دشمنوں کی تخریبی سرگرمیوں کے مضر اثرات سے نسل نو کی حفاظت کیونکر ممکن ہے ؟

حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے لے کر آج تک کفار تخریبی اور اہل ایمان تعمیری کردار ادا کرتے رہے ہیں۔آج بھی یہی صورتحال قائم ہے۔دور حاضر کے عظیم مفکر علامہ نورسی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات کا شدت سے احساس تھا،چنانچہ وہ فرمایا کرتے تھے: ‘‘اگر ان دونوں قوتوں کے درمیان توازن ہوتا اور دونوں کے پاس ایک جیسے وسائل ہوتے تو ہمیں اپنے مخالفین پر فتح حاصل ہوتی۔‘‘

ہمارے دشمن صرف تخریبی کردار ادا کرتے ہیں۔وہ انسان کو خواہشات کے جال میں پھانسنے کے لیے انسانی جذبات اور طبیعت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں،اسے خالص مادی زندگی کا اسیر اور غلام بنانے کے لیے اس کے دل میں خواہشات کی آگ بھڑکاتے ہیں اور عزت و منصب کے سبز باغ دکھا کر انہیں اس کی زندگی کے مقصد کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ معمولی سے ذرائع استعمال کر کے بڑے پیمانے پر تخریبی سرگرمیاں انجام دینے اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اگر ہمارے لیے بھی معاملہ اس قدر آسان ہوتا تو ہم اتنی زیادہ جدوجہد کے بعد بہت کچھ کارنامے سرانجام دے چکے ہوتے،تاہم ہمیں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ہم ایک ایسے عظیم قلعے کی تعمیرنو کر رہے ہیں،جس کے در و دیوار صدیوں سے منہدم ہو چکے ہیں۔

ذرا سوچں ! ترکی اور بعض دیگر ممالک میں توحید کی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا کھلم کھلا انکار کیا جاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔دین کی اہانت کی جاتی ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن روشنی اور حق کا سرچشمہ ہے اور بہت سے غیر مسلموں نے بھی اس کے معجزانہ کتاب ہونے کا اعتراف کیا ہے، اسے طاقِ نسیان میں رکھ دیا گیا ہے۔اور تو اور بعض متدین لوگوں کے ہاں بھی دین اپنی اہمیت اور اولویت کھو چکا ہے،غرض صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ایسے حالات میں جہاں ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں وہیں ان کی اہمیت اور قدر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دشمن صرف ایک پتھر یا اینٹ کو اپنی جگہ سے ہٹاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ساری کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے،لیکن ہمیں نہ صرف ایک ایک اینٹ کر کے عمارت کو تعمیر کرنا ہوتا ہے،بلکہ تعمیر شدہ حصے کی حفاظت بھی کرنی ہوتی ہے،تاہم ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اس کام میں ہمیں عنایتِ الٰہیہ کی حمایت حاصل ہے۔یہ بات لکھتے ہوئےمجھے مشہور صاحب علم پاسکل کا ایک مقولہ یاد آگیا ہے۔

پاسکل صاحبِ وجدان و عشق انسان تھا،لیکن قسمت نے اس کی یاوری نہ کی۔ ایک مسلمان مفکر اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے آخری کشتی میں سوار ہونے کا موقع ضائع کر دیا اور اس میں سوار نہ ہوسکا۔وہ حضرت محمد ﷺ کے ساحل کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا،لیکن اپنے آپ کو اس نور کی آغوش میں نہ دے سکا،تاہم یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ میں یہاں جو بات بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے موضوع سے متعلق اس کا ایک دوسرا واقعہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ‘‘ایک دفعہ میں ایک بگیی میں سوار تھا جسے دو گھوڑے کھینچ رہے تھے۔بگیے دریائے سین کے ساتھ ساتھ جا رہی تھی۔ اچانک گھوڑے میرے قابو سے باہر ہوکر دریا کی طرف بے تحاشا دوڑنے لگے۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی اور صاف نظر آ رہا تھا کہ دریا میں گرنا میرا مقدر بن چکا ہے،لیکن اچانک ایک غیر متوقع صورتحال پیش آئی اوربگیو گھوڑوں سے جدا ہوگئی۔گھوڑے دریا میں جا گرے،لیکن مجھے دو نورانی ہاتھوں نے بچا لیا،جس کے نتیجے میں میں بمع بگیا دریا کے کنارے پر محفوظ رہا۔‘‘

اس واقعے کا ہی اثر تھا کہ پاسکل نے اپنی بقیہ زندگی راہب کی حیثیت سے ایک کنیسہ میں غور و فکر کرتے ہوئے گزاری،حالانکہ اس سے پہلے اس کی ساری زندگی لہو و لعب میں گزری تھی۔پاسکل کے برعکس ہمیں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں سینکڑوں دفعہ ایسے نورانی ہاتھوں اور عنایتِ الٰہیہ کا مشاہدہ ہوا ہے، اسی لیے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں پر اس کے بے انتہا شکرگزار ہیں۔

ایک طرف دشمنانِ اسلام فلموں، ڈراموں، شراب و شباب اور رقص و سرور کی محفلوں کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کو بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ہم ان سے بظاہر مشکل دکھائی دینے والے کاموں کا مطالبہ کرتے ہیں،کیونکہ ہم ان سے کہتے ہیں:‘‘نماز پڑھو، روزے رکھو، خواہشاتِ نفس پر قابو پاؤ اور اپنے لیے نہ جیو، بلکہ قربانی دو اور آئندہ نسلوں کے لیے جیو۔’’ لیکن بظاہر مشکل دکھائی دینے والے مطالبات کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ہمارے پاس آکر اسلام کے اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ کئی سال پہلے ہم نے بتایا تھا کہ سویت یونین اور چین ٹوٹ کرٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔آج یہ ایک عام بات بن چکی ہے۔ماضی میں کہی گئی بہت سی باتیں کماحقہ نہیں سمجھی جا سکیں، لیکن آج وہ حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔آس پاس کے علاقوں میں ہمیں بڑی اہم تبدیلیاں رونما ہوتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ دین کے حق میں انسانیت کے دل ایسے موم ہونے لگے ہیں،جیسے برف سورج کی تمازت سے پگھلنے لگتی ہے۔کفر کے کارندے اعلیٰ مناسب کھو کر نیچے آنے لگے ہیں اور ہماری صفوں میں شامل لوگ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔آئندہ ربع صدی میں بہت سی تبدیلیاں پیش آئیں گی اور عالم اسلام کو اقوام عالم کے درمیان مناسب مقام حاصل ہوگا۔ایک طرف کفر اپنی شان و شوکت اور مواقع کھونے لگا ہے، جبکہ دوسری طرف ہم اپنی صفوں میں نظم و نسق پیدا کرکے پیش قدمی کرنے لگے ہیں۔

ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔باقی نوجوان نسل کی حفاظت اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے یہی امید ہے کہ وہ بڑی محنت اور مصائب و مشکلات جھیلنے کے بعد تیار ہونے والی نوجوان نسل کی حفاظت فرمائیں گے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو درندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت شامل حال نہ ہوتی تو یہ ہمارے بس کی بات نہ تھی۔بلاشبہ یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے شعبوں میں کام کرنے کی توفیق دی،جن سے ہم پہلے ناآشنا تھے،لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے لیے ان شعبوں میں کام کرنا ناگزیر ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ اس کام کی تکمیل تک اپنی عنایت اور مدد کو شامل حال رکھے۔بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔