توبۃ النصوح سے کیا مراد ہے؟

توبۃالنصوح سے متعلق آیت مبارکہ میں اہل ایمان سے خطاب کر کے کہا گیا ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللّہِ تَوْبَۃً نَّصُوحاً﴾(التحریم:۸) ‘‘مؤمنو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔’’اس آیت مبارکہ میں ایمان، توبہ اور نصوح تین ایسے الفاظ ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔

پہلا لفظ ایمان ہے۔ایمان اسلام کو مجموعی حیثیت سے تسلیم کرنے،زبان سے اس کا اقرار کرنے اور دل سے اس کی تصدیق کرنے سے عبارت ہے۔جب تک انسان تمام واجب الایمان امور پر ایمان نہ لائے اس وقت تک وہ مؤمن نہیں کہلا سکتا۔ اگرچہ ہمارے پیش نظر ایمان کے شرعی مفہوم کی وضاحت کرنا ہے،لیکن اس کے باوجود ایمان کے لغوی مفہوم پر روشنی ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے انسان خدائی امان میں آجاتا ہے۔انسان دنیا کے حادثات،اس کی پہاڑ جیسی مشکلات،آخرت کے عذاب اور اس کی ان ہلاکت خیزیوں سے جن کے مقابلے میں دنیا کے مصائب کی کچھ حیثیت نہیں صرف ایمان کی بدولت ہی نجات پا سکتا ہے۔

دوسرا لفظ توبہ ہے۔توبہ انسان کی تجدیدِنو اور اصلاحِ باطن سے عبارت ہے۔ اس کے ذریعے نافرمانی اور غلط تصرفات کے نتیجے میں دل کے بگڑے ہوئے توازن کو بحال کیا جاتا ہے۔یہ حق کی طرف پیش رفت ہے،بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں یہ اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب سے اس کے لطف و کرم اور اس کی بازپرس سے اس کی رحمت وعنایت کی طرف پیش قدمی ہے۔توبہ کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ گناہ کے احساس کے نتیجے میں انسان کی خوداحتسابی سے عبارت ہے۔دوسرے لفظوں میں غیرذمہ دارانہ طورپرزندگی بسرکرنے سے انکار کرکے نفس کے سامنے ڈٹ جانے،کبیرہ گناہوں سے بچنے اور ان کے ارتکاب کا خیال بھی دل میں نہ آنے دینے کا نام توبہ ہے۔

گناہ ہلاکت کی کھائی میں گرنے کے مترادف ہے تو توبہ نفس کا سہارا اور باہر جست لگا کر اس گراوٹ سے نجات کا راستہ ہے۔دوسرے لفظوں میں گناہ خوداحتسابی سے غفلت برتنے کے نتیجے میں روح اور وجدان کو عارضی طورپرپہنچنے والازخم ہے تو توبہ دردِدل کا احساس،خوداحتسابی اور حواس کو نئی طاقت اور توانائی بہم پہنچانے سے عبارت ہے۔گناہ شیطان اور نفسانی خواہشات سے مغلوب ہونے کا نام ہے جبکہ توبہ شیطان سےحواس کی حفاظت کرکے اعتدال کو بحال کرنے اور روح کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے سے عبارت ہے۔

گناہ روح کو گھن لگا کر کھوکھلا کرتے ہیں،جبکہ توبہ اس کے برعکس عمدہ کلمات کے تعمیری اسلوب کے ذریعے گناہ کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے۔لہٰذا اس توبہ کا کیا کہنا جس کے ذریعے دلوں پر لرزہ طاری ہونے اور آنکھوں کے پتھرانے سے پہلے عمل کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے۔کاش! ہم توبہ کی آہ و بکا کے ذریعے گناہوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ہر خلا کو پُر کرنے میں کامیاب ہوسکتے۔

انسان پیدائشی طور پر ہر قسم کی کجی اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔اپنی فطرت اور سیدھے راستے سے وہی لوگ انحراف کرتے ہیں،جنہوں نے اپنے آپ کو بنجر زمین کے حوالے کر دیا ہوتا ہے،جس کا لازمی نتیجہ گلنے سڑنے کی صورت میں نکلتا ہے،کیونکہ گناہ انسان کی بربادی کا سبب ہیں۔ایک آیت مبارکہ میں گناہ کے بعد انسان کے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے: ﴿وَأَنِیْبُوا إِلَی رَبِّکُمْ وَأَسْلِمُوا لَہُ﴾ (الزمر:۵۴) ‘‘اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ۔’’ انابت لوٹنے اور رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ توبہ گناہوں میں ملوث ہونے کے بعد پاکیزہ اصل کی طرف لوٹنے سے عبارت ہے۔ایک حدیث نبوی میں ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ بن جاتاہے۔اگر وہ باز آجائے اور توبہ واستغفار کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ گناہ کا ارتکاب کرے تو اس میں اضافہ ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ اس کے دل پر اس زنگ (ران) کا غلبہ ہو جاتا ہے،جس کے بارے میں ارشادِباری تعالیٰ ہے: ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾ (المطففین:۱۴) ‘‘ہرگز نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ جو اعمال (بد) کرتے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔’’ یعنی گناہ کے ارتکاب کا خیال اس کے دل پر بالکل اسی طرح حاوی ہونے لگتا ہے جیسے کوئی شخص سیڑھی سے اترتا ہے کہ جب وہ ایک زینے سے اترتا ہے تو دوسرے کے لیے اپنے آپ کو تیار پاتا ہے اور جب دوسرے سے اترتا ہے تو تیسرے زینے کے لیے اپنے آپ کو تیار پاتا ہے، اسی طرح جس شخص کو گناہوں کی لت پڑ جاتی ہے اس کے دل سے شرم و حیا رخصت ہو جاتی ہے اور اس کے لیے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب بھی آسان ہو جاتا ہے،جس کے نتیجے میں وہ تنزل اور پستی کا شکار ہو کر اسفل السافلین کے مقام تک جا گرتا ہے۔اسی لیے کسی عقلمند کا قول ہے:‘‘ہر گناہ کفر تک پہنچانے کا راستہ ہے۔’’جبکہ توبہ اس پستی کا راستہ روکنے کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستے کی طرف رخ موڑنے اور اس کی خاطر جدوجہد کرنے سے عبارت ہے۔

توبہ گمراہی اور انحراف کے بعد انسان کے اپنے مالک کی طرف لوٹنے کا نام ہے،یہی وجہ ہے کہ بخاری ومسلم میں مروی ایک حدیث میں رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں:‘‘جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ سے اس شخص کی بہ نسبت زیادہ خوش ہوتے ہیں جو کسی بیابان میں اپنی اونٹنی پر ہو وہ اونٹنی اس سے بھاگ جائے، اس کا کھانا اور پانی بھی اسی اونٹنی پر ہو اور وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے آکر لیٹ جائے۔اسی دوران اچانک وہ اونٹنی اس کے پاس آکر کھڑی ہو جائے،وہ اس کی مہار پکڑ لے اور خوشی کی شدت سے کہہ بیٹھے:’’اے اللہ! آپ میرے بندے ہیں اور میں آپ کا پروردگار ہوں۔‘‘یعنی خوشی کی شدت سے اس سے الفاظ آگے پیچھے ہوجائیں۔’’{qluetip title=[1]}(1) البخاری،الدعوات؛مسلم، التوبۃ.{/qluetip}

بلاشبہ ہم حدیث مبارک میں وارد لفظ ‘‘فرح’’ (خوشی) کو متداول مفہوم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔یہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت الغنی المطلق کے شایانِ شان اس کا دوسرا معنی مراد ہے۔اگرچہ ہم اس معنی کے ادراک سے عاجز ہیں،لیکن اتنی بات ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اپنی خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور یہی بات اہم ہے۔ توبہ کے دو رُخ ہیں۔ ایک رُخ ہماری طرف اور دوسرا اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔رسول اللہﷺ ‘‘ویتوب اللہ علی من تاب’’{qluetip title=[2]}(2) البخاری،الدعوات؛مسلم، التوبۃ.{/qluetip} (جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔) میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے ازسرنو ہم پر کھول کر ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔جب ہم سیدھے راستے سے منحرف ہو جاتے ہیں تو ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان سارے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں،لیکن جب ہم اپنی فطرت کے خلاف راستہ اختیار کرنے پر نادم و پشیمان ہوتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تعلقات پھر سے استوار ہونے لگے ہیں۔پہلا مرحلہ ہماری توبہ ہے،جس کی ابتدا عزم اور ندامت سے ہوتی ہے۔دوسرا مرحلہ اللہ تعالیٰ کا ہماری طرف متوجہ ہونا اور یہ کہتے ہوئے ہم پر اپنی رحمت کے در کھولنا ہے: ‘‘اے میرے بندو! میں تمہیں بھولا اور نہ ہی میں نے تمہیں چھوڑا ہے۔جب تک تم مجھے یاد کرتے رہو گے میں تمہاری طرف سے باربار کی عہدشکنی کے باوجود تمہاری توبہ قبول کرتا رہوں گا۔’’بے شک اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں، لہٰذا ہم سے کتنی ہی برائیوں کا ارتکاب کیوں نہ ہو جائے،ہمیں یہ کہتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے: ‘‘اے ارحم الراحمین!اے غفور!اے غفار!ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری سیئات سے درگزر فرما۔‘‘

تیسرا لفظ نصوح ہے،جو فعول کے وزن پر اسم فاعل کا صیغہ ہے اور اس میں مبالغہ کا پہلو پایا جاتا ہے۔اس کا معنی نفس کے ساتھ خیرخواہی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔یہ ‘‘النصیحۃ’’ سے ماخوذ ہے۔ نصیحت دوسروں کے ساتھ خیرخواہی،اچھی سوچ اور اچھے طرزِفکر سے عبارت ہے۔جب ہم کہتے ہیں: ‘‘الدین النصیحۃ’’ تو ہمارے پیش نظر دوسروں کی بھلائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں گمراہی سے روکنا ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت اس کے مقتضیات میں سے ہے اور اسی لیے ہم سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعبیر کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والی نورانی جماعت پر‘‘جیش القدیسین’’کا اطلاق کرتے ہیں۔ اگر ان سپاہیوں پر آسمان ٹوٹ پڑے اور ان کے نیچے سے زمین پھٹ پڑے تب بھی وہ اسلام کی خدمت سے دستبردار نہ ہوں گے،بلکہ بہادری سے دعوت پر قائم رہیں گے، خواہ دین پر استقامت آگ کے انگاروں کو تھامنے کے مترادف ہی کیوں نہ ہو۔

اللہ،رسول،قرآن اور دین اسلام کی طرف دعوت دینے،بے چین دلوں میں اطمینان پیداکرنے،آخرت کو بھلا کر اس سے مایوس ہو چکنے والے دلوں میں اس کا احساس اور فکر پیدا کرنے اور آخرت میں جمالِ خداوندی کے دیدار کہ جس کا ایک لمحہ جنت کے ہزاروں سالوں کی زندگی کے برابر ہے کا شوق پیدا کرنے کو ’’خیرخواہی‘‘ کے ایک لفظ میں سمویا جا سکتا ہے اور یہ سب کچھ حدیث نبوی‘‘الدین النصیحۃ’’ میں وارد لفظ ‘‘النصیحۃ’’ کے تحت داخل ہے۔یہ بات اوپر گزر چکی ہے کہ لفظ نصوح مبالغہ کے ساتھ خیرخواہی سے عبارت ہے۔

انسان پر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ سے خیرخواہی کرے اور سب سے پہلے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائی اور گناہ سے بچائے۔جان کی حفاظت حقوق کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے،لہٰذا انسان کو شراب،زنا،کفر اور گمراہی سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ان میں سے ہر ایک کا اصول خمسہ میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ تعلق ہے۔دوسرے لفظوں میں انسان کو اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا چاہیے۔اگر اس نے ایندھن بن کر زندگی گزاری تو اس کا حشر بھی ایندھن والا ہو گا۔ ایندھن کا انجام سب کو معلوم ہے۔قرآنِ کریم کہتا ہے کہ وہ (کفار) جہنم کا ایندھن ہیں،لہٰذا انسان کو اپنے ساتھ خیرخواہی کا حریص ہونا چاہیے،لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ ہر قسم کے گناہوں کے بارے میں انتہائی حساس ہو۔یہ خیرخواہی اس قدر شدید ہونی چاہیے کہ اسے کفر و گمراہی سے نجات پانے کے بعد انہیں دوبارہ اختیار کرنا ایسے ہی ناپسندیدہ ہو جیسے آگ میں پھینکے جانا۔

لیکن اس کے باوجود بعض اوقات انسان سے لغزش ہو جاتی ہے۔ایسی صورت میں اس کے سامنے عقل و ضمیر کی طرف رجوع کر کے یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا:‘‘میں اس حالت تک صرف اللہ تعالیٰ سے دوری کی وجہ سے پہنچا ہوں، لہٰذا اس کے طرف رجوع کیے بغیر میری نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔’’وہ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ کوشش ‘‘توبۃ النصوح’’ کا ایک پہلوہے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان گزشتہ گناہوں کی طرف دوبارہ لوٹ کر نہ جائے،کیونکہ اپنے لیے بھلائی چاہنے والوں کا یہ شیوہ نہیں ہے۔جس طرح انسان اپنی اولاد کے لیے ہمیشہ بھلائی کا متمنی اور ان کے لیے روشن مستقبل کا آرزومند ہوتا ہے،اسی طرح اسے اپنے لیے بھی ہمیشہ بھلائی کا طالب ہونا چاہیے۔اس لیے اسے کوشش کرنی چاہیے کہ سرے سے اس سے گناہ کا ارتکاب ہو ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ سے دوری کو بہت بڑا جرم اور ناقابل تلافی نقصان سمجھنا چاہیے۔ایسی صورت میں اس کی توبہ توبۃ النصوح ہو گی۔ارشادخداوندی ہے: ﴿یَاأَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُواإِلَی اللَّہِ تَوْبَۃً نَّصُوحاً﴾ (التحریم:۸)‘‘مؤمنو! اللہ کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔’’ گویا اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے کہہ رہے ہیں: ‘‘تم اپنے ایمان کے سبب محفوظ مقام پرکھڑے ہو۔اس ایمان کے ذریعے تم میں سیاہ و سفید اور خیر و شر میں امتیاز کرنے کا ملکہ پیدا ہوا ہے۔تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے،اس پر بھروسا کیا اور اس کا سہارا لیا۔اگر کسی لمحے تم سے لغزش یا سیدھے راستے سے انحراف ہو جائے تو ہرگز مایوس نہ ہونا،کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کے سوا ہر گناہ کو بخش دیتے ہیں: ﴿إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءُ ﴾ (النساء:۴۸) ‘‘اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے۔’’ لہٰذا جس جگہ تم گر پڑو وہاں پڑے نہ رہو،بلکہ اپنی لغزش پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاؤ، تاکہ تم اپنے آپ کو پالو اور اس کی طرف لوٹ جاؤ۔‘‘ میرے نزدیک یہی توبۃالنصوح ہے۔

توبۃالنصوح کی چند شرائط ہیں جن میں سے کچھ حسبِ ذیل ہیں:

اول: اگر گناہ کا تعلق بندوں کے حقوق میں سے کسی حق سے ہے تو سب سے پہلے حقدار کو اس کا حق ادا کرکے اس سے معذرت کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے۔

دوم: اس گناہ کا دوبارہ ارتکاب نہ کرنے کاپختہ عزم کرنا۔

سوم: گناہ اور توبہ کے درمیان زیادہ وقت نہ گزرنے پائے،یعنی جس قدر ممکن ہو سکے کوئی گناہ پانچ منٹ کے لیے بھی بغیر توبہ کے نہ رہے۔

توبہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گناہ کی وجہ سے روح کو تکلیف محسوس ہو اور دل میں نفرت و ناگواری کے جذبات پیدا ہوں،کیونکہ اگر گناہوں کے ارتکاب کی عادت پڑجانے کی وجہ سے کسی کو گناہ پر دکھ نہ ہو اور وہ صرف زبان سے توبہ کرتا رہے تو اس کا یہ عمل توبہ نہیں سمجھا جائے گا،بلکہ وہ خود کار حرکات اور بے فائدہ عبارات کا مجموعہ تصور ہو گا۔توبہ ایسے دکھ درد سے عبارت ہے،جسے ضمیر محسوس کرتاہے اور انسان اس کی وجہ سے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ندامت اور تکلیف کے اس احساس کے بعد زبان سے توبہ کے الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے۔دوسرے لفظوں میں توبہ ندامت اور درد کے اظہار کا نام ہے،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا طریق کار صاحب شریعت رسول اللہ ﷺسے سیکھاجائے،مثلاًآپ کہہ سکتے ہیں‘‘ اللہ العظیم الکریم الذی لا الہ الا ہو توبۃ عبد ظالم لایملک لنفسہ موتاً ولاحیاۃً و لا نشوراً’’ (میں اس عظیم و کریم ذات سے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں مغفرت مانگتا ہوں۔ یہ ایک ایسے ظالم بندے کی طرف سے توبہ کا اظہار ہے،جسے اپنی موت و حیات پر قابو حاصل ہے اور نہ ہی اٹھائے جانے کی اس میں سکت ہے۔) رسول اللہﷺکی ایک دوسری حدیث مبارک میں ہے کہ توبہ کا ارادہ رکھنے والا دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دے اور دل سے یوں کہے:’’اے حی وقیوم ذات! میں آپ کی رحمت سے مدد کا طلبگار ہوں۔میری ساری حالت کو درست فرما دیجئے اور مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کیجئے۔‘‘یا اس جیسی کوئی اور دعا مانگے۔غرض اپنی ندامت کا اظہار اس قسم کی دعاؤں کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔

رسول اللہﷺسے منقول ایک دعا ہے،جسے سیدالاستغفار بھی کہتے ہیں۔اسے صبح وشام پڑھا جانا چاہیے:‘‘أللّھُمَّ أنت ربی لا الہ الا أنت، خلقتنی و أنا عبدک، و أنا علی عہدک ووعدک مااستطعت، أعوذ بک من شرما صنعت،أبوء لک بنعمتک علی و أبوء لک بذنبی، فاغفرلی فانہ لایغفر الذنوب الا أنت’’بعض سلف صالح نے دعا میں وارد لفظ ‘‘أنت’’کے بعد‘‘یاغفار یاغفور’’کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔اگرچہ یہ اضافہ رسول اللہﷺکی عبارت میں منقول نہیں ہے،لیکن شفاعت کی غرض سے اللہ تعالیٰ کے دو اسمائے حسنیٰ کا اضافہ اچھی بات ہے۔

توبہ دل میں پیدا ہونے والے احساسِ ندامت کا نام ہے۔اوپر ذکرکردہ دعاؤں کے ذریعے ہمارے استغفار کی قبولیت اسی احساسِ ندامت کے ساتھ مشروط ہے۔ لہٰذا اگر ہم زبان سے ‘‘أستغفراللہ أستغفر اللہ العظیم الکریم الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و أتوب الیہ’’کہیں،لیکن دل کی گہرائیوں میں احساسِ ندامت نہ ہو تو ایسے استغفار کا کوئی فائدہ نہیں۔انسان کو چاہیے کہ کم ازکم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار صدقِ دل سے کرے،کیونکہ توبہ کا عمل کوئی ہنسی مذاق یا بے معنی رسم و رواج نہیں ہے،بلکہ اس کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت کے حقیقی شعور کا اظہار کرتے ہیں۔

آخر میں اس طرف اشارہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں جو بعض لوگ ایمان اور نکاح کی تجدید کی رسم اداکرتے ہیں اس کی کوئی بنیاد ہے اور نہ ہی اس میں کہے گئے الفاظ کا کسی مسلمان کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔نکاح جیسے سنجیدہ اور اہم موضوع کے بارے میں یہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ میں اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔لغوی اعتبار سے بھی اس قسم کے جملے پر اعتراض ہوتاہے،کیونکہ وہ شخص تجدید کی خواہش کا صراحۃً اظہار نہیں کرتا،بلکہ یہ کہتا ہے کہ وہ اس بارے میں سوچ رہاہے،یعنی ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں اس پر عمل کرے۔ جبکہ اس قسم کی بات کہنا بڑی خطرناک بات ہے،کیونکہ اگر انسان سے قصداً یا بلاقصد کسی کفریہ بات کا صدور ہوا ہو تو اس پر بغیر کسی تاخیر کے فوراً اپنے ایمان کی تجدید کرنا ضروری ہوتا ہے،جس کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ دل سے کلمہ شہادت‘‘أشہد أن لاالہ الا اللہ وأشہد أن محمداًعبدہ و رسولہ’’پڑھے۔اس بارے میں کسی قسم کی تاخیر کی ہرگز گنجائش نہیں۔مسلمانوں کو غیرسنجیدہ امور میں مشغول کرنا یا ان کے ذریعے انہیں تسلی دینا بے فائدہ کام ہے۔ہمیں سنجیدگی سے توبہ کرنی چاہیے اور کسی بھی غلطی یا لغزش پر ہمیں دل سے کانپ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے،نیز ہمارے یہ سارے اقدامات رسول اللہﷺکے بیان کردہ طریقِ کار کے مطابق ہونے چاہئیں۔