کیا شفاعت برحق ہے؟کون شفاعت کر سکتا ہے اور کس حد تک؟

یقیناًشفاعت برحق ہے اور اس کے برحق ہونے پر بہت سی آیات مبارکہ اور احادیث نبویہ شاہد ہیں،لیکن ہم ان آیات اور احادیث کو بعد میں ذکر کریں گے، پہلے ہم سوال کی دوسری شق پر گفتگو کریں گے،جس میں پوچھا گیا ہے کہ شفاعت کون اور کس حد تک کر سکتا ہے،کیونکہ اس دوسری شق کے جواب کے ضمن میں پہلی شق کا جواب خودبخود آ جائے گا۔

انبیاء،اولیاء اور شہداء اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ مقام و مرتبے کے مطابق شفاعت کر سکتے ہیں اور وہ شفاعت کریں گے،لیکن شفاعت کا کامل ترین درجہ عظیم فراست کے مالک ہمارے رسول حضرت محمدﷺ کو حاصل ہو گا۔ہر نبی کو ایک مستجاب دعا اور شفاعت دی گئی تھی،جسے اس نے دنیا میں ہی استعمال کر لیا،لیکن رسول اللہﷺنے اسے آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا،لہٰذا آپﷺآخرت میں ‘‘شفاعت عظمیٰ’’ کے مالک ہوں گے۔آپﷺکی امت کے ‘‘حمادین’’ ‘‘لواء الحمد’’ کے نیچے جمع ہوں گے تاکہ ’’صاحب مقام محمود‘‘ وہ شفاعت کریں،جس میں سے امت محمدیہ کے ہر ہر فرد کو اس کے استحقاق کے مطابق حصہ ملے گا۔

دنیا فانی ہے،اس نے ہمیشہ نہیں رہنا اور اس میں پیش آنے والی مشکلات اور مصائب کسی نہ کسی طرح گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتے ہیں،لیکن انسانیت پر ایک ایسا خوفناک اور برا دن بھی آنے والا ہے،جس دن نجات کے لیے کوئی عمل کرنے کی فرصت نہ ہو گی۔اس دن کو آخرت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اس دن شفاعت عظمیٰ کا حق رکھنے والے رسولِ خدا ﷺساری انسانیت کی شفاعت کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے،تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شفاعت کی بھی کچھ حدود ہیں اور یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کے اذن و اجازت سے ہی ہو گی:﴿مَن ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ ﴾(البقرۃ: ۲۵۵)’’کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے کسی کی سفارش کر سکے؟‘‘

یہ بالکل فطری بات ہے،کیونکہ شفاعت کنندگان بسااوقات جذبات سے مغلوب ہو کر حد سے تجاوز کرنے لگتے ہیں اور رحمت خداوندی سے زیادہ رحمت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ایسا طرز عمل اللہ تعالیٰ کے شایاں ادب کے مناسب نہیں،اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے ایک معیار اور میزان مقرر فرمایا ہے،جس کے ذریعے واضح ہو جاتا ہے کہ کون کس کے لیے اور کس حد تک شفاعت کر سکتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر تمام افعال و اقدامات میں عدل اور توازن پایا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس شفاعت کا حق دیں گے اس میں عدل اور توازن پایا جائے گا۔اگر اس قسم کی حدود مقرر نہ کی جاتیں تو بعض لوگ شفاعت کے حق کو بے اعتدالی سے استعمال کرتے۔اگر شفاعت کے حق کی حدود نہ ہوتیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ بعض لوگ انسانوں کو جہنم میں جلتا ہوا دیکھ کر رحمت و شفقت کے جذبات سے اس قدر مغلوب ہو جاتے کہ وہ تمام کافروں،منافقوں اور مجرموں کو جنت میں داخل کرنے کا مطالبہ کرتے،لیکن ایسا مطالبہ اربوں اہل ایمان کے حقوق پر ڈاکہ سمجھاجاتا۔

اگر شفاعت کے معاملے کو لوگوں کے جذبات پر چھوڑ دیا جاتا تو اس سے کافروں، گنہگاروں اور گمراہوں کے استفادہ کرنے کا احتمال بھی ہوتا،جس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ کفار جو اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے ہر نظام،حکم اور جمال کا انکار کرنے، ان کی اہانت کرنے اور انہیں جھٹلانے جیسے گناہوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں وہ بھی رحمت کے زیرسایہ آجاتے۔کافر اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے کہ جسے چھپانے کے لیے کائنات کی وسعت بھی تنگدامنی کی شکایت کرنے لگتی ہے،لہٰذا ایسی روسیاہ اور تاریک روحوں والے لوگوں پر رحم کھانا خود رحم کی تذلیل ہے۔

رسول اللہﷺنے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے ذخیرہ قرار دے کر اپنے ہر عمل کی طرح یہاں بھی اعتدال کا راستہ اختیار فرمایا ہے۔اس حدیث میں ساری امت کے لیے تسلی کا سامان ہے اور وہ آپﷺ کی شفاعت کی امیدوار ہے۔ایک دن اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے حلاج پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ اپنی حد سے تجاوز کرکے ایسی بات کہہ گیا جس کا حاصل یہ ہے کہ اے سلطان الانبیاء!آپ نے یہ حدود کیوں مقرر کیں؟ آپ نے ساری انسانیت کے لیے شفاعت کیوں نہ مانگی؟ اگر آپ اپنے پروردگار سے اس کی درخواست کرتے تو وہ آپ کی درخواست کو قبول کرتا۔

اگر وہ اس وقت ہوش و حواس میں ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ رسول اللہﷺ نے یہ بات اپنے پاس سے نہیں فرمائی تھی:﴿وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی﴾(النجم:۳) ‘‘اور نہ یہ خواہش نفس سے کچھ بولتے ہیں۔’’ممکن ہے کہ جیسا کہ حلاج کا کہنا ہے اگر رسول اللہ ﷺاللہ تعالیٰ سے سارے انسانوں کے لیے شفاعت کی درخواست کرتے تو وہ آپ ﷺکی درخواست کو قبول فرما لیتے،لیکن رسول اللہﷺاپنے پروردگار کا انتہائی پاس و ادب کرتے،وہی بات کرتے جو ان کا پروردگار فرماتا اور اپنی صلاحیتوں کی حدود سے کبھی بھی تجاوز نہ فرماتے۔آپﷺکے پروردگار کی طرف سے شفاعت کے لیے وضع کردہ ایک معیار یہ بھی ہے کہ وہ شخص شفاعت کا مستحق بھی ہو۔اسی حقیقت کی طرف درج ذیل آیت مبارکہ بھی مشیر ہے: ﴿فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ﴾ (المدثر: ۴۸)‘‘تو سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔’’ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شفاعت کا اختیار غیرمحدود ہے اور نہ ہی ہر کسی کے لیے ہے،نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر شفاعت کو قبول کیا جائے۔بنیادی حیثیت ہر چیز میں جاری و ساری مشیت الہٰیہ کی ہے۔کافر شروع سے ہی شفاعت کے دائرے سے خارج ہے،لہٰذا کوئی بھی اس کے حق میں شفاعت نہیں کر سکتا اور اگر بالفرض کوئی کرے گا تو اس کی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک دعا کی تعلیم دیتے ہیں،جس میں اشارتاً بلندحوصلگی کی اہمیت اور ضرورت بھی اجاگر ہوتی ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً﴾ (الفرقان: ۷۴)‘‘اور وہ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔’’ یعنی‘‘اے پروردگار! ہمیں ایسی بیویاں اور نیک اولاد عطا فرما جن کی وجہ سے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔ہمیں ایسے پشت پناہ رفقائے حیات نصیب فرما جو ہمیں آپ کی طرف چلنے کی رغبت دلائیں،ہماری اولاد ہماری وفات کے بعد اپنے نیک اعمال اور دعاؤں کے ذریعے ہم پر آپ کی رحمت کے نزول کا ذریعہ بنیں اور اے پروردگار! ہمیں نہ صرف متقین بلکہ امام المتقین کے مرتبے تک پہنچائیے۔‘‘

اس طرح کی سوچ بلندحوصلگی کی آئینہ دارہے اور اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی درخواست کا انداز ہے۔اگر اللہ تعالیٰ اس شفاعت کا حق نہ دینا چاہتے تو ہمیں اس کے مانگنے کا طریقہ بھی نہ سکھاتے،لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ ہم اس سے کیسے مانگیں اور سوال کریں تو یقیناًہم جو چیز ان سے مانگیں گے وہ ہمیں وہ چیز عطا بھی کریں گے۔ہمیں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے اسی کی امید اور توقع ہے۔ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔جنت کے ایک گوشے کی درخواست پر اکتفا کر لینا کم ہمتی کی دلیل ہے۔جب اللہ تعالیٰ ہم سے بلندحوصلگی کے خواہاں ہیں تو ہمیں بھی ان سے متقین کی پیشوائی اور شفاعت کے حق کی درخواست کرنی چاہیے۔

ایک حدیث مبارک میں رسول اللہﷺ آخرت کے ایک منظر کی تصویری کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘حضرت نوح علیہ السلام کو بلا کر ان سے پوچھا جائے گا: کیا آپ نے پیغام رسالت پہنچایا تھا؟’’ وہ کہیں گے: ‘‘جی ہاں’’پھر ان کی قوم کو بلا کر ان سے پوچھا جائے گا:‘‘کیا انہوں نے تمہیں پیغام رسالت پہنچایا ہے؟’’ وہ کہیں گے: ‘‘ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آیا اور نہ ہی کوئی اور شخص آیا۔’’پھر حضرت نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ آپ کے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے: ’’محمدﷺاور ان کی امت۔’’چنانچہ تمہیں لایا جائے گا اور تم ان کے پیغام رسالت پہنچانے کی گواہی دو گے۔ارشادِباری تعالیٰ: ﴿وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیْداً﴾(البقرۃ: ۱۴۳)‘‘اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر آخرالزماں ﷺ تم پر گواہ بنیں۔’’ کا یہی مطلب ہے۔{qluetip title=[1]}(1) الترمذی، تفسیرالقرآن.{/qluetip}

شفاعت برحق اور حقیقت ہے اور تمام عظیم ہستیاں اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدود میں رہتے ہوئے شفاعت کریں گی۔اگر ہم گواہی کو بھی ایک طرح کی شفاعت تصور کریں تو ساری امت محمدیہ بھی شفاعت کرنے والی سمجھی جا سکتی ہے۔جو لوگ شفاعت کا انکار کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت دونوں میں فائدے سے محروم رہیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ان کے علم،فہم اور توقع کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔