جہاد انبیاءکا فرض منصبی

جو شخص اللہ کی رضا اور خوشنودی اور دین کی دعوت دینے کی خاطرجان جوکھوں میں ڈال کر جہاد کافریضہ انجام دیتا ہے، وہ عام انسان نہیں بلکہ وہ عظیم مقصدکی خاطرزندہ ہے اور اس نے اپنی زندگی کا مقصدوہی بنا لیاہے جو انبیاءاوررسولوں کی زندگی کا مقصد ہے۔ ہم اس بات کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔

ہر انسان کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور ہر انسان زندگی گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے اور اس پیشہ کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں ۔ مثلاًحجام، بڑھئی، زین ساز یا کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے والا ۔ ہر ایک اپنی ضرورت اور مقصد کی خاطر اپنی تیاری کرتا ہے اور کام چلاتاہے اور اسی مخصوص کام کی بہتری کے لیے اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اہمیت کا خیال رکھتا ہے ۔ حجام حجامت ہی کے حوالے سے سوچتا ہے اور اسی کی بہتری کے لیے تگ و دو کرتاہے ،اسی طرح باقی سارے پیشے بھی ہیں ۔ اسی طرح ایوان کے سربراہ وزیر اعظم یا صدر کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور بالکل حجام کی طرح وہ بھی اپنے اغراض و مقاصد کے لیے سوچتے اور کام کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پیشے کی اپنی نزاکتیں ہوتی ہیں ۔ اسی تناظر میں ان کی اہمیت بھی ہوتی ہے ۔

چنانچہ نبوت ایک ایسا فریضہ ہے جس کے لیے اللہ تعالے نے اپنے انتہائی برگزیدہ بندے منتخب کئے ہیں ۔ ان کا کام اور فرض منصبی اللہ تعالٰے کی معرفت اور اس دین کی اشاعت ہے جو انہیں دے کر بھیجا گیا ۔ یعنی وہ اس انسان کو دائمی بہشت میں داخل ہونے کا راستہ بتاتے ہیں جو ایک گندے قطرے سے شروع ہوتا ہے اور ایک بدبودار جسم کی شکل میں ختم ہو جاتا ہے۔ ان انبیاءکی تعلیمات پر عمل کرنے سے وہ ابدی استقرار حاصل کرتا ہے،انتہائی بلند مقامات پر ہمیشہ کے لیے جگہ پاتا ہے اور اس سے اس کا دل اطمینان حاصل کرتا ہے ۔جو شخص ہمیشہ رہنے کا واقعی خواہش مند ہے، ایمان لانے کے بعد وہ ابدی آرام و سکون کے قریب تر ہو جاتا ہے ۔

نبیوں کی آمد کا مقصد لوگوں کو اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات سے آگا ہ کرنا، اس پر ایمان پختہ کرانا اور اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کی زندگی کی خوشخبری دینا ہے۔ اس دنیا میں جو لوگ نبوت کے احکام کی روشنی میں عمل کریں گے وہ اس فانی زندگی کے بعد ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں اور جلوے دیکھیں گے اور اسی زندگی میں انبیاءان لوگوں کو فانی زندگی کے بعد کے حالات بتاتے ہیں ا ور فنا کے بعد کی ابدی زندگی کے انداز اور اطوار کا حال بیان کرتے ہیں تاکہ نبی کا مخاطب فکری طور پر دوام و بقا پر ایمان لے آئے اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی عظیم کامیابی اور فتح کی طرف گامزن محسوس کرے۔

جو لوگ ایسے انسان کی ہمیشہ رہنے والی فطری کمزوری کے مطابق اس کی اس آرزو کو حقیقت میں بدلنے کی ضمانت دیتے ہیں وہی انبیاءکرام ہیں اور ان کا کام پیغام نبوت کو عام کرنا ہے۔ اس لحاظ سے نبوت انتہائی پاکیزہ اور مقدس پیشہ ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنی توحید کے اقرار کے بعد اس پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے اور نبوت کا سب سے پاکیزہ اور مقدس فرض منصبی جہاد ہے کیونکہ جہاد ہی وہ واحد ذریعہ اور وسیلہ ہے جو نبوت کے اہم مقصد کی تکمیل کرتا ہے۔ اس لیے جہاد بھی اسی قدر پاکیزہ اور مقدس کام ہے جس قدر فریضہ نبوت مقدس ہے۔ درج ذیل آیت جہاد کے عظیم تر فعل ہونے پر دلات کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالٰے ہے :

” اِنَّ اللّٰہَ اشتَرٰی مِنَ المُومِنِینَ اَنفُسَھُم وَ اَموَالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَیَقتُلُونَ وَ یُقتَلُونَ وَعدًا عَلَیہِ حَقًّا فِی التَّورٰةِ وَ الاِنجِیلِ وَ القُراٰنِ وَ مَن اَوفٰی بِعَھدِہ مِنَ اللّٰہِ فَاستَبشِرُوا بِبَیعِکُمُ الَّذِی بَایَعتُم بِہ وَ ذٰلِکَ ھُوَ الفَوزُ العَظِیمُ “ (التوبہ : ۱۱۱)

” حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، مارتے اور مرتے ہیں ، ان سے (جنت کا وعدہ ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے ، تورات اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو۔ پس خوشیاں مناﺅ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔“

یعنی جو لوگ اپنے مادی وجود کو، اپنے نفس اور مال کو اللہ کے ہاں بیچ دیتے ہیں اس کو اللہ ہی کا مال سمجھ بیٹھتے ہیں تو اللہ اس سودے پر ان کو جنت دے دیتاہے اور اللہ کی رضا بھی ان کو حاصل ہو جاتی ہے ۔

اللہ تبارک و تعالی نے اس آیت میں خرید و فروخت کا صیغہ استعمال کر کے بندہ ناچیز کو ایسے عظیم مرتبہ پر فائز کر دیا ہے جہاں بندہ براہ راست رب کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے گفتگو کرتا ہے اور تجارتی معاہدے طے ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :

کُلُّ المَیِّتِ یُختَمُ عَلَی عَمَلِہِ اِلاَّ المُرَابِط، فَاِنَّہُ یَنمُولَہُ عَمَلُہُ اِلَی یَومِ القِیَامَةِ وَیُوَمَّنُ مِن فَتَّانِ القَبر،

ہر مرنے والے کے عمل کا سلسلہ مرنے کے بعد بند ہو جاتا ہے سوائے مرابط (سرحد پر پہرہ دینے والے)کے، اس کے اعمال میں قیامت تک بڑھوتی ہوتی رہے گی اور قبر کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔