جہاد ۔مال و متاع میں برکت کا ذریعہ

جو چیز خیر و بھلائی کے آنے کا سبب بنے و ہ خود بھی خیر ہوتی ہے اور جو چیز شرا ور برائی کا سبب بنے وہ خو د بھی شر ہوتی ہے ۔ جو شخص اپنی ذات اور زندگی کو خیر کے لیے وقف کر دے اور اسی کے لیے زندگی گزارے اس کا دن چوبیس گھنٹوں کا نہیں ہوتا بلکہ کئی سال کا ہوتا ہے کیونکہ ہر ساعت میں اس کی نیکی لکھی جارہی ہوتی ہے ۔جو شخص اپنے آپ کو دعوت دین کے لیے مخصوص کرلے، حق بات کرے، شب و روز نیکی کی دعوت دے، وہ اس محدود زندگی میں لا محدود اجر پاتا ہے کیونکہ وہ سوتے جاگتے کھاتے پیتے سفر میں حضر میں ہر حال میں نیکیاں کمارہا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰے اس کے حسن نیت اور زندگی میں نیک کام کی مکمل منصوبہ بندی کرنے اور ہر وقت دین حق کی سربلندی کے لیے سوچنے کی وجہ سے اس کی زندگی سے تاریک گوشوں کو نکال دیتا ہے، اس کے دل کو منور کر دیتا ہے، اس کو اپنے فضل و رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔ جس نے اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کر دی اللہ اس کی زندگی سے سیاہ نقطہ مٹا دیتا ہے وہ رات کو بھی روز روشن کی مانند ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا ہر ثانیہ کئی برسوں کی عبادت کے برابر ہوتا ہے کیوں کہ وہ خیر و بھلائی کے راستے پر گامزن ہوتا ہے جبکہ راہِ حق وبقاءکے لیے جو بھی کام کیا جائے اس کا اجر و ثواب بہت بڑا ہوتا ہے اگرچہ کام بالکل معمولی نوعیت کا ہو۔ اس لیے نیکی کے کام کا ایک لحظہ بھی پژمردہ زندگی اور بے عمل زندگی کے ہزاروں سال سے بہتر ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس راز کو بطریق احسن جان گئے تھے۔ اسی لیے تو ہر وقت رسول کریم (صلى الله عليه و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے اور خیر و بھلائی کے مزید کاموں کے بارے میں دریافت کرتے رہتے۔ کوئی بھی صحابی آکر نبی کریم (صلى الله عليه و سلم)سے پوچھتا :

”دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ اِذَا عَمِلتُہُ دَخَلتُ الجَنَّةَ“

مجھے کوئی ایسا کام بتائیں کہ وہ کام کر کے جنت میں چلا جاﺅں ۔

بلا شبہ جن لوگوں کے دل اللہ تعالی کی معرفت سے منور ہو جاتے ہیں وہ ہمیشہ نیکی کرنے کے راستے تلاش کرتے ہیں ۔ یعنی ایسے ذرائع اور وسائل تلاش کرتے ہیں جن کے سبب بقاءو دوام حاصل ہو سکے اور ابدی زندگی میں کامیابی ممکن ہو سکے ۔ صحابہ کرام ہمیشہ رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) سے نیکی کرنے کے بارے میں استفسار کرتے رہتے۔ ایسے لگتا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نیکی میں آگے بڑھنے اور سبقت لے جانے کے لیے بے چین ہیں ۔ تمام مرد، عورتیں ، نوجوان، بچے اور بوڑھے نیکی کرنے کے لیے سرگرداں رہتے اور نیکی کے راستے میں موجود تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے میں کوشاں رہتے ۔

مثال کے طور پر حضرت نسیبہ مازنی رضی اللہ عنہا کو دیکھیے اپنی ساری زندگی جہاد میں گزار دی اپنے شوہر اور اولاد کے ساتھ ہجرت رسول کے بعد مسلسل مدینہ منورہ میں قیام کیا بدر اور احد میں عورت ہونے کے باوجود شریک رہیں ۔ آپ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں جب جنگ شدت اختیار کرجاتی اور مڈبھیڑ حد سے بڑھ جاتی تو آپ خود مردانہ وار شجاعت کے جوہر دکھاتیں اور خود تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑتیں ۔ ان کی اس جان نثاری کا مقصد وحید یہی ہوتا کہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں عملی شرکت ہو ۔ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) نے انہیں جہاد میں مردوں کی طرح شرکت سے منع کر دیا۔ اس خبر کے بعد آپ اس قدر غمگین رہتیں جیسے کوئی بہت بڑا نقصان ہو چکا ہے۔ آپ روتی تھیں اور کہتی تھیں : میں گھر میں کیسے ٹھہر سکتی ہوں جب اللہ کے رسول (صلى الله عليه و سلم)آپ جہاد کر رہے ہوں ۔ یعنی اس کار عظیم سے روکنے کی وجہ سے آپ ہمیشہ غمگین رہتیں ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تیرہویں برس میں تھا جب رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) بدر کے لیے روانہ ہوئے ،میں بھی مجاہدین میں شامل تھا کہ آپ (صلى الله عليه و سلم) نے مجھے انگلی سے واپس جانے کا اشارہ کیا۔ خدا کی قسم وہ رات میرے اوپر اس قدر بھاری تھی کہ میں نے اس سے زیادہ غمگین رات ساری زندگی میں نہیں گزاری

حضرت عمیر بن ابی وقاص سعد بن ابی وقاص کے بھائی تھے اور بدر کے موقع پر ان کی عمر بھی تیرہ برس سے زیادہ نہ تھی۔ جب لوگوں کا انتخاب ہو رہا تھا تو انہوں نے ایڑیاں اٹھا کر اپنے آپ کو لمبا ظاہر کیا تاکہ چھوٹا سمجھ کر نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) ان کو چھوڑنہ جائیں ۔ چنانچہ ان کی کوشش کامیاب ہو گئی اور مجاہدین بدر میں شامل ہو کر انہوں نے اپنے لیے دائمی خیر و فلاح کا دروازہ کھول لیا، آپ غزوہ بدر میں شہید ہو کر ابدی جنتوں میں جابسے۔

حضرت ابو سفیان نے فتح مکہ تک نبی کریم(صلى الله عليه و سلم) کے ساتھ شدید دشمنی رکھی اور کئی جنگیں لڑیں لیکن فتح مکہ کے بعد جب مسلمان ہوئے تو ہمیشہ نیکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ۔ ان کوبھی اپنی گمشدہ متاع جہاد ہی میں ملی۔ایک جنگ میں ان کی آنکھ میں دشمن کا نیزہ لگا اور اس پھوٹی ہو ئی آنکھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تیرا کیا فائدہ تونے تو ستر برس تک اپنے ساتھی کو نہ دیکھا۔اس آنکھ کو پھینک کر دشمن کی صفوں کے اندر جاگھسے

حارث بن ہشام بڑے جرأت مند مجاہد تھے۔بزنطینیوں کے ساتھ میدان کارزار گرم تھا۔مسلمانوں کی تعداد ۱۰ ہزار تھی جبکہ دشمن ایک لاکھ جم غفیر کے ساتھ میدان میں کھڑا تھا۔حارث نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اے اہل بدر، اے اہل احد آپ نے رسول اللہ کے شانہ بشانہ جنگیں لڑی ہیں آپ نے حدیبیہ میں رسول اللہ کے ہاتھ پربیعت کی ہے(حالانکہ وہ خود ان کاروائیوں میں شامل نہ ہوئے تھے)آﺅ مل کر پرچم اسلام کو تھام لیں اور اس کو زمین پر نہ گرنے دیں اس طرح یہ عَلم زمین پر نہیں گرے گا کئی ہاتھ اس کو تھامے ہوں گے اس کی حفاظت کریں گے۔ہاں یہ عَلم سر بلند رہا اس کی حفاظت میں کئی بازو کٹ گئے۔سروفروشان اسلام نے اس علم کی حفاظت میں جانیں نچھاور کر دیں ۔ایک قدم تک پیچھے نہ ہٹے۔جانیں لٹاتے رہے اور علم اسلام کو لہراتے رہے۔اس روز دشمن جتنے قدم بھی آگے بڑھا ان جان نثاروں کے جسمو ں پر ہی قدم پڑے جو اپنی جانیں نچھاور کر چکے تھے ۔بالکل حارث بن ہشام کی طرح جس نے اپنے جسم کے ٹکڑے کر کے ابدی خیر کوسمیٹ لیاتھا۔ ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا بلا شبہ بہت بڑی آزمائش تھی لیکن اس کا حل بھی جہاد کے سوا کوئی نہیں تھا۔ سیدنا بلال ؓ حبشی مؤذن رسول نے سیدنا ابو بکر ؓکے زمانے میں کئی بار مدینہ چھوڑ نے کی درخواست کی لیکن ابو بکر نہ مانے کیونکہ ابو بکر ان کو حضور کی نشانی اور یادگار سمجھتے تھے جو ان کے پاس تھی۔لیکن بلال شوق جہاد میں گھل رہے تھے اور جنگوں میں تلواروں کے جوہردکھانے کے عادی تھے۔بلال تو ہمیشہ جہاد میں رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کے ساتھ رہے تھے۔اس لیے محض اذان کے لیے مدینہ منورہ میں رہنا ان کے لیے مشکل تھا جو ان کی طبیعت پر گراں گزرتا تھا۔

ایک مرتبہ جمعہ کے روز دوران خطبہ بلال ؓ کھڑے ہوگئے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا:اے ابو بکر اگر آپ نے مجھے اپنی ذات کے لیے آزاد کرایا تھا تو پھر مجھے اپنے پاس ہی رکھو اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے مجھے آزاد کیا تھا تو مجھے چھوڑدو میں اللہ کی خاطر نکلوں ۔

چنانچہ بلال ؓ شام کی طرف روانہ ہو گئے وہاں میدان کارزار گرم تھا۔ وہیں دوران جہاد شہید ہوئے اور کسی نامعلوم جگہ دفن کر دیے گئے۔انہیں اس مقام تک محض جذبہ جہاد اورشوق شہادت نے پہنچایا۔

ابو خیثمہ ؓ غزوہ تبوک کے موقع پر باقی ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے اور سارے لوگ مدینہ سے دور جا چکے۔انہوں نے اس تاخیر پر خود اپنے آپ کو سزا دی اور بڑ ے نادم ہوئے انہوں نے گھوڑا لیا اور سر پٹ دوڑانا شروع کر دیا اور جب گھوڑ ا تھک جاتاتو اتر کر اپنا سامان بھی پیٹھ پر رکھ لیتے اور چلتے رہتے تاکہ جلدی قافلہ میں مل جائیں ۔ آخرکار قافلے والوں نے دور مدینہ کی طرف غبار اڑتے دیکھا قافلہ اُس وقت پانی پینے کے لیے رکاتھانبی کریم (صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا ہو نہ ہو ابو خیثمہ ہی ہو گاتھوڑٰی دیر بعد ابو خیثمہ صاف دکھائی دینے لگے۔آپ (صلى الله عليه و سلم) ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے اور ان کی آمد کو بہت اچھا قرار دیا۔ ابو خیثمہ قافلہ میں پہنچ کر نبی کریم (صلى الله عليه و سلم) کے قدموں میں گر پڑے اور عر ض کیا میں تو ہلاک ہو گیا تھا۔ کیونکہ جہاد سے پیچھے رہ جانا بہت بڑا گنا ہ تھا۔ ابو خیثمہ ڈر گئے کہ اس قدر بڑے گناہ کے سبب کہیں ہلاک نہ ہوجائیں ۔

جہاد بڑی بڑی بھلائیوں کا دروازہ ہے۔ جو اس دروازہ سے داخل ہوتا ہے تو دو میں سے ایک خیر کثیر کو پا جاتا ہے۔یا تو شہید ہو کر ابدی جنت میں چلا جاتا ہے یا غازی بن کر دنیا و آخرت کی خیر وثواب سمیٹتا ہے۔جہاد میں اس طرح کی عظیم برکات ہیں ۔