ہم اللہ تعالیٰ کے سپاہی کیسے بن سکتے ہیں؟کیا آپ سپاہ گری کے تناظر میں اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

سپاہ گری مؤمن کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ہم اللہ کے سپاہی ہیں۔ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری یہ خدمت قبول فرمائیں گے۔اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی سپاہی بن جائیں تو یہ ہمارے لیے بڑی سعادت کی بات ہو گی۔ہم اپنی جبین اس کی چوکھٹ پر رکھ کر ہمیشہ انتظار کرتے رہیں گے۔ہم اپنی غمزدہ مگر پرامید نگاہیں جھکائے اس کے دروازے کو مسلسل کھٹکھٹاتے رہیں گے اور جواب کے منتظر رہیں گے،لیکن اگر ادھر سے کوئی جواب نہ آیا تو ہم ’’یاصبور‘‘کا ورد کرتے ہوئے بغیر کسی اکتاہٹ کے انتظار کرتے رہیں گے اور اگر اس انتظار کے دوران دروازہ تھوڑا سا کھلتا ہوا محسوس ہوا اور پھر بند ہو گیا تو ہم سمجھیں گے کہ اپنی اہلیت ثابت نہ کر سکنے کی وجہ سے ہماری دعا کو ابھی تک شرف قبولیت حاصل نہ ہو سکا اور یہ کہہ کر اخلاص کے جذبے سے سرشار ہو کر تکلیف دہ انتظار جاری رکھیں گے اور یوں سمجھیں گے گویا کچھ ہوا ہی نہیں،لیکن اس اخلاص کے نتیجے میں ہمیں امید ہے کہ ایک نہ ایک دن غیر متوقع طور پر دروازہ کھل جائے گا اور ہم سے کہا جائے گا:‘‘تم نے اپنی اہلیت ثابت کر دی ہے،لہٰذا اب آجاؤ۔’’ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:﴿أَوْفُواْ بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ﴾ (البقرۃ:۴۰) ’’اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا۔’’ یعنی میں کبھی بھی اپنے عہد کو نہیں توڑوں گا۔اگر کبھی عہد شکنی ہوئی تو وہ تمہاری ہی طرف سے ہوگی۔اس لیے اس بارے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو اور عہدشکنی مت کرو تاکہ کسی نہ کسی دن تمہارے لیے درخداوندی کھل جائے۔

لیکن آئیے اپنے آپ سے سوال کریں: ’’کیا ہم نے اخلاص اور وفاشعاری کے ساتھ اس عہد کی پاسداری کی ہے؟ کیا ہم اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا اظہار کیے بغیر اس کے در کو مضبوطی سے تھامے ہوئے مسلسل انتظار کرتے رہے ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ایک مرتبہ دروازہ بند ہوتے دیکھ کر مایوسی نے ہمیں گھیر لیا ہو؟ یا کائنات میں پیش آنے والے واقعات کے ہماری خواہشات اور توقعات کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم اخلاص سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں؟

کسی شاعر نے کہا ہے:

ماکل مایتمنی المرء یدرکہ            تجری الریاح بمالا تشتہی السفن

(انسان کی ہرتمنّا پوری ہوتی ہے اور نہ ہی ہوائیں ملاحوں کی خواہش کے مطابق چلتی ہیں۔)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کشتیوں کا ناخدا اور اس سمندر کا حکمران کوئی ہے۔یہاں کوئی بھی کام ہماری مشیت کے مطابق نہیں ہوتا،بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے تابع ہے: ‘‘ماشاء اللہ کان ومالم یشأ لم یکن’’ ‘‘جواللہ نے چاہا ہو گیا اور جو اس نے نہیں چاہا نہیں ہوا۔’’یہ حق تبارک وتعالیٰ کے سامنے تسلیم مطلق کے بارے میں ہمارے لیے رسول اللہﷺ کا ایک نورانی ارشادمبارک ہے۔یہ ان اذکار میں سے ہے جن کا ہم صبح و شام ورد کرتے ہیں۔

اگر ہم اللہ تعالیٰ کے سپاہی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں صوفیاء کی تعبیر کے مطابق ‘‘فنا فی اللہ’’ ہونا پڑے گا اور ہمیں اس بات کا یقین کرنا پڑے گا کہ ہر خیر اور بھلائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور دینی خدمت میں پیش آنے والی ہر کوتاہی اور لغزش کا باعث ہم خود ہوتے ہیں،کیونکہ ارشادباری ہے: ﴿مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّہِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَۃٍ فَمِن نَّفْسِکَ﴾(النسا:۷۹) ‘‘(اے آدم زاد!) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔’’ایک اور موقع پر ارشاد ہے:﴿وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ﴾ (الشوری:۳۰) ‘‘اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے کرتوتوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف کر دیتا ہے۔’’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے کیے کا نتیجہ اور ہمارے گناہوں اور شہوات سے مغلوبیت کا وبال ہوتا ہے، تاہم چونکہ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہیں اس لیے وہ ہمارے ہر گناہ پر ہمارا مواخذہ نہیں فرماتے،بلکہ اکثر گناہوں سے درگزر فرماتے ہیں، لہٰذا ہمیں ہر لمحہ حمدوشکر کے جذبات سے سرشار رہنا چاہیے۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں بخش دے اور ہماری سیئات سے درگزر فرمائے۔

ہمیں اللہ تعالیٰ کے حقیقی سپاہی بننا چاہیے اور جب ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی سپاہی بنیں گے تو ہمیں اطمینان اور راحت کا احساس بھی ہوگا۔بعض لوگ ایسے ہیں جن کے دل کی واقعی یہ کیفیت ہوتی ہے۔ہمیں صوفی شاعر یونس امرہ جیسا بننا چاہیے، جنہوں نے مال،اولاد اور عیال سب کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا: ‘‘میں صرف آپ کا طالب ہوں۔۔۔صرف آپ کا۔۔۔آپ کے سوا کسی کا نہیں۔’’ان کے دل میں جنت کی طلب تھی اور نہ حوروں کی چاہت،بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے طلبگار تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اہل ایمان موجودہیں،جنہوں نے اپنے آپ کو مکمل طورپر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ میں نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ کے سپاہیوں کے دل ان سے بھی بلندتر جذبات سے سرشار ہوں گے اور وہ اپنی سپاہ گری کو پورے شوق اور جذبے کے ساتھ برقرار رکھیں گے۔