جہاد ابدی زندگی کا سر راز

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوتے ہیں وہ زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں ۔اس بات پر قرآنی آیات،احادیث نبویہ اور بے شمار تاریخی واقعات دلالت کرتے ہیں ۔

مثال کے طور پر سلیمان شاہ کو لیجیے جو عثمانی سادات کے اولین مجاہدین میں سے تھا اورسلطان مراد کا بڑا بھائی تھا۔یورپ میں برسرپیکار مجاہدین کے سپہ سالار کی حیثیت سے جنگ کرتا رہااوررومیوں کے خلاف بڑے معرکوں کی قیادت کی۔وہ اپنے والد کے بعد عثمانی سلطنت کا متوقع بادشاہ بھی تھاا ور یورپ کے معرکوں میں معروف تھااور چناق قلعہ فتح کرتے ہوئے یورپ کی طرف پیش قدمی میں مصروف تھا۔جزیرہ نما ”گیلی بولو“ پر قبضہ مکمل کر کے وہاں حکومت قائم کر چکا تھا۔یہاں سے آگے بولائر تک فتح کر لیا اور لوگوں کا خیا ل تھا کہ اب وہ بادشاہت کے منصب پر فائز ہو گا، لیکن اس کا دل کسی اور طرف مائل ہو چکا تھا اور اسے گویا شہادت سامنے نظر آرہی تھی۔چنانچہ اس نے اپنے سپاہیوں اور کمانڈروں کو جمع کیااور یوں مخاطب ہوا۔اگرمیں آج مر جاﺅں تو رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملنے پائے ورنہ وہ دوبارہ جنگ کے لیے لوٹ آئیں گے اور مفتوحہ زمین پر قبضہ کر نے کی کوشش کریں گے ۔ میری یہ وصیت یاد رکھو کہ میرے جنازے کے پیچھے نہ پڑ جانا بلکہ ایک شخص کی طرح اپنی پوری قوت مجتمع کر کے دشمن پر اللہ کے بھروسے کے ساتھ بھرپور حملہ کرنا اور اپنے رسول (صلى الله عليه و سلم) کے حکم پر عمل کرنا، انہوں نے فرمایا تھا:خبردار جہاد سے کبھی راہ فرار اختیار نہ کرنا۔

پھر اچانک سلمان شاہ کا گھوڑا گہرے کھڈ میں جا گرا اور سلطان سر کے بل زمین پر جا لگااور شہید ہو گیا۔تمام کمانڈر اس کے جنازے پر جمع ہو گئے وہیں سے بیک وقت دشمن پر بھرپور حملہ کر دیا۔رومی فوج تتر بتر ہو گئی۔ایک عرصے کے بعد دشمن فوج کے سپاہی اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے: اس روز ہر وارکے موقع پر مسلمانوں کی فوج سے ایک خوبصورت لمبا نوجوان سبز پگڑی باندھے گھوڑے پر سوار ہو کر نمودار ہوتااور اس کے ہاتھ میں چمکتی تلوار تھی وہ بھرپور وار کرتا اور پوری فوج کودائیں بائیں بکھیر کر رکھ دیتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں سیدنا مصعب بن عمیر کی شہادت کے بعد ان کی جگہ ایک بزرگ فرشتے کو لڑنے کے لیے بھیج دیا اور جیسے سیدنا حمزہ کے عظیم معرکہ کو قیامت تک کے لیے بقا سے نوازاگیا، بالکل اسی طرح سلمان شاہ کے جہادی اعمال کو بھی فرشتے کی مدد سے جاری رکھا ،کیونکہ سلیمان شاہ اسم محمد کو یورپ کے قلب تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا تھا۔یہ دلیل ہے کہ شہدا ءواقعی زندہ ہوتے ہیں ۔

برطانوی فوج کا سپہ سالار ہا ملٹن بھی معرکہ جناق قلعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے، ہمار ی جنگ آپ کی تلواروں اور بندوقوں سے نہ تھی، بلکہ ایسے نوجوان تھے جو سبز عمامے پہنے ہوئے مسلم فوج کے آگے آگے تھے ۔ہماری گولیاں ،حملے اور توپیں ان پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھیں یعنی جن بہادروں کا ذکر ہاملٹن اس بیان میں کر رہا تھا وہی تو شہیدوں کی روحیں تھیں ۔ یقینا وہ زندہ ہیں ان کے قریب اب موت نہیں آسکتی۔ جو مومن عزت کی موت کوذلت کی زندگی پر ترجیح دے تو اس کی عزت قیامت تک قائم رہے گی اورجس دین کو اس نے قبول ل کیاتھا اس کا پرچم تاقیامت سربلندرہے گا۔

یقینا ایسی مبارک موت اسی کے نصیب میں ہوتی ہے جو دین کی خاطر موت کو گلے لگاتا ہے۔ اس فانی زندگی کو حقیر سمجھتا ہے۔ ایسے بہادرنسل در نسل بہادر ہوتے ہیں ۔جہاد جیسا عظیم کام وہی پاک طینت روحیں کرتیں ہیں جو پیدائشی پاک اور صاف ہوتی ہیں ۔امت ان کا اس قدر احترام کرتی ہے کہ وہ قبر میں نہیں ہوتے بلکہ امت کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے :

وَ لَا تَقُولُوا لِمَن یُّقتَلُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ اَموَات بَل اَحیَآئ وَّ لٰکِن لَّا تَشعُرُونَ ۔(البقرہ:۱۵۴)

”جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو۔وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعورنہیں ۔“

اگر لوگوں کی آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا جائے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ شہداءکس قدر نعمتوں میں ہیں ۔اگر یہ ممکن ہو جائے کہ ان کی روحوں سے بات ہو سکے تو یہ دنیا والے سنیں کہ وہ شہید تو ان دنیا پر ستوں کا ماتم کررہے ہیں ۔ ہم تو شہداءکے فراق میں روتے ہیں ان کے یتیم بچوں پر ترس کھاتے ہیں لیکن وہ تو دنیاداروں کہ حالات پر ترس کھاتے ہیں اور ان کے لیے روتے ہیں جنہوں نے دنیا کے بت کو پوجنا شروع کر دیا ہے،جویہاں آرام و سکون سے رہتے ہیں اور اس ذلت،نحوست اور غلامی پر راضی ہوچکے ہیں اورجہاد سے منہ موڑ چکے ہیں ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑدیا ہے۔وہ شہداءہماری سیاہ کاریوں بھری زندگی، ہمارے ان مصلّوں پر جو رات بھر فارغ رہتے ہیں اور ان پر ہمارے آنسو نہیں گرتے،ہماری بدترین حالت پر ماتم کر رہے ہیں ۔درحقیقت شہداءجنت کی وسعتوں میں حقیقی عیش بھری زندگی گزار رہے ہیں ۔کیا وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ نہیں رہتے؟اور کیا ان کی جنتی و ابدی نعمتوں بھری زندگی کے مقابلے میں ہماری زندگی جہنم نہیں ہے۔یہ زندگی جو ہم جی رہے ہیں اللہ سے دوری کے سبب شیطانی زندگی بن چکی ہے۔ یہ زندگی کس نتیجہ کا پیش خیمہ ہے؟کیا وہ نتیجہ برداشت ہوگا؟لیکن ہم ہیں کہ اس زندگی کی حرص اور لالچ میں اندھے ہورہے ہیں ۔یہ کس قدر افسوسناک طرز زندگی ہے۔