غزوہ اُحد

بدر کی فتح کے بعد جہاں عرب کی دوسری طاقتیں بھی چوکنا ہوگئیں ،وہیں مسلمان ایک طرف اندرونی عدم استحکام کاشکار تھے تو دوسری جانب انھیں گرد ونواح کے قبائل کی شر انگیزیوں کا بھی سامناتھا۔

مدینہ کے یہود نبی اکرم صلى الله عليه و سلم سے کیے گئے معاہدوں سے منحرف ہونے لگے ۔ غزوہ بدر میں انھوں نے مسلمانوں کے بجائے مشرکین سے ہم دردی جتائی ،جب کہ بدر کے بعد کھلم کھلا قریش کی حمایت کرنے لگے اور دیگر قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف اُکسانے لگے ۔انھوں نے منافقین کوبھی اپنے ساتھ ملالیا،جوابھی تک خود کو مسلمان کہلا رہے تھے ۔

اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کو پاش پاش کرنے کے لیے انھوں نے مدینہ کو دو مسلمان قبائل کی پرانی عداوت کو از سر نوہوادینے کی کوشش کی ۔بنو نضیر کاسردار کعب بن اشرف خاص طور مکہ روانہ ہوا،جہاں بدر کے مقتولین کے نوحے پڑھ پڑھ کر قریش کے جذبات کوابھارنے لگا۔وہ مسلمانوں کے خلاف بہتان تراشی اور حضور صلى الله عليه و سلم کی شان میں گستاخانہ اشعار پر مبنی نظمیں پڑھنے لگا۔

یہود حضور صلى الله عليه و سلم سے کیے گئے تمام معاہدوں سے منحرف ہوگئے ۔اسلام دشمنی میں پیش پیش یہود کے قبیلے بنو قینقاع کے چند شرپسندوں نے غزوہ بدر کے چند ماہ بعد ایک مسلمان عورت سے ہتک آمیز سلوک کیا۔[جواب میں مسلمانوں نے اس یہودی کی دکان پر حملہ کردیا۔]اس اشتعال انگیز واقعے سے رونما ہونے والے فساد میں ایک یہودی ہلاک اور ایک مسلمان شہید ہوگیا۔حضور صلى الله عليه و سلم نے اس شرم ناک واقعے پر انھیں مطعون کرتے ہوئے سابقہ معاہدوں کی تجدیدکی پیشکش کی توانھیں نے دھمکی

دیتے ہوئے کہاکہ جنگی حکمت عملی سے ناواقف لوگوں سے جنگ کرکے تمھیں خوش فہمی میں مبتلانہیں ہوناچاہیے۔اس لڑائی میں خوش بختی نےتمھاراساتھ دیا۔اللہ کی قسم!اگر ہمارے ساتھ مقابلہ ہو اتوجان لوگے کہ تمھیں کن سورماؤں سے مقابلہ کرنا پڑا ہے.

بالآخر رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے بنوقینقاع پرحملہ کردیا۔(جنگ تونہ ہوئی ،تاہم)اس کے نتیجے میں انھیں مدینے سے نکل جانے کا حکم جاری کردیاگیا۔دوسری جانب حضور صلى الله عليه و سلم کے حکم کی تعمیل میں محمد بن مسلمہ نے اشرف بن کعب کو قتل کرکے اس کی شرانگیز یوں کا خاتمہ کردیا۔ ۱

قریش بدر کی شکست کے صدمے سے دوچارتھے ۔ان کی عورتیں مقتولین بدر کے نوحے کہتیں اوراپنے مردوں کواشتعال دلاتیں ،اس پر مستزاد یہودی جلتی پر تیل ڈال رہے تھے۔چناں چہ ایک سال پورا ہونے پر وہ سات سوزرہ پوشوں اوردو سوگھوڑوں پر مشتمل تین ہزار کے لشکر کےساتھ مدینہ پرحملہ کرنے چل پڑے.

قریش کی مدینہ کی طرف پیش قدمی کی اطلاع ملی تو حضور صلى الله عليه و سلم نے ان کے مقابلے کی حکمت عملی کو وضع کرنے لیے اپنے صحابہ سے مشاورت کی ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے ایک خواب میں دیکھاکہ ایک گائے ذبح کی جارہی ہے اوران کی تلوار کی دھار کندھ ہوگئی ہے اوریہ کہ انھوں نے اپناہاتھ ایک محفوظ زرہ میں داخل کیاہے ۔اس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ شہر میں قلعہ بندہوکر وفاع کرنا چاہیے ۔اس خواب سے آپ صلى الله عليه و سلم کے کچھ صحابہ اورایک قریبی عزیز کی شہادت کی خبر بھی ملتی تھی ۔ ۲

آپ صلى الله عليه و سلم کومعلوم تھا کہ کفار میدان میں جنگ کی تیاری کرکے آرہے ہیں اور اگر مسلمانوں نے مدینہ میں رہتے ہوئے وفاع کیا تو مشرکین زیادہ عرصہ تک محاصرہ برقرار نہیں رکھ سکیں گے ،تاہم حکمت عملی طے کرنے کے بعد حضور صلى الله عليه و سلم نے زور دے کر کہا کہ مسلمان حقیقی معنوں میں امن وسلامتی کے علم بردار ہیں ،اسی لیے صرف ناگزیر صورت حال میں ہی طاقت کااستعمال جائز سمجھتے ہیں ۔مثال کے طورپر اشاعت اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں یاجان وایمان یااسلامی ریاست پرحملہ کردیاجائے.

صحابہ میں سے کچھ نوجوان ،ج وغزوہ بدر میں کسی وجہ سے شریک نہ ہوسکے تھے ،اب تک رنجید ہ خاطر تھے اورشوق شہادت کی وجہ سےمدینہ سے باہرنکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے ۔حضور صلى الله عليه و سلم نے اکثریت کی رائے کو پسند کیااورفیصلہ کیا کہ کھلے میدان میں دشمن سے پنجہ ّزمائی کی جائے ۔بعدازاں کبار صحابہ کے احساس دلانے پر پرجوش مجاہدوں کواپنی تکرار پرندامت ہوئی توبدلی ہوئی صورت حال سے حضور صلى الله عليه و سلم کوآگاہ کردیاگیا۔حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔'کسی نبی کے لیے مناسب نہیں کہ زرہ پہن کر پھر اتاردے ،جب تک کہ اللہ تعالی حکم نہ دین ۔' ۳

اسلامی ریاست میں شورائی نظام ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے ۔عالم ، فاضل ،متقی وپرہیز گار،صاحب الرائے اورپر اعتماد شخصیات کی مشاورت سے استفادہ کرنا چاہیے ، کیوں کہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نہایت دیانت داری سے رائے قائم کریں گے ۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نےشورا/ی طریق کار کی ان الفاظ میں توصیف کی ہے ۔ 'اوراپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں ۔' ۴

اس بات کی اہمیت مزید دو چند ہوجاتی ہے،جب اس پہلی کمیونٹی کی رہنمائی خود نبی کریم صلى الله عليه و سلم کررہے ہوں اورآپ صلى الله عليه و سلم کے بارے میں تسلیم کیاجاتاہے ہے کہ آپ صلى الله عليه و سلم کواہش نفس سے منہ سے بات نہیں نکالتے ہیں ۔یہ (قرآن )تو حکم خدا ہے ،جو(ان کی طرف )بھیجا جاتاہے۔۵ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے اپنی رائے پر اکثریتی رائے کوفوقیت دی تھی ۔اس لیے انھیں اسی فیصلے پر عمل کرنا تھا، جس پر وہ باہم مشاورت اوراللہ پر اعتماد کرکے پہنچے تھے ۔اس کے بعد حضور صلى الله عليه و سلم کسی قسم کی تبدیلی کے حق میں نہ تھے ۔اس کاپہلا سبب تو یہ تھا کہ اکثریتی رائے کو دوسرے لوگ بھی تسلیم کرلیں اوردوسرے یہ کہ اگر قائد کسی انفرادی رائے یاخیال کے پیش نظر اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتاہے تویہ بات اس کی قوت فیصلہ کے خلاف جاتی ہے ۔تیسرے قیادت کی طرف سے تذبذب کا اظہار پیروکاروں میں خوف وہراس اوربے یقینی کاباعث بن سکتاہے ۔مزید برآں رسول پاک صلى الله عليه و سلم اپنا فیصلہ تبدیل کرلیتے اورمدینہ میں قلعہ بندہوکر وفاع کرتے تو آپ صلى الله عليه و سلم اورآپ کے حابہ کے متعلق مخالفانہ رائے کاظہا رکیاجاتا۔اس سے الگ ، کھلے میدان میں لڑی جانے والی جنگ کے مقابلے میں دفاعی حکمت عملی کم تر فوقیت کی حامل ہوسکتی تھی اور اس بات سے کچھ لوگ عدم اطمینان کا شکارہوسکتے ہیں۔یہ بھی تھاکہ ان میں سے بعض گلہ گزار ہوتے ۔ واضح رہے کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے ایک ایک عمل اورایک ایک ادا میں امت مسلمہ کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔مذکورہ بالا اقدامات اس رویے کو ظاہر کرتے ہیں ، جن کااظہار آپ صلى الله عليه و سلم نے جنگ سے پہلے کیا تھا اور فرمایا تھا کہ نبی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ زرہ پہننے کے بعد اُتاردے.