جہاد بلند جذبہ اور عظیم احساس

مومن کا سب سے بلند اور اعلیٰ جذبہ،جذبۂ جہاد ہی ہے اور جس شخص میں جذبہ جہادنہ ہو وہ زندہ انسانوں میں شمار نہیں ہو گا۔بلکہ اس میں اورمُردوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ وہ تو مردوں کی طرح ہے۔ایسے فرد کی طرف اللہ تعالیٰ رحمت کی نظر نہیں کرتاکیونکہ جو شخص دنیا میں اللہ کے نام کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتااس کو زندگی کا مقصد نہیں بناتااس میں اور جمادات میں کوئی فرق نہیں ۔

انسان میں جس قدر جہاد کا جذبہ اور روح ہو گی اسی قدر اس میں زندگی بھی ہو گی کیونکہ انسان اپنے آپ کو، اپنے اہل خانہ کو اور امت کو جہاد کے ذریعہ سے موت سے بچا سکتا ہے۔اس لیے یہ کہنا بجا ہو گا کہ جہاد کہ زریعے حقیقی زندگی مل سکتی ہے۔بلاشبہ سب سے بلند، اعلیٰ اور ارفع قدم وہی ہے جو جہاد کے لیے اٹھے۔نبی کریم (صلى الله عليه و سلم)کی اصلاحات اور تربیتی خصائص پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه و سلم) نے صحابہ کی جماعت کے دلوں سے موت کے ڈر کو ختم کر دیاتھا۔حق کے راستے میں جو چیزانہیں درست نظر آئی اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔اس جماعت صحابہ نے زندگی زندہ دلوں کی طر ح بسر کی۔ہمیشہ جہاد کے لیے سوچنے والی جماعت کو دائمی زندگی کا راز جہاد ہی میں نظر آیا۔ وہ دنیا میں بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ ان کے اعمال نامے بند نہیں ہوئے اور تا قیامت دنیا ان کی نیکیوں کو یاد کرتی رہے گی۔اور ان کے درجات بڑھتے رہیں گے کیونکہ انہوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اس دنیا میں بھی نام روشن کیااور آخرت میں بھی اپنا مقام پایا۔انہوں نے ایمان کی روشنی پھیلانے میں ہر قسم کی مشکلات برداشت کیں ۔اگرچہ یہ پاک طینت جماعت اس دنیا سے جا چکی ہے لیکن نسل در نسل دنیا ان کے نیک کارناموں کو یا د کرتی اور ان سے سبق حاصل کرتی ہے۔اور قیامت تک ان کو ان کی نیکیوں کا ثواب ملتا رہے گا۔

جب انسان اخروی زندگی پر کامل ایمان لے آتا ہے تو اس کا اوڑھنا بچھونا جہاد بن جاتا ہے۔اس کی زندگی کا مقصد اور پہلی اور آخری خواہش جہاد ہوتی ہے۔صحابہ کرام کے اندر جو جذبہ اور احساس پروان چڑھاوہ یہی فہم و ادراک تھا ۔آپ دیکھتے ہیں کہ بدر کی جنگ میں شرکت کے لیے صحابہ بے چین تھے۔ جو بچے چھوٹے تھے ایڑیاں اٹھا کر اپنے آپ کو بڑا ظاہر کر رہے تھے اور جن کو کم عمری کی وجہ سے اجازت نہ ملی وہ کس قدر غمگین ہوئے۔

وہ کہتے ہم تو مر د ہیں ہمیں رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے خواتین کے ساتھ کیسے ملا دیا۔جہاد مردوں کا کام ہے تو ہم خواتین کی طرح گھروں میں کیوں پڑے رہیں ۔ اس عظیم جذبہ سے سرشار صحابہ کی خوش بخت جماعت بدر کی جانب گامزن ہوئی تاکہ انسانیت کی تقدیر ہی کو بدل کر رکھ دیا جائے۔اس سے پہلے مسلمان محض دعوت وتبلیغ تک ہی محدود تھے۔

مسلمانوں اور کافروں کا مقابلہ ابھی تک نہ ہو ا تھاجب رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) کو قریش کے قافلے کی خبر ملی رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) نے لوگوں کو جمع کر کے قریش کے بارے میں مشورہ کیااور قریش کے عزائم سے بھی آگاہ کیا۔اس مشاورت میں حضرت ابو بکرصدیق ؓکھڑے ہوئے انہوں نے بھی تائید کی، پھر مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یارسول اللہ جہاں اللہ نے حکم دیا ہے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔خدا کی قسم ہم اس طرح بالکل نہیں کہیں گے جیسے موسیٰ (علیہ سلام) کی قوم نے ان سے کہا تھا:

” فَاذھَب اَنتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُونَ۔“(المائدہ : ۲۴)

”جاﺅ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔“

بلکہ ہم کہیں گے جاﺅ آپ اور آپ کا رب دونو ں لڑو ہم بھی آپ کے ساتھ لڑیں گے۔اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کربھیجا ہے اگرآپ برک الغماد (حبشہ کا یک شہر)تک بھی لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ یہ سن کر رسول اللہ نے ان کی تعریف کی اور ان کے لئے دعا کی۔ آپ نے پھر کہا لوگو مجھے مشورہ دو (شاید آپ انصار سے مشورہ لینا چاہتے تھے) کیوں کہ انصار تعداد میں سب سے زیادہ تھے اس پر انصارکے سربراہ حضرت سعد بن معاذ نے کہا: یاد رسول اللہ شاید آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔آپ (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا ہاں ۔حضرت سعد نے کہا : ہم آپ پر ایمان لائے ہیں آپ کی تصدیق کی اور جو چیز آپ لے کر آئے ہیں اس کے بر حق ہونے کی شہادت دی، اس پر ہم نے آپ سے عہد و پیما ن کیے کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔آپ نے جو ارادہ کیا ہے کر گزریے۔اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے اگر آپ سمندر میں بھی داخل ہوں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم میں سے کوئی پیچھے رہنے والا نہیں ۔ہم کل دشمن سے مڈبھیڑ ہونے سے نہیں ڈرتے۔ہم لوگ جنگوں میں صبر کرنے والے ہیں اور دشمن سے مڈبھیڑکے وقت سچے جذبے کے ساتھ لڑنے والے ہیں شاید آپ کسی اور مقصد کے لیے نکلے تھے اور اللہ نے حالات دوسری طرف موڑ دیے ہیں ۔آپ وہ کریں جس کا اللہ نے حکم دیا ہے جس کے ساتھ چاہیں تعلق جوڑ دیں یا توڑ دیں جس کے ساتھ چاہیں دشمنی کر لیں اور جس کے ساتھ چاہیں صلح کر لیں اور ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں ۔حضرت سعد کی تقریر سے حضرت محمد(صلى الله عليه و سلم) بہت خوش ہوئے۔پھر فرمایااللہ کے نام سے نکلو اور خوشخبری سن لو اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ کسی ایک گروہ کا وعد ہ کیا ہے۔اللہ کی قسم میں دشمن کی قتل گاہوں کو گویاآنکھوں کے سامنے دیکھتا ہوں ۔(۲۷)

صحابہ کرام کے اندر اس قدر جوش و ولولہ تھاکہ جو قریش بھاگ کر مکہ گئے انہوں نے جا کر تبصرہ کیا کہ ان لوگوں نے ہمارے اوپر اس قدربھرپور وار کیے گویا کہ ہم پہلے ہی ان سے معاہد ہ کر چکے تھے کہ ہم ہاتھ کھڑے کر لیں گے تم مارتے رہنااور ہمیں گردنوں پراور ایک ایک جوڑ پر مارتے تھے

جہاد اس وقت تک مسلمانوں پر مسلسل فرض رہتا ہے جب تک دین اسلام کا غلبہ مکمل نہ ہو جائے اور مسلمان ذلت اور غلامی سے نجات نہ حاصل کر لیں ۔اگر مسلمانوں میں ایک گروہ یہ فریضہ ادا کرنے کے لیے موجود نہ ہو جس کا قرآن میں ذکر ہے تو یہ اسلامی طرز زندگی نہیں ہے۔

اگر انفرادی طور پر کوئی اسلامی طرز زندگی پر عمل کر رہا ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔اور جب مسلمان جہاد کاعظیم فریضہ ترک کر دیتے ہیں تو ایڑیوں کے بل پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں ۔ ذلت ان کے نصیب میں آجاتی ہے۔اگرچہ دنیوی لحاظ سے فضا سے اوپر ستاروں پر کمند یں کیوں نہ ڈال لیں ۔محض ترقی، ٹیکنالوجی ،ملیں اور کارخانے مسلمانوں کو ذلت کے جہنم سے نہیں نکا ل سکتے۔جہاد فرض کفایہ ہے۔اگر اس کفایہ کو کوئی جماعت ادا نہ کر رہی ہوتو سب پر فرض عین ہو جاتا ہے۔اور ہر شخص اس کے بارے میں اللہ کے ہاں جوابدہ ہے۔ اگر اس فریضہ کو بطور احسن ادا نہ کیا جائے جیسا کہ آج کل کے دور میں ہو رہا ہے۔ ملکی سطح پر منظم جہاد کابندوبست کرنا بھی لازمی ہے۔کبھی تو فوج کو جہاد کا حکم ملتا ہے۔اور کبھی ملک کے اندرونی امن وا مان کی بہتری کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ہر دو سطح پر فوج اندرونی یا بیرونی طور پر جہاد کرتی ہے۔امت کے لیے ساری دنیا کے امن و امان قائم کرنے کے لیے جہاد کرنا ضروری ہے۔کیونکہ یہ امت امت وسط ہے اور اللہ تعالیٰ نے ملکوں اور قوموں کے درمیان توازن کے لیے اس کو عظیم ذمہ داری پر مامور کیا ہے۔زمین پر ایک ایسے لشکر کا ہونا ضروری ہے جو اعتدال و توازن کو قائم کرنے کی ذمہ داری کو سمجھتا ہو اور یہ انتہائی اہم اور عظیم کام ہے۔ زمین پر اعتدال اور توازن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک امت اس عظیم فریضہ کو ادا کرنے کا بیڑا اٹھا نہ لے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ دوتین صدیوں سے مسلمان دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونے بنے ہوئے ہیں ۔ انہیں توازن قائم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمان عالمی سطح پر اعتدال و توازن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے عاجز ہیں ۔مسلمانوں کی مسجدیں گویا مساکین اور فقراءکے ٹھکانے ہیں ان کے مراکز محروموں کی آماجگاہیں ہیں اور ان کے مدارس مغربی تعلیم و ثقافت پڑھانے پر لگے ہیں ۔اس طرح ان کے مسائل حل کر رہے ہیں جیسے قرون وسطیٰ میں تھے۔یہ محروم اپنا فرض منصبی ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے کہ عالمی توازن میں اپنا وزن ڈال سکیں ۔

میں یقین سے کہتا ہوں اس وقت تک اسلام کے مطابق عمل ممکن نہیں جب تک کہ مسلمان دنیوی لحاظ سے بھی ترقی نہ کر لیں اور اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کا سا ایمان اپنے اندر نہ پیدا کرلیں اور تابعین عظام کی طرح عبادات واطاعت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط نہ کر لیں کیونکہ جو شخص اپنے زمانے کے معیارکے مطابق زندگی نہیں گزارتا اور موجودہ مسائل کے حل نہیں تلاش کر سکتا وہ اسلام کے نام پر کوئی کام کرنے کا اہل نہیں ۔

پوری امت کو یا کسی فردکو اسلامی عزت ووقار حاصل ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو اس عظیم کام یعنی جہاد کے لیے تیار کرے جو لوگ یا افراد اس عظیم ذمہ داری کو نہیں محسوس کرتے ان کواسلامی قدر و منزلت سے کوئی تعلق نہیں ۔

بلاشبہ جہاد ایک عظیم فریضہ اور بڑی ذمہ داری ہے۔ایک گروہ کو اس کے لیے وقف ہو جاناچاہیے جو ہمیشہ اس مقصد کے لیے چاک وچوبند رہے۔ اس فرض شناسی اور رات جگے سے امت ہر قسم کے خطروں سے محفوظ رہ سکتی ہے اور اندرونی اور بیرونی حملوں کا تندہی سے مقابلہ کر سکتی ہے، سرحدوں پر پہرہ دینے والی جماعت سیکنڈوں اور منٹوں تک یہ فریضہ انجام دینے پر برسوں کا ثواب حاصل کرتی ہے۔کس قدر خوش بخت ہیں یہ لوگ !ان کے نصیب میں بقاءو دوام لکھ دیا جاتا ہے حالانکہ ابھی تک وہ اس دنیا میں ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کواسی عظیم مقصد کی نذرکر دیاان کا کھانا پینا سونا جاگنا، اوڑھنا بچھونا، ثواب اور عبادت بن جاتا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ حسن اور جمال کی دو قسمیں ہیں ایک جو خودہی حَسَن ہوجسے حَسَن لعینہ کہتے ہیں اور دوسرا جو کسی دوسری چیز کی وجہ سے حسن ہو اسے حَسَن لغیرہ کہتے ہیں ۔اس تقسیم کے لحاظ سے جہاد حسن لغیرہ ہے۔یعنی یہ کہ جہاد بذات خود تو خوبصورت نہیں کیونکہ اس میں خون خرابہ و قتل و غارت ہوتی ہے لیکن جوچیز اس کو خوبصورت بناتی ہے وہ اس کے مقاصد اور نتائج ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاد اللہ کے حکم کی سربلندی کاذریعہ ہے۔ جہاد مومنین کو زمین میں توازن اور قوموں میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے قوت اور غلبہ دیتا ہے۔جہاد سے اسلام اور مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی کا سدباب ہوتا ہے۔جہاد سے مظلوموں اور کمزوروں کی داد رسی ہوتی ہے۔ان پہلوﺅں سے جہاد خوبصورت اور حسن ہے اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ جہاد کا حسن و جمال دین حق کی سر بلندی سے مشروط ہے۔

بلاشبہ مومن گھوڑے پر سوار ہوتا ہے، جہاز اڑاتا ہے، ٹینک چلاتا ہے، میزائیل استعمال کرتا ہے اور سب کام دین حق کی سر بلندی کے لیے کرتا ہے۔جہاد وہی مقبول ہے جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہو اور جوجدوجہد اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو بلکہ نفسانی خواہشات کے لئے، جاہلی غیرت کے لیے، خونی رشتہ کے لیے یا برادری ازم کے لیے ہوایسی جدوجہد جہاد نہیں ہوسکتی ۔ رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے جہاد کو بڑی ہی وضاحت سے ان کثافتوں سے پاک کرنے کے لیے فرمایا :

”مَن قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ العُلیَا فَھُوَفِی سَبِیلِ اللّٰہِ “

جو شخص اس لیے لڑے تاکہ اللہ کا دین سربلند ہو تو وہ فی سبیل اللہ ہے ۔

اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے دین کی سربلندی اورعَلمِ اسلام کو لہرانے کے لیے لڑائی نہیں کرتا اس کا جہاد اللہ کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے اس میں کوئی حسن و جمال نہیں ہے ۔ درحقیقت جہاد وہی ہے جو اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے ہو اور مجاہد وہی ہے جو اللہ کی رضا کے لیے اللہ کی زمین کو شرک کی تاریکی سے پاک کرنے کے لیے لڑتا ہے ۔ اس کے سامنے کو ئی خاص قطعہ زمین نہیں ہوتا۔ ہر بر و بحر پہاڑ و صحراءجنگل و بیاباں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے پار کرجاتا ہے یہاں تک کہ سمندر کے کنارے پہنچ کر بھی اس کا جذبہ یہی ہوتا ہے کہ اللہ کے پیغام کو اس کے پار لے جائے۔ جیساکہ حضرت عقبہ بن نافع رضی اللہ عنہ نے سمندر کے ساحل پر پہنچ کر کہا تھا اے میرے رب اگر یہ سمندر آڑے نہ آتا تو میں ملکوں کے ملک تیرے راستے میں جہاد کرتے ہوئے عبور کرجاتا۔

مجاہد اگر اکیلا کسی بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑ دیا جائے تواس کا جذبہ یہی ہوتاہے کہ کسی نہ کسی طرح اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے دور دراز نکل جائے اور کوئی دیگر راستے ڈھونڈے۔ اگر کوئی اور نہ ملے تو جنوں اور روحوں کو اللہ کا پیغام پہنچائے لیکن آرام سے نہ بیٹھے اور نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) کے قول کو سچا کر دکھائے کہ

”اَلجَھَادُ مَاضٍ اِلَی یَومِ القِیَامَۃِ “

جہاد روز قیامت تک جاری رہے گا۔

یہ حدیث شاید ایسے جذبہ رکھنے والے مجاہد ہی کے بارے میں ارشاد ہوئی ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول میں ہجرت کرنا چاہتا ہو ں آپ نے فرمایا :

”لاَ ھِجرَةَ بَعدالفَتحِ وَلَکِن جِھَاد وَنِیَّة “

فتح کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت ہے۔

فتح مکہ سے پہلے ہجرت کا ایک الگ معنی و مفہوم تھا اور وہ بھی جہاد ہی تھا لیکن فتح مکہ کے بعد ہجرت جہاد کے رنگوں میں سے ایک اور رنگ اختیار کرگئی ۔ اس لیے کہ ہجرت فتح سے پہلے جہاد کے زمرے میں نہیں آتی تھی لیکن جہاد ہی کے ذریعے ہجرت ہوتی تھی ۔ ہجرت کا وہ مفہوم جو اس وقت تک رائج تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے وہ مفہوم ختم ہو گیا تھا ۔ اب مومن جہاں بھی رہتا ہے وہیں جہاد کر سکتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر مؤمن اپنے ماحول کو سنوارے، اسے خوبصورت بنائے، وہاں سے شرک، بد اخلاقی اور بدعت کا قلع قمع کرے اور اگر کبھی حالات نے مکانی ہجرت کا تقاضا کیا تو اس کے لیے بھی تیار رہے۔