انسان براعظم امریکا میں کیسے پہنچا ؟

آج کل یہ سوال موضوعِ بحث بناہواہے۔اگرچہ بظاہر یہ سادہ سا سوال لگتا ہے،لیکن اس کے پیچھے کارفرما سوچ اور ہدف سادہ نہیں ہے،کیونکہ وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ تمہارا خیال ہے کہ ساری انسانیت حضرت آدم علیہ السلام اور حواء علیہا السلام کی نسل ہے،لیکن ایک ماں باپ کی اولاد اس نئے دریافت شدہ براعظم میں کیسے پہنچی؟اگر تمہارا خیال درست ہوتا تو یہ لوگ وہاں نہ پہنچ سکتے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان اپنے اپنے علاقے میں ارتقا کے زیراثرمستقل طور پرپروان چڑھا۔

لہٰذا بادی النظر میں سادہ نظر آنے والے اس سوال میں یہ الحادی فکر مضمر ہے۔ہم یقیناًیہ کہتے ہیں کہ تمام انسان آدم و حواء علیہماالسلام کی اولادہیں۔یہ بات صرف ہم نہیں کہتے،بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے اوراسی وجہ سے ہم اس پرصدقِ دل سے ایمان رکھتے ہیں۔

مادہ پرست کئی سالوں سے باہم متعارض نظریات پیش کررہے ہیں اور قرآنِ کریم کے بیان کردہ تصورِتخلیق کو مجروح کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،لیکن جیساکہ ہم نے ایک اورکتاب {qluetip title=[1]}(1) تخلیق کی حقیقت اور نظریہ ارتقاء{/qluetip} میں تفصیل سے ذکرکیاہے،یہ نظریات یکے بعد دیگرے غلط ثابت ہوگئے ہیں اورسائنسی پہلو سے قرآنِ کریم کے موقف کاصحیح ہوناثابت ہو چکا ہے۔ہم یہاں اس موضوع کو نہیں چھیڑیں گے،بلکہ اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کو اوپر ذکرکردہ کتاب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دینے پراکتفاکریں گے،تاہم اتنی بات ضرور کہیں گے کہ سارے انسان حضرت آدم و حواء علیہماالسلام کی اولادہیں۔اس کے برعکس دعوی کرنے والے نظریہ ارتقا کو آئے روز نئے نئے سائنسی اعتراضات کاسامنا کرنا پڑھ رہا ہے،نیزہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ڈارون ازم کی ایک نظریے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ ہم انتہائی کمزور بنیادوں پرقائم اس نظریے کے رد میں ضرورت سے زائد دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں، لیکن ہم ایساکرنے میں حق بجانب ہیں،کیونکہ اس نظریے کے پسِ پردہ موجود الحادی فکر اس قدرخطرناک ہے کہ وہ نہ صرف اس قدر دلائل پیش کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے،بلکہ ہمیں اس پرمجبور کرتی ہے۔آج واضح طورپرنظرآیاہے کہ یہ نظریہ پیدا ہی مردہ ہوا تھا اور اس میں زندگی کے آثار کبھی بھی ظاہر نہ ہوئے۔ہزاروں اہل ایمان سائنسدانوں نے اسے اس قدر تنقید کا نشانہ بنایاہے کہ اس کا کوئی بھی پہلو تنقید سے محفوظ نہ رہا۔سینکڑوں بار اس کا بالکل بے بنیاد ہوناثابت کیا جا چکاہے،تاہم چونکہ بعض گمراہ کن لوگ اس کا احیائے نو کر کے ہمارے بعض نوجوانوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں،اس لیے ہم نے بھی اس پر تنقید کرنے کو ضروری خیال کیاہے۔

کرۂ ارض میں کئی بار بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔مثال کے طور پر ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ موجودہ بحر ابیض متوسط دس ہزارسال پہلے خشک قطعۂ ارض تھا اور موجودہ خشکی کے کئی حصے پہلے زیرآب تھے۔اگران کی یہ بات درست ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ بحرابیض متوسط کی موجودہ جگہ پر اُس دور میں تہذیب و تمدن اور ریاستیں موجود رہی ہوں گی،یہی بات براعظم امریکا اورآسٹریلیا کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے،یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی دور میں یہ دونوں براعظم دنیا کے دیگر براعظموں سے متصل ہوں اور آج ان کے درمیان حائل سمندر اس وقت خشکی کا حصہ ہوں۔اگراس پہلوسے دیکھیں تو انسان کا براعظم امریکا وغیرہ میں منتقل ہونا بالکل آسان اور ممکن دکھائی دیتاہے۔

مزیدبرآں انسانی تاریخ ناقابل تصور حد تک قدیم ہے،کچھ عرصہ پہلے ہی ۲۷۰ ملین سال پرانے انسان کے بہت بڑے ڈھانچے کی دریافت سے متعلق مضامین شائع ہوئے ہیں،جبکہ ابھی تک بندر کے قدیم ترین دریافت شدہ ڈھانچے کا زمانہ ۱۲۰ ملین سال پہلے کا بتایا جاتا ہے،گویاان دونوں کے درمیان دوگنا سے زیادہ عرصہ حائل ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض سمندری حیاتیات مثلاً سبز کائی اوراسی طرح موجودہ شہد کی مکھیاں ۵۰۰ ملین برس پہلے بھی اسی حالت میں پائی جاتی تھیں جیسے آج پائی جاتی ہیں۔

ان اعدادوشمارکے ذریعے سائنس دان اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کائنات اور زندگی کے ظہور کا زمانہ اس سے قدیم ترہے،جو پہلے خیال کیا جاتا تھا،لہٰذا ماقبل التاریخ دورکے بارے میں کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی یاکم ازکم ہم نے جواحتمالات بیان کیے ہیں اور ان کی روشنی میں جو باتیں کہی ہیں انہیں رد نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ ہمارے نقطہ نظر سے اختلاف رائے رکھنے والوں کے پاس ہمارے نقطہ نظر کی مخالفت میں کوئی قابل ذکر دلیل موجود نہیں ہے۔

جب فرانسیسیوں کا مایا کے باشندوں سے سامنا ہوا تو انہوں نے فرانسیسیوں کو بتایا کہ ان کی قدیم تاریخ کے مطابق ان کی زمین ایک اور خشکی کے ٹکڑے کے ساتھ ملی ہوئی تھی،لیکن طوفانوں اورزلزلوں کے باعث خشکی کا وہ حصہ سمندر میں ڈوب کر غائب ہو گیا اور وہ زمین کے بلند مقامات پرمحفوظ رہے،اسی قسم کے اشارات ہندوستان کی تاریخ میں بھی ملتے ہیں کہ ایک بہت بڑے طوفان کے نتیجے میں ان سے متصل خشکی کاحصہ ان سے جداہوگیا اور ان دونوں کے درمیان سمندر حائل ہو گیا۔ممکن ہے کہ ان سے جداہونے والاخشکی کاحصہ موجودہ براعظم آسٹریلیا ہی ہو،اس سے ثابت ہوتاہے کہ انسان کا براعظم امریکا اور آسٹریلیا تک پہنچنا مشکل یا ناممکن نہ تھا۔

نیز اگر کرۂارض کی موجودہ جغرافیائی خدوخال کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی ان براعظموں تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں،کیونکہ آبنائے‘‘برنک’’کا پانی بسااوقات اس قدر منجمد ہو جاتا ہے کہ روس کے راستے سے امریکا پہنچنا ممکن ہوجاتاہے،نیزپرانے دور کی کشتیوں کے ذریعے اس مسافت کو طے کرنا بھی ممکن تھا۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان سیاح جدید بحری جہازوں کی ایجاد اور کریسٹوفر کولمبس سے پہلے براعظم امریکا پہنچ چکے تھے،بلکہ وہ کشتیوں پر اپنے ساتھ اپنے گھوڑے بھی لے گئے تھے۔اس حقیقت کی طرف بہت سے محققین نے اشارہ کیاہے،لہٰذا انسان کا براعظم امریکا منتقل ہونا اور وہاں انسانی آبادی کا پایا جانا عملی طور پر ناممکن ہے اور نہ ہی کوئی عجیب و غریب واقعہ ہے،بلکہ ایک عام ساواقعہ ہے۔

جہاں تک ڈارون ازم کا تعلق ہے تو اس سے متعلق بہت سا تنقیدی لٹریچر سامنے آچکاہے اور اس بارے میں بہت سی علمی کتابیں اور بحثیں شائع ہو چکی ہیں۔ موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔