہونے لگے تواس کے دل پر ہماری گفتگو کی سچائی، ایک ایک عضوسے جھلکتے خلوص، دمکتے چہرے،مسکراہٹ اور محبت بھری نگاہوں کے اچھے اثرات موجود ہونے چاہئیں۔اگروہ ہم سے دوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کرے توہمیں یقین ہوجاناچاہیے کہ ہم اس تک جوبات پہنچاناچاہتے تھے، اس کااکثرحصہ اس تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

۶۔ ہمیں اپنے مخاطب کے غلط افکاراورنادرست تعبیرات پرایسے اندازسے تنقید نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے اس کی عزتِ نفس مجروح ہویادوسروں کے سامنے اس کی بے عزتی ہو۔ اگر ہمارا مقصود اس کے دل میں جگہ بنانااوراس تک اپنی بات پہنچاناہے توہمیں کھلے دل سے اپنی عزتِ نفس کے مجروح ہونے کوقبول کرناہوگا۔ہمیں یہ معلوم ہوناچاہیے کہ ہم مخاطب کے جذبات کو مجروح کرکے اس سے اپنی کوئی بات نہیں منواسکتے،بلکہ ایسارویہ اسے ہم سے مزید دور کرنے کا باعث بنے گا۔

۷۔ بعض اوقات ایسے منکرکاصحیح العقائد اورروشن ضمیراحباب سے تعارف کرانا وعظ و نصیحت سے کہیں زیادہ مؤثر اور بہتر ہوتاہے،لیکن یہ طریقہ ہرمنکرِخداکے لیے مفیدنہیں ہوتا،لہٰذا مرشدکواپنے مخاطب کی نفسیات جان کراس کے مطابق طرز عمل اختیارکرناچاہیے۔

۸۔ لیکن اس کے برعکس ایسے شخص کوغیرسنجیدہ طرزعمل اور نادرست فکرکے حامل افراد سے متعارف ہونے سے بچاناچاہیے، نیز دینداری کے مدعی ،لیکن عبادت کے عشق سے محروم اور فکری پراگندگی میں مبتلا افراد کو بھی ایسے شخص سے دوررکھناچاہیے۔

۹۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے شخص کووقتاًفوقتاًاپنی بات کہنے اوراپنے جذبات کا اظہارکرنے کاموقع دیں،کیونکہ انسان ہونے کے ناطے اس کااحترام کرناضروری ہے۔اگرانسان کے عقیدے کی مضبوطی اورقطعیت کارخ اس کے اپنے دل کی طرف ہوتویہ عقیدے کی پختگی اور فضیلت کاباعث ہوتاہے،لیکن اگراس کارخ باہرکی طرف خصوصاًجاہل شخص کی طرف ہو تویہ نفرت پھیلانے اورافہام وتفہیم کے موقع کوضائع کرنے کاباعث بنتاہے۔

اگرچہ باطل افکارسننے سے دل مجروح اورفکرپراگندہ ہوتاہے، لیکن اپنے مخاطب کادل جیتنے کے لیے اس پرصبرکرتے ہوئے یہ کڑاگھونٹ پیناپڑے گا،بصورت دیگراگرہم نے اسے اپنی بات اورفکرکے اظہارکاموقع نہ دیااورساری نشست میں خودہی گفتگوکرتے رہے توممکن ہے اسے اس میں سے کوئی بات بھی سمجھ میں نہ آئے۔کتنے ہی مرشدحضرات اس سلسلے میں شہرت رکھتے ہیں اور لوگوں میں ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔ایسے مرشدوں کی حالت ایسی ہی ہے،جیسے کوئی پھٹے ہوئے مشکیزے یاچھننی کے ذریعے پانی کومنتقل کرناچاہے۔ایسی صورت میں کوشش بسیار کے باوجود مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے، اس لیے جولوگ دوسروں کی گفتگو سننے کاحوصلہ رکھتے ہیں اورنہ ہی اس کے آداب کاخیال رکھتے ہیں انہیں کامیابی نہیں ہوتی۔

۱۰۔ مرشدکواپنی گفتگوکے دوران اس بات کا اظہارکرناچاہیے کہ وہ جن خیالات کااظہار کر رہاہے وہ صرف اسی کے خیالات نہیں ہیں،بلکہ ماضی وحاضرکے بہت سے بڑے بڑے مفکرین کے بھی یہی خیالات ہیں اورایک چھوٹے سے گروہ کوچھوڑکردورِحاضرکے اکثر مفکرین خداپر ایمان رکھتے ہیں۔مرشدایسے مفکرین کے نام بطورمثال کے ذکرکرے، تاکہ اس کی گفتگوکو صرف اسی کے خیالات کی ترجمانی نہ سمجھا جائے۔

۱۱۔ ہمیں سب سے پہلے شہادتین کی تفہیم وتوضیح کرنی چاہیے اوراگرمحسوس ہو کہ وہ سابقہ معلومات یا اس گفتگوکے نتیجے میں ایمان کی حقیقت سمجھ چکاہے توپھردوسرے موضوعات پرگفتگوکرنی چاہیے،لیکن جب تک اس کے دل میں ایمان کے پختہ ہوجانے کا یقین و اطمینان نہ ہوجائے اس وقت تک ایسے مسائل پرگفتگوکرنے سے اجتناب کرناچاہیے، جن پروہ تنقید کر سکتا ہے۔

حاصل یہ کہ منکرِخداکی نوعیت کاتعین کرنے کے بعد اوپرذکرکردہ طریقے کے مطابق سب سے پہلے اس کے سامنے ایمان کی وضاحت کرنی چاہیے اورجب اس کے دل میں ایمان کے جاگزیں ہوجانے کااطمینان ہوجائے توپھردیگرموضوعات کی طرف آناچاہیے،ورنہ غلط ترتیب سے گفتگوکرناایسے ہی ہوگا، جیسے دعوت میں پہلے میٹھی ڈش پیش کی جائے یاگھوڑے کے سامنے گوشت اورکتے کے سامنے گھاس ڈال دی جائے۔ایسی غلط ترتیب ہمیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگے، اس کاکوئی مثبت نتیجہ برآمدنہیں ہوتا،بلکہ مخاطب پراس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔

ہم اپنا یہ مضمون ان نوجوان اہل علم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جنہوں نے حال ہی میں عقیدے کی متلاشی اورکفروالحادکے طوفان میں مضطرب کھڑی نسل نو کو گمراہی سے بچانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔