کیا مسلمانوں میں مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں؟ کیا صحابہ کرام میں بھی اس قسم کے اختلافات پائے جاتے تھے؟مسلمانوں کی وحدت کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟

’’المشرب’’ ‘‘الشرب’’ سے موخوذ عربی لفظ ہے۔عام لوگوں میں متداول معنی کے لحاظ سے یہ ایک ہی حقیقت کے فرعی مسائل کے فہم میں لوگوں کے اختلاف سے عبارت ہے،لہذا ہم اسلام، ایمان اور قرآن کی دعوت دینے والے وسائل اور ذرائع کو اختلافِ مشارب سے تعبیر کر سکتے ہیں،کیونکہ ہدف ایک ہی ہوتا ہے،لیکن اس تک پہنچانے کے راستے مختلف ہوتے ہیں،لہذا مشرق و مغرب میں جو بھی شخص دین اور ایمان کی خدمت میں مصروف ہو،خواہ اس کا مشرب کچھ بھی ہو،دوسرے مسلمانوں پر اس کی اعانت واجب ہے۔مسلمانوں کے مسالک و مشارب میں اختلاف ہو سکتاہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ سب کا مقصد اور منزل ایک ہی ہے۔

مختلف مسالک کے ظہور پذیر ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔ ماحول اور تعلیم و تربیت کے انسان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، نیز اسمائے حسنی کی تجلی کی کیفیت کے اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا،لہذا مختلف مشارب کا ظہور پذیر ہونا بالکل فطری بات ہے۔یہ پہلے بھی ظہور پذیر ہوئے ہیں اور آئندہ بھی وجود میں آتے رہیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشرب ایک تھا اور نہ ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کا مشرب ایک جیسا تھا،بلکہ ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق تھا، حالانکہ وہ سب ایک ہی نبوی مدرسہ کے فضلاء تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اعلیٰ درجے کے منتظم اور حکمران تھے، جبکہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ انفرادیت پسند انسان تھے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس نبوی دور میں دین کی وحدت اور گروہوں کی شیرازہ بندی ہوئی، اس میں بھی ذوق اور مشرب کا اختلاف ختم ہوا اور نہ ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی،بلکہ مختلف مشارب کو متحد کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہے، کیونکہ جن لوگوں کی طبائع میں اختلاف ہو وہ ایک طریقے سے نہیں سوچ سکتے،بلکہ وحدت پیدا کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں بہت سی مشکلات، مصائب اور پیچیدگیاں پیدا ہونے کا قوی امکان ہوتاہے۔مختلف ممالک کے درمیان اتحاد کے علمبردار انسانی فطرت کے اس باریک پہلو کو سمجھ سکے اور نہ ہی انسانی طبیعت کا ادراک کرسکے،بلکہ انہوں نے انسانی صلاحیتوں کو بھی نظر انداز کر دیا۔اگر اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مختلف صلاحیتیں کام شروع کریں اور خدائی حکمتوں کے تقاضوں کے مطابق ظہور پذیر ہوں تو مختلف مسالک و مشارب کا وجود میں آنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ان صلاحیتوں کا فقہ کے میدان میں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی،اوزاعی،ثوری اور زہری فقہ وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہونا امر لابدی تھا،اسی طرح عہدِ نبوی سے لے کر آج تک انسانی قلب،شعور اور و جدان کو مخاطب کر کے دینی اور شرعی خدمات سرانجام دینے اور قلب و روح کی تربیت و تزکیہ کر کے انہیں اعلی مقامات پر پہنچانے کو اپنا مقصدومنزل قرار دینے والے صوفیائے کرام کے سلاسل کا وجود میں آنا بھی ناگزیر تھا۔

سفیان ثوری اور ابراہیم بن ادہم ابتدائی صوفیاء میں سے تھے۔ان کے بعدبایزید بسطامی آئے،پھر جنید بغدادی آئے اور پھر شیخ عبدالقادر جیلانی آئے،جنہوں نے تصوف کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔وہ بہت عظیم ہستی تھے۔ان کے بعد شیخ شاہ نقشبندی آئے۔ان میں سے ہر ایک شخصیت ایک منفرد ذوق اور مشرب کی نمائندہ تھی، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ہی رنگ کی مختلف کرنیں تھیں اور ان سب نے رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی حقیقت کے احیاء کی کوشش کی۔

اگر آپ شیخ محی الدین ابن عربی کے مسلک کا امام احمد سرہندی المعروف امام ربانی کے مسلک سے موازنہ کریں گے تو آپ کو دونوں کے درمیان واضح فرق نظر آئے گا۔ عظیم ولی امام ربانی صحابہ کرام کے مسلک کے نمائندہ اور مشربِ فاروقی کے روحِ رواں سمجھے جاتے ہیں۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ انہوں نے شریعت محمدیہ کے ظاہروباطن،ان کے درمیان موجود وحدت و تناسب اور ‘‘حقیقت احمدیہ’’کو سب سے بہتر انداز میں سمجھا ہے۔چار سو سال بیت جانے کے باوجود ہم آج بھی اپنے دلوں میں ان کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی محسوس کرتے ہیں۔

اس عظیم انسان نے متعدد مقامات پر شیخ محی الدین ابن عربی کی گرفت کی اور فتوحاتِ مکیہ کے مقابلے میں فتوحاتِ مدنیہ پیش کی۔انہوں نے سنت اور صحابہ کرام کے طریقے کو ترجیح دی۔ اہل السنت و الجماعت کا بھی یہی طریقہ ہے،اسی لیے وہ حقیقت احمدیہ کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔درحقیقت اس معاملے کا تعلق بھی ذوق اور مشرب کے ساتھ ہے۔

یہ درست ہے کہ ابن عربی‘‘وحدت الوجود’’ کے قائل تھے،لیکن ان کی مراد‘‘اللہ کے سوا کسی موجودکاکوئی وجود نہیں’’ کی بجائے ‘‘اللہ کے سوا کوئی چیز حقیقی اور قائم بذاتہ نہیں’’ تھی،دوسرے لفظوں میں وہ ایک لطیف پیرائے میں وحدت الشہود کی طرف ہی اشارہ کر رہے تھے۔میں نے ان طویل اور پُرپیچ راستوں پر چلنے کے بعد مختلف ذوقوں اور مشارب کے اتحاد کے ناممکن ہونے کی آپ کے سامنے وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔

میری رائے میں مسالک و مشارب کا اختلاف صبحِ قیامت تک رہے گا اور کوئی بھی اسے ختم نہیں کر سکتا، تاہم مسالک اور طریقِ کار کے اختلاف کے باوجود ہدف اور منزل ایک ہو سکتی ہے،دوسرے لفظوں میں تعبیر کے اختلاف کے باوجود اس میں مضمر حقیقت ایک ہو سکتی ہے۔کسی شاعر نے خوب کہا ہے:

عبارا تناشتی وحسنک واحد

وکل الی ذلک الجمال یشیر

’’ہماری تعبیریں مختلف ہیں،لیکن آپ کا حسن ایک ہی ہے اور ان سب سے اسی حسن کی طرف اشارہ ہے۔‘‘

الفاظ،تعبیریں اور سیاق و سباق مختلف ہے،لیکن ان میں بیان کردہ حسن و جمال ایک ہی ہے۔اگر دلوں میں رضائے الٰہی اور شریعت احمدیہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہو تو اختلافات کے باوجود ہر لمحہ اتفاق اور افہام و تفہیم کا امکان روشن رہتا ہے۔ہمیں ایسے امور پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

یہ اتفاق و اتحاد اور یکجہتی جس طرح جذباتی سطح پر ممکن ہے،اسی طرح فکرودانش کے پلیٹ فارم پر بھی ممکن ہے،جہاں تک جذبات کی سطح کا تعلق ہے تو اس مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات مختلف اسلامی جماعتوں کو اکھٹا کر کے ان میں کسی نہ کسی صورت میں اتحاد قائم کرنا،گو وہ دکھاوے کے لئے ہی ہو،کافی ہوتا ہے، لیکن چونکہ انسان کی حالت ایک جیسی نہیں رہتی،بلکہ وہ فکری اور روحانی لحاظ سے مسلسل ارتقا پذیر رہتا ہے،اس لیے بعض اوقات کچے دھاگے کی مانند کمزور جذباتی وحدت کافی نہیں ہوتی،اس لیے جب بھی ایسے کمزور تعلق کا ناکافی ہونا واضح ہو تو تمام جماعتوں پر ضروری ہو گا کہ وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر فکرودانش کی سطح پر بھی وحدت سازی کی کوشش کریں۔حق کو باطل کے چنگل سے آزاد کرانے، فساق و کفار کی مسلط کردہ ذلت سے چھٹکارہ پانے،امت محمدیہ کو اس کے شایاں مقام تک پہنچانے اور معجزانہ بیان کے حامل قرآن کے حقائق کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے فکرودانش کی سطح پر اتفاق و اتحاد ناگزیر ہے۔

مزید وضاحت کے لیے ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔بیس تیس سال پہلے الحادی اور اشتراکی رجحانات کے ردعمل میں ہمارے ہاں ایک جذباتی اتفاق واتحاد وجود میں آیا۔ایک طرف اللہ،اس کے رسول اور قرآن کریم کے منکرین تھے اور دوسری طرف اشتراکیت کے تمام مخالفین متحدتھے۔یہ اتحاد آزاد ممالک کے اشتراکیت کے خلاف متحد ہونے کے مماثل تھا،چنانچہ اشتراکیت کے مقابلے میں ایمانی اساسات کے لیے جدوجہد کرنے والے مسلمان اور قوم پرستی کے علمبردار متحد ہوگئے۔

اسی طرح سیاسی سطح پر بھی مختلف افکار کے حامل اشتراکیت کے مخالفین اس کے خلاف ایک چھتری تلے جمع ہوگئے۔اس دور میں اشتراکیت کے خلاف متحد لوگوں میں جہاں سبیل الرشاد، بویوک دوغو(1) اور حُرّآدم(2) وغیرہ جیسے اسلامی رسائل پڑھنے والے ہوتے،وہیں ‘‘اورکون’’ اور‘‘ملی یول’’(3) جیسے قوم پرستی کے علمبردار رسائل کو پڑھنے والے بھی ملتے۔ بعض کے دل آلتابی(4) اور سبحان کے پہاڑوں(5) میں اٹکے ہوئے تھے اور بعض کے دل غارِ حراء،غارِ ثور اور مکہ و مدینہ سے وابستہ تھے۔بعض جذبے اور جوش و خروش سے بات کرتے اور بعض عقل و دانش کی زبان میں گفتگو کرتے۔ایسے جذباتی ماحول میں بہت سے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سناگیا کہ کچھ بھی ہوجائے،ہمیں ملحدین و منکرین کے خلاف اپنے اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے۔

تاہم چونکہ اس وقت کا اتفاق صرف جذبات پر قائم تھا،اس لیے ایک وقت آیا جب اخوت کا یہ مفہوم ناکافی ثابت ہونے لگا،تب مسلمان فکری اور جذباتی سطح پر آگے بڑھے اور غوروفکر اور بحث و تحقیق کے ذریعے اکثر غیراسلامی افکار سے آگاہ ہو گئے،جس کے نتیجے میں مشترکہ سوچ،عمل اور دفاع نے انہیں متحد کر دیا اور وہ کافی عرصہ تک ایک ہی پرچم تلے جمع رہے۔

جس طرح اللہ اور اس کے رسول کے منکرین اور ملحدین ایک چھتری تلے جمع ہو گئے تھے،اسی طرح یہ مسلمان بھی اپنے حلیفوں کے ساتھ جذباتی سطح پر ایک پرچم تلے جمع ہو گئے تھے،جس کے نتیجے میں انہیں سیاہ و سفید اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنے اور دیکھنے سمجھنے کا کافی موقع ملا۔ان کے دل و دماغ پر مدینہ منورہ اور رسول اللہﷺکے لائے ہوئے حقائق کے خیالات چھائے ہوئے تھے،لیکن دوسرے لوگوں کے خیالات و افکار بالکل مختلف تھے،جس کے نتیجے میں اس اتحاد کے حصے بخرے ہونے لگے،کیونکہ احساسات اور جذبات کا اختلاف کھل کر سامنے آچکا تھا۔

اس کے بعد سے یہ بات سامنے آئی کہ اتحاد کے لیے صرف جذباتی تعلقات کافی نہیں،لہذا ہر فریق نے نئی حکمت عملی اپنائی اور ان کے راستے جدا ہو گئے۔اتحادواتفاق کو فکرودانش کی بنیادوں کی ضرورت تھی۔ہمیں ترکی اور دیگر اسلامی ممالک میں ایک نئی اسلامی بیداری نظر آرہی ہے۔ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستقبل کے لیے جس قدر تیاری کر سکتا ہے کرے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ متعینہ بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت کو بھی پیش نظر رکھے۔

سب سے پہلے ضروری ہے کہ کوئی بھی دوسروں کو اپنے مشرب و مسلک میں داخل کرنے اور انہیں اپنے فکر کے مطابق سوچنے پر مجبور کرنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ راہِ حق میں پیش کی جانے والی ہر خدمت قابل تحسین ہے۔جس طرح مختلف پیشوں اور فنون سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کی مہارتوں سے استفادہ اور ایک دوسرے کی کاوشوں کے ثمرات کا باہمی تبادلہ کر کے مشترکہ ہدف کے حصول کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں،اسی طرح مختلف مسالک و مشارب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی اجتماعی سوچ اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے مخصوص طریقِ کار اختیار کرنے پر اصرار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، لہذا جو شخص بھی اس سلسلے میں خدمات سر انجام دیتا ہے وہ لائق تعریف ہے اور ہر اس شخص کا ساتھ دینا چاہیے،جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے،اس کی راہ میں سعی و کاوش کرنے اور رسول اللہﷺکی تعظیم بجا لانے والے ہر شخص کو اپنا بھائی سمجھتاہے۔

اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے تر نوالہ بننے اور الحاد کی کھائی میں گرنے سے بچنے کے لیے ہمیں متحد ہوناہوگا،گو یہ اتحاد صرف ظاہری ہی کیوں نہ ہو۔ انگریزوں نے اپنے مستقبل کو بچانے کے لیے ‘‘اینگلو سیکسن اور گول (Goul)‘‘ میں اتحاد قائم کیا، اگرچہ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتی ہیں،لیکن آج تک ان کا کوئی باہمی اختلاف دنیا کے سامنے نہیں آیا،کیونکہ انہوں نے مل بیٹھ کر گفت و شنید کے ذریعے اپنے اتفاقی اور اختلافی نقاط کا تعین کیا اور انگلینڈ کے مستقبل کی خاطر ان میں سے ہر ایک نے اپنے بعض مفادات کی قربانی دی۔

اس وقت دعوتی نقطۂ نظر سے ہمارے پیش نظر صرف یہ بات ہے کہ مسلک و مشرب کے اختلاف کے باوجود ہم سب ایک رب پر ایمان رکھتے ہیں۔ہمارا رسول، ہماری کتاب، ہمارا قبلہ اور ہمارا راستہ ایک ہے، لہذا ہم محض جذباتی بنیادوں کی بجائے ان درست اور دانش مندانہ بنیادوں پر اپنی وحدت کو استوار کر سکتے ہیں۔یہ مضبوط اور مشترکہ بنیادیں ہماری وحدت کی ضامن و متقاضی ہیں اور اس سے متصادم کوئی بھی خیال نفسِ امارہ کا وسوسہ ہے۔

ہم نے ایک نفیس خزینے کو ایک مخصوص مقام تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔اگر ہم نے ایک دوسرے سے الجھنا ہی ہے تو ہمیں یہ ناپسندیدہ کام اس خزینے اور امانت کو ان کے حقداروں تک پہنچانے کے بعد ہی کرنا چاہیے۔ہمیں سب سے پہلے اس محترم امت کے حاضرومستقبل کی فکر کرنی چاہیے اور ملحد و فاسق لوگوں کو اسے لوٹنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے۔

اس سلسلے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی دوسروں کو اپنا طریقِ کار اپنانے پر مجبور نہ کرے،بلکہ ہم ہر کسی کو اس کے پسندیدہ اور اس کی نظر میں زیادہ مناسب طریقِ کار کو اپنانے دیں،کیونکہ عام طور پر لوگوں کے لیے اپنے افکار میں تبدیلی لانا مشکل ہوتا ہے،بلکہ بسا اوقات تو ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔طاقت کااستعمال درست نہیں،بلکہ یہ مشکلات اور نہ ختم ہونے والے اختلافات کے پیدا ہونے کا باعث بنتاہے۔قرآنِ کریم نے ہمیں رواداری،نرمی اور اچھے انداز سے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔جو لوگ حکمت اور موعظہ حسنہ کا طریقِ کار اختیار کرتے ہیں،وہ مستقبل میں پیش آنے والے بڑے بڑے مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ چونکہ مختلف مسالک و مشارب متحد نہیں ہو سکتے،اس لیے ایمانی اور قرآنی خدمات پیش کرنے والا درحقیقت جلیل القدر خدمات سرانجام دیتا ہے،مثلا بہت سے اچھے ادیب ہماری معاشرتی زندگی کے مسائل پر بڑی گہری نظر رکھتے اور ان کے حل پیش کرتے ہیں۔مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے، لہذا ہمیں انہیں معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل پیش کرنے دینے چاہئیں اور خود بھی ہم سے جوبن سکے کرنا چاہیے۔جس طرح عباسی دورمیں توفیق و تطبیق کی مہم چلی تھی،اسی طرح کی تحریک اس دور میں بھی چلانے کی ضرورت ہے،تاہم نئے حل پیش کرنے اور کسی چیز کو لینے یا چھوڑنے کے سلسلے میں اہل السنت و الجماعت کے معیاروں کو پیش نظر رکھ کر ایک نئے دور کا آغاز کرنے یا کم از کم اس تک پہنچنے کے لیے بنیادیں رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

فرض کریں ایک گروہ ایسا ہے،جس پر اہل السنت و الجماعت کے نقطہ نظر سے تنفید کی جاسکتی ہے،لیکن کسی خاص پہلو سے اس سے استفادہ بھی ممکن ہے تو اس سے استفادہ کرنا چاہیے،بلکہ اپنی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے اور اہل مغرب کی اسلام دشمنی سے چوکنا رہتے ہوئے ان کے مثبت پہلوؤں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔درحقیقت ہر باطل مذہب میں کچھ نہ کچھ حق موجود ہوتا ہے اور اسی پر اس کے وجود کا مدار ہوتا ہے، لہذا حق کے اس حصے سے نہ صرف استفادہ کرنا ممکن ہے،بلکہ ضروری ہے۔

میں اس کی وضاحت ایک مثال سے کرنا چاہوں گا۔معتزلہ اور جبریہ اہل السنت والجماعت سے خارج دو متعارض مکاتب فکر ہیں۔ معتزلہ کی رائے کے مطابق بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔جبریہ کی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق ہیں اور انسان کی حیثیت صرف ایک مشین کی سی ہے۔انسانی ارادے اور اللہ تعالیٰ کے خلقِ افعال کے بارے میں دونوں مکاتب فکر کا نقطہ نظر بالکل متضادہے۔معتزلہ کے نزدیک انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے۔اللہ تعالیٰ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔دورِ حاضر کے عقلی فلسفے (Rationalism)کے علمبردار بھی اسی انداز سے سوچتے ہیں۔جبریہ کا نقطہ نظر اس سے باکل مختلف ہے۔ان کے نزدیک انسان کو کسی قسم کی آزادی،ارادہ اور اختیار حاصل نہیں،بلکہ اس کی حالت ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے اس شخص کی مانندہے،جس کے بارے میں شاعرنے کہا ہے:

ألقاہ فی الیمّ مکتوفاً وقال لہ:

ایّاک ایّاک أن تبتلّ بالماء

’’اس نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے دریا میں ڈال دیا اور کہا: خبردار! پانی سے گیلے نہ ہونا۔‘‘

اہل السنت و الجماعت نے ان دونوں مکاتب فکر میں جزوی طور پر پائے جانے والے حق کے عناصر کو لے کر ان کے امتزاج سے ایک نئی چیز وجود میں لائی اور معتزلہ سے کہا:’’انسان ارادے کا مالک ہے،کیونکہ یہ بات قرآنِ کریم کی متعدد آیات سے ثابت ہے۔انسان اپنے ارادے سے نیک اعمال سرانجام دیتا ہے،جس کے نتیجے میں جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ارشاد خداوندی ہے:﴿ وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی﴾ (النجم:۳۹) ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے، جس کے لئے وہ محنت کرتا ہے۔‘‘لیکن یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مشیت خداوندی کو اس معاملے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ارشاد خداوندی ہے: ﴿وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ﴾(التکویر:۲۹) ’’اور تم لوگ کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے۔‘‘ نیز انسانی ارادے کا دائرہ بعض اوقات اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوتاہے،لیکن ایک شرط کی حیثیت سے ارادہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اور اسی کی بنیاد پر گناہ و ثواب اور سزا و مکافات کا فیصلہ ہوتا ہے۔

حاصل یہ کہ اشتراکی اور سرمایہ دارنہ نظام میں سے ہر ایک میں تھوڑا بہت حق موجود ہے۔اشتراکیت اسی تھوڑے سے حق سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھاتی ہے۔وہ عوامی ملکیت اور فقراء کے حقوق کی حفاظت کے دعوے سے غلط فائدہ اٹھا کر منافقت کا ثبوت دیتی ہے۔دوسری طرف اسلام کے تمام ادارے اور اصول و مباوی حق اور انصاف کے آئینہ دار ہیں۔اسلام اتفاق و اتحاد کے ضامن اصولوں کے مجموعے سے عبارت ہے۔

جب ہم مسالک کی بات کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہر مسلک میں حق کا کوئی نہ کوئی پہلو پایا جاتا ہے۔یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ذوق اور مشرب کے لوگ پیدا فرمائے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ انسانی فطرت کو تبدیل کرنے اور مختلف ندیوں کے پانی کو ایک ہی ندی میں جمع کرنے کی کوشش غلطی اور خام خیالی ہے۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے قرآن و ایمان کے انوارات کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی توانائیوں کو دوسروں کے ساتھ جھگڑنے میں خرچ نہیں کرنا چاہیے۔اگر ہم کسی سے اتفاق نہ کرسکیں تو کم از کم ہمیں اختلاف کی آگ بھڑکانے سے تو گریز کرنا چاہیے۔ہمیں نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ جھگڑنے،ان پر تنقید کرنے اور ان کی عیب جوئی سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے،بلکہ ہمیں ہر اچھا کام کرنے والے کی تحسین کرنے اور ہر کلمہ گو سے تعاون کرنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔اگر ہم یہ اقدامات اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم اذنِ خداوندی سے مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور تعاونِ باہمی کی فضا قائم کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔


(1) یعنی ‘‘ عظیم مشرق’’ جسے ترکی کے مرحوم شاعر،ادیب اور مفکر نجیب فاضل شائع کرتے تھے۔اس رسالے نے ترکی کی فکری زندگی کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیاہے۔

(2) یعنی ‘‘مردِحر’’ (عربی مترجم)۔

(3) یعنی ‘‘قومی یا ملی راستہ’’ (عربی مترجم)۔

(4) آلتابی: یہ وہ نسل ہے،جس سے ترکوں کا تعلق ہے۔یہ لفظ قوم پرست ترکوں کی طرف مشیر ہے۔ (عربی مترجم)

(5) جبال سبحان: یہ بھی ترک قوم پرستی کا شعارہے،کیونکہ یہ موجودہ ترکوں کے اسلاف کا مسکن رہا ہے۔ (عربی مترجم)