پیش لفظ

شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

اسلام اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ مکمل نظام زندگی ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔جس قدر متنوع شعبہ جات ہیں اسی قدر اسلامی نظام اس کے حل پیش کرتا ہے۔اور محض بنی نوع انسان کی دنیا نہیں بلکہ دنیا و عقبیٰ دونوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔اسلام کے اہم اہداف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو انسانیت کے معراج پر پہنچا دیا جائے۔اور اسے احسن تقویم میں کامل انسان بنایا جائے۔جب ہم ایسے معاشرے کا تصور کرتے ہیں جس کے افراد انسانیت کا کامل نمونہ ہوں تو پورے کا پورا معاشرہ ہی کمال کے درجے پرفائز نظر آتا ہے۔اور ایسے افراد بلاشبہ آسمانی مخلوق یعنی فرشتوں سے بھی بہتر ہوں گے۔اور اس طرح کے تربیت یادفتہ لوگ ہی ہیں جو اس دنیا سے جانے کے بعد ابدی نعمتوں میں رہیں گے۔اس قسم کے لوگوں کی مثالیں اسلامی معاشرہ میں قرون اولیٰ سے لیکر اب تک چلی آرہی ہیں اور ان کی اقتداءاور نقل کی جاسکتی ہے۔

البتہ اگر ہم موجودہ دور کا جائزہ لیں تو ہما رے سامنے یہ بات آتی ہے کہ جو لوگ بھی اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ نہ تو اسلام کو مکمل طور پر سمجھ سکے ہیں ،نہ ہی تبلیغ کا حق ادا کررہے ہیں اور نہ ہی ان کی اپنی زندگیاں اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں۔اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام اللہ کا پسندیدہ اوریگانہ دین ہونے کے باوجود غیر مسلم اس کو اس نظر سے نہیں دیکھتے اور اسلام کے دین الٰہی ہونے کے باوجود اس کو دین الٰہی نہیں سمجھتے۔

اسلام کے معانی، احکام اور متنوع مناہج سمجھنے کے لیے قرون اولیٰ سے لیکر آج تک مطالعہ ہور ہا ہے ، نت نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں اور اسلام کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے بحث مباحثے ہو رہے ہیں ۔جن میں اہل علم بھی شریک ہوتے ہیں اور عوام الناس بھی۔اسلام کے متنوع موضوعات میں سے ایک موضوع جہاد فی الاسلام بھی ہے۔دراصل جہاد سے مراد جدوجہد اور کوشش کرنا ہے؛ اس معنی کے لحاظ سے مسلمان مرد خواتین ،نوجوان بوڑھے سب کی ذمہ داری ہے کہ جہاد کریں ۔حالات و واقعات کے مطابق جہاد کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں ۔کبھی تو جہاد فرض ہو جاتا ہے ،کبھی واجب اور کبھی مباح ہوتا ہے۔

حدیث شریف کی روشنی میں جہاد کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک جہاد نفس کے خلاف ہوتا ہے اور یہ جہاد اکبر کہلاتا ہے۔ اور دوسر ا جہاد وہ ہے جو دشمنوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے عبارت ہے اسے جہاد اصغر کہتے ہیں ۔جہاد اصغر کے موضوع پر قرون اولیٰ سے اسلام دشمنوں کے ساتھ علمی سطح پر بھی بحث مباحثہ جاری ہے۔اور ان کا اعتراض یہ ہے کہ ایسا نظام جو انسانیت کو اخلاقی کمال پر پہنچانے کا دعویٰ کرتا ہے وہ نظام اپنے اوپر ایمان نہ لانے والوں کو قتل کرنے کا حکم کیسے دیتا ہے۔عورتوں کو گرفتارکرنے ،کھڑی فصلوں کو تباہ کرنے اورنسلوں کو ختم کرنے کا حکم کیسے لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگریہ لوگ ذر ا گہرائی سے غور کریں ،انصاف سے کام لیں اور اسلامی تاریخ کا مطا لعہ کریں تو دیکھیں گے کہ یہ تنقید کس قدر غلطی پر مبنی ہے۔انہیں معلوم ہو جائے گاکہ یہ ایسا نظام ہے جو انسان کو بہت قلیل وقت میں انسانیت کی حقیقی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام صدر اول سے لیکر اس وقت تک اپنے دشمنوں کے ساتھ نزاعی کیفیت میں ہے۔اور بوقت ضرورت اسلام قوت سے اپنا دفاع بھی کر تا ہے۔ اسلام اپنے آغاز ہی سے چاروں طرف سے دشمنوں کے حصار اور نرغے میں تھا۔ اس کے لیے پھیلنا پھلنا مشکل تھااوراس حصار کو توڑنے کے لیے مسلح جدوجہد تو ضروری تھی۔اپنے موقف کی بیرونی دنیا میں وضاحت کے لیے اسلام کو مجبورًا جنگ و جدل کا راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ باہر نکل کر دنیا کو اپنی حقیقت بتا سکے۔اسلام اپنے صدراول میں ایک طرف یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے حصار میں تھا تودوسری طرف بیرونی مشرک رومی اور ایرانی بھی اس کو اپنے لیے چیلنج سمجھ رہے تھے ۔

ایک طرف مذہبی تعصب(جیسا کہ آج بھی ہے) اور دوسری طرف یہ اعتراض کہ نبی نے ظاہرہونا ہی تھا تو یہود ونصاریٰ میں کیوں نہیں ظاہر ہوااور پھر مادی مراعات اور ذاتی منفعتوں کے ختم ہو جانے کے ڈر اور دیگر اسباب کی بنیاد پر اسلام سے بدترین دشمنی چل نکلی۔

دوسری جانب اہل عرب کی مذہبی اخلاقی اور معاشرتی حالت بھی ایسی نہ تھی کہ اس پر رشک کیا جاسکے۔اسلام کے ساتھ دشمنی کی وجوہات میں سے کچھ وجوہات یہ بھی تھیں :قبائلی تعصب ،باطل عقائد کی اندھی تقلید، چیزوں کے اچھا برا ہونے پرپہلے سے ہی حکم لگانا،معاشرتی بگاڑ، یہودیوں کا اکسانا، دینی احکام کے نفاذکی مشکلات، بدو اور اعرابی جو اسلام کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھے تھے وغیرہ۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کے زیادہ تر غزوات اسی طرح کے مشرکین اور بت پرستوں کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے۔

جہاں تک جزیرة العرب سے باہر رومیوں اور ساسانیوں کے ساتھ مقابلہ کا تعلق ہے تو وہ اس وقت شروع ہوا جب اسلام جزیرہ میں اقتدار حاصل کر چکا تھا۔اور روز بروز پھیل رہا تھا۔اس پھیلنے کی وجہ سے دشمن کا پریشان ہوناطبعی امرتھاکیوں کہ جو لوگ اپنی عقل کو محض دنیوی زندگی کے مفادات کی حد تک استعمال کرتے ہیں اور مادی فائدوں کو ہی دنیوی زندگی کی اساس سمجھتے ہیں انکی دشمنی فطری بات ہے جبکہ اسلام تو دنیا کی موجودہ حالت اور مستقبل کو بھی سرے سے تبدیل کرنے کے لیے آیا تھایہ تو ایک انقلاب عظیم تھا۔

مسلمانوں نے کبھی(چاہے صدر اول کا زمانہ ہو یا بعد کے زمانے ہوں )جہاد کے دوران کسی پر ظلم نہیں کیاکسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔کھیتوں اور سبزہ زاروں کو نقصان نہیں پہنچایا،شہروں اور آبادیوں کو نقصان نہیں پہنچایا، مقابلہ کرنے والوں کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کیااس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم (صلى الله عليه و سلم)کی غزوات سے بھرپور ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں دونوں طرف مقتولین کی تعداد ۴۰۰سے زیادہ نہیں ہے۔ڈاکٹرمحمد حمیداللہ نے اپنی کتاب غزوات الرسول میں یہ تحقیق کی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی عہد جو ۹ سوسال پر محیط ہے،اس میں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام مسلح جدوجہد کی اجازت دیتا ہے لیکن اس جہاد کی درج ذیل صورتوں میں اجازت ہے:

۱ ۔ مسلمانوں کے دین جان مال اور نسل کی حفاظت کے لیے۔

۲ ۔آزادی فکر کی حفاظت کے لیے۔

۳۔باہمی معاہدات پر عمل کرانے کے لیے۔

۴۔ مسلمانوں اور ذمیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے۔

اس سے زیادہ صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ۔قرآن کریم تو انتہائی سخت حالات میں بھی جنگ سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

” وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجنَحۡ لَھَا وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ۔ “ (الانفال :۶۱)

”اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاﺅاور اللہ پر بھروسہ کرو۔“

اور فرمایا:

” یآَٰیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۔“ (البقرہ :۰ ۸ ۲)

”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ۔“

اسلام تو متعین شرائط کے ساتھ جنگ کی اجازت دیتا ہے تا کہ اسلام عالمی امن کا ذریعہ بن سکے۔

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کو یہ حقائق سمجھانے سے قاصر رہے ہیں ۔ جن حقیقتوں کو ہم نے یہاں نظری طور پر بیان کیا ہے ان کو مسلمان چودہ صدیوں سے عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور تاریخ نے ان کو محفوظ کر لیا ہے۔کاش کہ ہم ایک بہترین مورخ کے اسلوب میں ان حقائق کو بیان کر سکتے ۔جو مسائل ہم نے اوپر ذکر کیے ہیں اور جو نہیں کیے ان سب کی وضاحت کرنا مسلم مفکرین کی بھاری ذمہ داری ہے اور جو کتاب ہمارے سامنے موجود ہے (روح جہاد اور اس کی حقیقت) ہم امید کرتے ہیں کہ شاید کسی حد تک یہ اس خلا کو پر کر سکے۔

ِِِروح جہاد اور اس کی حقیقت ،اس قدر وسیع موضوع ہے کہ مختلف جہات سے اس کی وضاحت ہو سکتی ہے۔جیسا کہ مصنف نے پہلی فصل تمہید میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔اگر ہم اس موضوع کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیں تو اس کام کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی ،اگرچہ ان موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں ،اور ترجمہ بھی ہو چکی ہیں ۔اس بنا پر اس کتاب میں جہاد کے متعین موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔جیسا کہ ہمارے استاد محترم نے تمہید میں اس کاذکر کیا ہے۔اسلام کا معنی ہی سلامتی ہے جنگ نہیں ۔ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ جنگ تو اپنے دفاع کے لیے ،ظلم کے خاتمہ اور دعوت وتبلیغ کی آزادی کے لئے لڑی جاتی ہے۔

یہ کتاب ان مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے جن کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔

اسکی فصلیں درج ذیل ہیں :

وظائف الجہاد یعنی جہاد کے میدان اور جہات، جہاد کا ما حصل،جہاد کے راستے کی رکاوٹیں ، عشاق جہاد یعنی وہ لوگ جو جہاد کے مید ان میں دور حاضر کے لیے نمونہ ہیں ،ہمارے موقف کی تائید کے لئے کافی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے والے کے لیے مذکورہ موضوعات پر یہ کتاب کافی ہو گی ۔

”روح جہاد اور اس کی حقیقت“ چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔

۱۔ پہلی فصل میں کتاب و سنت کی روشنی میں جہاد کے مفہوم کو واضح کیا گیا ہے۔ نیز جہاد اصغر اور جہاد اکبر کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔اس موضوع پر اچھی خاصی تحقیق کی گئی ہے اور اس کی وضاحت کی ضرورت بھی تھی کیونکہ ان دونوں اصطلاحات کو مختلف معانی پہنا دیے جاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے میں گمراہی کا خطرہ رہتا ہے۔مثلاً بعض لوگ کہتے ہیں کہ جہاد اکبرہی جہاد ہے،اور کوئی جہاد نہیں ہے۔وہ صرف مجاہدہ نفس کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور لوگوں کو دعوت حق دینے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنی دنیا میں مگن ذکر واذکار کرتے رہتے ہیں ۔ جبکہ ایک دوسری انتہا یہ ہے کہ بعض لوگ جہاد اصغر کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور دشمن کے ساتھ براہ راست جنگ کے علاوہ کسی کام کو جہاد نہیں سمجھتے یہاں تک کہ اس مبالغہ کی وجہ سے فرض عبادات تک چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔

اس لیے دونوں جہادوں کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے۔طوالت کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ اس میں بے جا طوالت نہیں بلکہ موضوع کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے اس کی ضرورت تھی تاکہ دور حاضر کا قاری قرون اولیٰ کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اس کو نافذ کرے۔اسی مقصد کے لیے اس فصل کو باقی فصلوں سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔

۲۔دوسری فصل جہاد کے میدان اوراور جہات ہے۔

یعنی دنیوی لحاظ سے جہاد کی مختلف جہات کا تذکرہ ہے۔مثلاً جہاد کی اہمیت کے موضوع پر ”جہاد زندگی کا سر چشمہ“ کے عنوان سے لکھا ہے ۔ مصنف اس کی اہمیت کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب سے ہم نے جہاد ترک کر دیاتو ہمارے اندر فرقہ بندی اور تخریبی کارروائی نے پروان چڑھنا شروع کردیا۔ دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر دھڑے بندیاں ، فساد ، گروپ بازی وغیرہ جیسی بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں اور یہ انہی جہنمی پودوں حنظل اورزقوم کے زہریلے پھل ہیں جو جہنمی بیج سے پروان چڑھے ہیں ۔ جو بیج اس دور میں مسلمانوں میں ڈال دیے گئے ہیں ۔اس پژمردہ حالت سے نکلنے کا جہاد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔جہاد مومن کی زندگی کا اعلیٰ مقصد اورروایت ہے اور اس کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دینا چاہیے۔

۳۔ تیسری فصل ”جہاد،مومن اور کائنات کا تعلق“ کے عنوان سے لکھی گئی ہے۔اس میں ثابت کرتے ہیں کہ مومن پر جہادکی یہ ذمہ داری اس لیے ڈالی گئی ہے کہ زمین پر ایسی حاکمیت قائم کی جائے جو حق، آزادی اور انصاف پر مبنی ہو۔اور مومنین کے فرائض میں شامل ہے کہ اس طرح کی حاکمیت اور اقتدار قائم کیا جائے۔یا اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس حاکمیت کا قیام اللہ تعالیٰ کے طے شدہ منصوبہ میں شامل ہے لیکن مومنین کے ہاتھوں سے اس نے روبہ عمل آنا ہے۔اس لحاظ سے ہر مومن کو یقین رکھنا چاہیے کہ یہ کام اس پر واجب ہے، اور اسی نے اسے انجام دینا ہے۔یعنی اس کام کو کرنے کے لیے اس کو فکری طور پر بھی سر گرم رہنا ہو گااور حقیقی زندگی میں اس فکر کو نافذ کرنے کی سعی کرنا ہو گی۔اس فصل میں اسی موضوع کو نبی (صلى الله عليه و سلم) کے عہد سے ملانے کے لیے انہوں نے حضرت انس بن نضرؓ اور براءبن مالک ؓ کی مثالیں بیان کی ہیں ۔

۴۔چوتھی فصل”جہاد کا ماحصل“اس فصل میں جہاد سے حاصل ہونےوالے فوائد کے علاوہ ان تباہ کاریوں اور مصیبتوں کا بھی ذکر ہے جو جہاد نہ کرنےکی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔

اس فصل میں اور اس طرح دیگر فصلوں میں بھی ان لوگوں کے لیے ہدایات ہیں جو دعوت الی اللہ کی عظمت کو محسوس کرتے ہیں۔بلا شبہ ان ارشا دات کی بہت بڑی اہمیت ہے اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب یہ ارشادات منصہ شہود پر آئے ۔یہ ۱۹۸۰ءکا وہ زمانہ تھا جب اصل دہشت گردی نے مسلمان ممالک پر اپنے استبدادی پنجے گاڑھنے کا آغاز کیا۔ جب دہشت گردی ہمارے ملکوں میں دندناتی پھرتی تھی اور اندرونی و بیرونی خلفشارنے فتنوں کو مزید بھڑکا دیاتھا۔ ہر روز بیسیوں نوجوان قتل ہوتے تھے۔امن وامان کے بارے میں بات تک کرنا عبث تھا۔ نہ تو جان سلامت تھی نہ مال۔تجارتی سرگرمیاں ماندپڑ گئی تھیں۔ دوکانداروں کا دوکانوں پر جانا محال تھا اورجو چلے جاتے خطرات کے پیش نظر بند ہی رکھتے۔ایسے حالات میں ہمارے استاد محترم نے جامع مسجد بور نوا (ازمیر)میں لوگوں کی امیدوں کو چار چاند لگائے اور اس قدر جامع ارشادات فرمائے جنہوں نے ناامید روحوں میں ایک جذبہ پیدا کر دیا۔بلاشبہ اس علاقے میں امن و سلامتی اور نظام کی بحالی ان کی کوششوں اور نیت خالص کامنہ بولتا ثبوت ہے۔

آج جو بھی انارکی ،لاقانونیت،طوائف الملوکی اور دہشت گردی ہمارے ملک میں ہے یہ دراصل باہر سے دشمن کی پھیلائی ہوئی ہے۔سامراجی قوتیں چاہتی ہیں کہ اس جنت نظیر ملک کو جہنم بنا دیںلیکن وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔لاقانونیت اور دہشت پسند اختلافات اور بد امنی کے بیج بو کر ملک کو نو آبادی میں تبدیل کردیا جائے لیکن یہ تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں البتہ بیرونی طاقتیں یہی چاہتی ہیں۔ وہ تو چاہتی ہیں کہ اس ملک پر قبضہ کیا جائے۔نو آبادی بنا کر اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے اور جو دہشت پسند بد نظمی پھیلا رہے ہیں، یہ سب انہیں سامراجی قوتوں کے ایجنٹ ہیں(یہاں دہشت گرد سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں امریکہ ، مغربی طاقتیں اور مغربی میڈیا دہشت گرد کہتا ہے۔)

اللہ کے حکم سے یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیںہوںگے۔اور ان کی بری چال خود ان کو لے ڈوبے گی۔

یا درکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں اور بد نظمی پھیلانے والوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی صورت میں ہم اپنے ہدف سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔

سامراجی قوتیں بھی تو یہی چاہتی ہیں ۔انہیں خطرہ ہے کہ ایسے دن نہ آجائیں کہ جب مسلمانوں کی قوت و شوکت ایک بار پھر لوٹ آئے۔جب ایسا ہو گا تو دہشت گرد ایسے بھاگیں گے جیسے جنگلی گدھے شیروں سے بھاگتے ہیںجیساکہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ (سورة المدثر:۵۰ ۔۵۱)

ایک اور بات انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان کو اگر جہاد کرنے یا بدامنی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہو تو ملکی فوج کے ساتھ مل کر یہ کام کرے۔کسی بھی ظلم اور بیرونی یا اندرونی یورش کا خاتمہ کرنے کے لیے اسے ملکی سکیورٹی فورسزکے ساتھ مل کر کوشش کرنا چاہیے۔یہ اس پر واجب ہے ۔اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ اس کو بھرتی کرے اور اس سے کا م لے۔یہ کام حکومت کے کام میں اس کی مدد شمار ہو گا۔اگر کوئی حکومتی سطح سے ہٹ کر ازخود یہ کام کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گاکہ اس نے ایک انارکی کو مٹانے کے لیے دوسری انارکی پیدا کر لی۔مومنین کو ایسی نازک صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے۔دہشت پسندی اور لاقانونیت کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس کوجڑوں سے ختم کرنا ہے۔

اس حدیث کاتذکرہ کرنا ضروری ہے جو استا دمحترم نے بیان کی۔ابوداﺅد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس میں چودہ صدیاں گزرنے کے باوجو ددور حاضر کے لیے بے پناہ دروس و ہدایات ہیں۔رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا: جب تم نے بیع عینہ شروع کردی (ےعنی ایسی تجارت جس میں کوئی چیز وقت مقررہ کے لیے بیچ کر کم قیمت پر اس سے دوبارہ خریدنا شامل ہے۔)اور تم نے بیلوں کی دمیں پکڑ لیں اور کھیتی باڑ ی میں مشغول ہو گئے اور جہاد کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے اوپرذلت و مسکنت مسلط کر دے گا جو اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہ آﺅ)

۵۔پانچویں فصل کا عنوان ہے جہاد کی راہ میں رکاوٹیں ۔اس فصل میں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے،مسلمانوں میں موجود بعض کمزویوں کا ذکر ہے۔اس فصل میں بعض ایسے مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے جو امت میں موجودہیں یا فطرت انسانی کی وجہ سے پائے جاسکتے ہیں ۔انسانی فطرت کی بعض گمراہیوں کا تذکرہ ہے جو کسی بھی وقت انسان کو بگاڑ کی طرف لے جاتی ہیں جیسے کہ خواہشاتِ نفس اور آرام طلبی۔ اس میں کوئی بحث نہیں کہ آرام طلبی اور مرغوباتِ نفس میں غرق ہو جانا ایسا برا جراثیم ہے جو روح جہاد کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ۔

یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے ان جذبات، احساسات اور قوت کو اس رب کے راستے کی طرف بلانے کے لیے استعمال کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے اور اس کی رضا حاصل کرے۔ اگر ایسا کرے گا تو دین بھی غالب آئے گا اور انسان بھی کامیا ب ہو گا۔اس فصل میں انہی مذکورہ بالا رکاوٹوں کا مختلف جہات سے تذکرہ کیا گیا ہے۔اور اس میں قرون اولیٰ کے خیرالناس کی ایسی مثالیں ذکر کی ہیں جن سے ہماری امیدوں کو جلامل سکتی ہے اور ہمارے ارادے اور پختہ ہو سکتے ہیں ۔

۶۔چھٹی اور آخری فصل کا عنوان ہے ”عشاق الجہاد“۔ اس فصل میں ان پاک طینت صحابہ کرام کی زندگیوں سے مثالیں لی گئی ہیں جو ہمارے لیے ہرلحظہ مشعل راہ ہیں ۔چونکہ صحابہ کی زندگیاں ہمارے لیے فخر و افتخار اور اعزا زو اکرام کی علامت ہیں ۔اس فصل میں بہتر تویہ تھا کہ ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا جاتا جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وقف کر دی تھیں لیکن اس طر ح کی مختصر کتاب میں عملًا ان کا تذکرہ نہیں ہوسکتا تھا۔اس لیے مصنف نے چند صحابہ کرام کو منتخب کرکے جہاد کے بارے میں ان کی آراءبیان کی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) کی سیرت سے جہاد کی مثالیں بھی دی ہیں ۔روح جہاد اور اس کی حقیقت ،اور اس طرح کی دیگرکتب جیسے ”نورابدی“ اور ”قدر قرآن و سنت کی روشنی میں “ ہمارے استاد محترم محمدفتح اللہ گلین نے لکھی ہیں ۔ یہ تمام وہ وعظ ہیں جو آپ نے ۱۹۸۰ءسے پہلے ارشاد فرمائے۔یہ کتاب انہی وعظوں اور خطبوں پر مشتمل ہے جوانہوں نے بورنوا ضلع ازمیر میں دیے۔ ان خطبات کو جمع کر کے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے۔پہلے ان خطبوں کو ٹیپ میں ریکارڈکیا گیا پھر ان کو کتابی شکل دی گئی۔استاد محترم نے بعد میں خود ضروری تصحیح کے بعد ان خطبات کو جریدہ الزمان میں قسط وار شائع کرادیا اس کے بعد جب ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کرانے کا موقع آیا تو آیات کریمہ اور احادیث نبویہ کو تحقیق و تخریج کے بعد عربی متن کے ساتھ کتاب میں شامل کرلیا گیا۔کتاب روح جہاد اور اس کی حقیقت آپ کے سامنے ہے۔اور ہم آخر میں اپنے استاد محترم کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے تاکہ وہ مزید اسی قسم کی کتب ہماری تربیت کے لیے لکھ سکیں نیز ہم ان سب حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس عظیم خدمت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی اور حصہ لیا۔