جہاد ہر مسلمان پر فرض

یہ ایک حقیقت ہے اس دارفانی میں آنے والے ہر فردنے اپنے حصے کاکام کرنا ہے۔پھراس فانی دنیا کو ختم ہوجانا ہے۔مال ختم ہوجائے گا۔مکان منہدم ہو جائیں گے۔انسان کے کام صرف اور صرف وہی آئے گا جو اس نے اس دارفانی سے دار باقی کی طرف بھیجا ہو گا۔اس لیے ضروری ہے کہ اس باقی رہنے والی زندگی کے لئے وہاں جانے سے پہلے پوری کوشش کے ساتھ کچھ بھیجا جائے۔

یہ قطعی حقیقت ہے کہ انسان کا نامہ اعمال اس کی موت کے ساتھ بند ہوجاتا ہے۔اور اس کو اسی نامہ اعمال کی روشنی میں آخرت میں اجر ملے گا۔البتہ ایسا شخص جس نے اپنے دین کی خاطر، امت مسلمہ کی بھلائی کی خاطر، اپنی عزت و غیرت کی خاطر، اسلامی شریعت کی روشنی میں کوئی خدمت سرانجام دی ہوتی ہے اور جس نے اپنی جان اور مال اللہ کے دین کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے لگا دیا ، اس کا نامہ اعمال بند نہیں ہوتا بلکہ اس کی نیکیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔اس بات کی وضاحت حدیث شریف میں ان الفاظ میں ہوتی ہے:

”کُلُّ المَیِّتِ یُختَمُ عَلَی عَمَلِہِ اِلاَّ المُرَابِط، فَاِنَّہُ یَنمُولَہُ عَمَلُہُ اِلَی یَومِ القِیَامَۃِ وَیُوَمَّنُ مِن فَتَّانِ القَبر“

”ہرمرنے والے کا عمل اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے سوائے سرحد پر پہرہ دینے والے کے۔ اس کے اعمال میں روز قیامت تک اضافہ ہوتا رہے گا اور قبر کی آفتوں سے محفوظ رہے گا۔“

بلاشبہ مرابط وہ شخص ہے جس نے کسی نیک کام کی بنیاد رکھی۔نیکیوں اور بھلائیوں کے راستے ایجاد کیے۔اس نے ایسے صدقات جاریہ کیے جو اس کی موت کے بعد بھی لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے۔جس شخص نے بھی اس کے نیک کام کے نتیجے میں کوئی کام کیااور اس کے کسی نیک کام کو جاری رکھا تو اس کا ثواب اس آغاز کرنے والے کو پہنچتا رہتا ہے۔اور پھر وہ قبر کی آزمائشوں اور عذاب سے بھی بچا رہتاہے ۔اس لیے کہ وہ در حقیقت مرا ہی نہیں کہ عذاب قبر میں مبتلاءہو بلکہ وہ تو ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا ۔اس کے عظیم کارناموں نے اسے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔

جو شخص کہتا ہے کہ حضرت محمد (صلى الله عليه و سلم) خلفاءراشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فوت ہو چکے ہیں وہ در حقیقت خود مردہ ہے کیونکہ انہوں نے ہمارے لیے ایسا اسوہ حسنہ چھوڑا ہے کہ ہم اگر اس پر چلیں تو زندگی میں ہمیں کامرانیاں اور ترقیاں نصیب ہونگی اور یہ سب کچھ انہیں کے چھوڑے ہوئے اسوہ کی وجہ سے ممکن ہے ۔ جیسے جیسے ہمیں ان کی سنتوں اور آثار کا علم ہوتا ہے ہم اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کا ذکر بلند کرے ان سے راضی ہو، انہوں نے ہمارے لیے ایسے راستے پر چلنا آسان کر دیا ہے جو اللہ کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم بڑے آرام و اطمینان سے اس راستے پر چلتے ہیں ۔

ان کے درجات بلندیوں میں عرش تک پہنچے ہوئے ہیں وہ تو عذاب قبر میں مبتلا نہیں ہوں گے کیونکہ عذاب قبر مردوں کے لیے ہوتا ہے۔ ہاں عذاب قبر ایسی مردہ روحوں کو ہوتاہے جنہوں نے اپنے آپ کو دین کے رنگ میں نہ رنگا ہو جو اللہ کا رنگ ہے اور اللہ کے رنگ سے زیادہ بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

” وَ مَنۡ اَحسَۡنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَةً “

اللہ کے رنگ سے زیادہ بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے ۔البقرة : ۱۳۸۔

عذاب قبر تو ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے احمد مجتبیٰ (صلى الله عليه و سلم) کے طریقے پر عمل نہ کیا اور قرآن کریم کو زندگی کا دستور نہ بنایا البتہ جن لوگوں نے اپنی زندگیوں کو ان حقائق کے لیے وقف کردیا اور اللہ کے راستے کو اپنا لیا وہ تو عذاب قبر سے نجات پا گئے ۔ سیدالکونین سردار دوعالم (صلى الله عليه و سلم) جہاد کے حوالے سے فرماتے ہیں :

”مَن رَابَطَ لَیلَةً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ سُبحَانَہُ کَانَت کَاَلفِ لَیلَةٍ صِیَامِھَا وَقِیَامِھَا“

جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک رات محاذ پر پہرہ دیا گویا اس نے ایک ہزار راتیں قیام کیا اور ایک ہزار دن روزہ رکھا۔

یعنی کہ اگر تم ایک رات اللہ کے راستے میں محاذ جنگ پر دشمن سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے والے مجاہد کے برابر ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں ایک ہزار روزے رکھنا ہو ں گے اور ایک ہزار راتیں عبادت میں گزارنا ہوں گی ۔ اور پھر بھی تم اس مجاہد کے درجے تک نہیں پہنچ سکتے ۔

بعض مؤمنین تو ایسے ہیں جو جہاد کا حق ادا کر دیتے ہیں اور وہ فضائل حاصل کر لیتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو ان فضائل کو بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن عملاً جہاد میں شریک بھی نہیں ہوتے اور یہ اللہ ہی کا فضل اور احسان ہے اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ اس نے عملًا تلوار یا بندوق نہیں اٹھائی لیکن ایمان اور قرآن کی سر بلندی اور خدمت کے لیے ہونے والے کسی نہ کسی سطح کے کام میں شریک رہا ، چاہے اس نے ایک پتھر ہی اٹھا کر دیا ہو اور اس سے کوئی دینی خدمت ہوئی ہو اس کا وہ عمل رائیگا ں نہیں جائے گا ۔

جس نے کسی مسئلہ میں حصہ لیا کسی بھی سطح پرصلح مشورہ میں شامل رہا،دینی خدمت کے کسی منصوبہ کو پایا تکمیل تک پہنچانے میں اس کا بھی حصہ رہا تو وہ شخص ان میں سے اپنے حصہ کے کام اور اپنی نیک نیتی کا اجر پالے گا۔

جہاد بالقلم کرنے والا بھی اجر لے گا ، کاغذ مہیا کرنے والا، اس کوچھاپنے والااوراس کوشائع کرنے والا سب مکمل ثواب حاصل کریں گے۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حتی الوسع کسی بھی نیکی کے کام میں اپنا کردار ادا کرے اور اللہ کی طرف سے عطا کردہ جسمانی و علمی طاقت کو بروئے کار لائے تاکہ اجتماعی طور پر ہونے والے نیکی کے کام میں اسکااجربھی محفوظ رہے۔حضرت ابوہریرہ ؓحدیث معراج میں روایت کرتے ہیں کہ آپ(صلى الله عليه و سلم) چلے اور آپ کے ساتھ جبریل(علیہ سلام) بھی تھے ان کا گزر بعض لوگوں پر ہوا جو ایک دن فصل لگاتے ہیں اور وہ تیار ہو جاتی اور اسے کاٹ لیتے ہیں جیسے ہی فصل کاٹتے ہیں پیچھے فصل تیار ہوتی جاتی ہے۔نبی اکرم(صلى الله عليه و سلم) نے پوچھا اے جبریل یہ کیا ہے؟ جبریل ؓنے کہا:

”ھَوُ لاَئِ المُجَاھِدِینَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ تُضَاعَفُ لَھُمُ الحَسَنَةُ بِسَبعمَا ئَةِ صِعفٍ وَمَا اَنفَقُوا مِن شَی ئٍ فَھُوَ یَخلُفُہُ وَھُوَ خَیرُ الرَّازِقِینَ“

یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ہیں ان کی نیکیاں سات سو گنا بڑھا دی جاتی ہیں ، جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے اس کا اجر ان کے لیے باقی ہے اور وہ (اللہ) بہترین رزق دینے والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے سفر پر آسمان در آسمان جارہے تھے اور اس دنیا سے بنفس نفیس عالم بالا کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو ہر آسمان پر آپ نے مختلف مناظر دیکھے۔اسی سیر کے دوران آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جو جس روزفصل بوتے ہیں اسی روز فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے۔اور اسے کاٹ لیتے ہیں ۔لیکن جیسے جیسے کاٹتے جاتے ہیں پیچھے سے فصل پھر تیار ہو جاتی ہے۔یہ حالات دیکھ کر آپ نے جبریل (علیہ سلام) سے استفسار کیا یا جبریل یہ کون لوگ ہیں ؟۔۔۔۔۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو مومن اپنی جان و مال،آرام وراحت اورجوانی و بڑھاپا اللہ کے راستے میں قربان کردیتا ہے اسے یقین ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ نہ تو ضائع جائے گا اورنہ ہی کبھی فنا ہو گا۔جب وہ اس دنیائے فانی سے دارالباقی کی طرف کوچ کرے تو اطمینان قلب کے ساتھ جائے وہاں وہ دیکھ لے گا کہ اس نے اپنے اعمال کا ذرہ برابر بھی ضائع نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ ہر چیز کی بہترین حفاظت کرنے والا ہے اور وہ سب سے بڑا نگہبان ہے۔جو کچھ مومن اس کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے اعمال کی حفاظت کرتا ہے۔وہ اس کے اعمال کا اچھا بدلہ دیتا ہے۔وہ تو اس قدر مہربان وکریم ہے کہ اگر انسان ساری عمر اور ہمیشہ کے لئے سجدہ میں سر ڈال دے اور کبھی اوپر نہ اٹھائے تو اللہ کے فضل وکرم اورانعامات واکرامات کا بدلہ انسان نہیں چکا سکتا۔اگر جنت میں سجدہ کرنا ثابت ہو تو انسان جنت میں ہمیشہ کے لیے سجدہ ریز ہو جائے۔اللہ کے شکر ادا کرنے کے لئے اسی حالت میں پڑا رہے تو مجھے یقین ہے کہ اس سجدہ سے اسے جو روحانی لذت اورسکون ملے گا وہ جنت کی دوسری نعمتوں سے کم نہیں ہوگا۔

رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم) جہاد کے معاملات میں حصہ لینے کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔

”مَن جَھَّزَ غَازِیًا فِ¸ سَبِیلِ اللّٰہِ فَقَد غَزَا وَمَن خَلَفَ غَازِیاً فِی سَبِیلِ اللّٰہِ بِخَیرٍ فَقَد ا غَزَا “

”جس نے اللہ کے راستے میں لڑنے والے کے لیے اسباب مہیاکیے گویا کہ اس نے خود جہاد کیا۔اور جس نے اللہ کے راستے میں لڑنے والے کے گھر والوں کی دیکھ بھال کی گویا کہ اس نے بھی خود جہاد کیا۔“

جو شخص بذات خود جہادمیں شریک نہیں ہو سکتا لیکن ایسے شخص یاجماعت کی مدد کرتا ہے جو مجاہدین کوتیار کر کے جہاد کے لیے روانہ کرتی ہے تو وہ عملاً جہاد میں شریک ہوتا ہے اورمجاہد کا اجر حاصل کرتا ہے۔جن لوگوں نے مجاہدین بدر کی مدد کی احد کے لیے مجاہدین کے لیے زادراہ تیار کیا، تبوک کے مجاہدین کے لئے مال خرچ کیا، وہ اللہ کے ہاں روز محشر ان مجاہدین کے ساتھ ہوں گے۔کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر لبیک کہااگرچہ عملاً مجاہدین کے ساتھ شریک ہونے سے معذور رہے لیکن وہ درحقیقت جہاد سے پیچھے نہ رہے۔

یقینا جو لوگ غزوہ تبوک میں شامل تھے ان کی بیویاں ، ان کے بچے، ان کے والدین، اہل مدینہ کے بوڑھے اور جوان قیامت کے روز مجاہدین تبوک کے ساتھ ہوں گے۔جہاد پر نکلنے سے پہلے بچوں نے چھریاں اور چھوٹے ہتھیار پیش کر دیے۔خواتین اور دلہنوں نے اپنے زیورات دے دیے۔یہاں تک کہ بوڑھوں نے اپنا مال و متاع غزوہ تبوک کے چندے میں حضور پاک (صلى الله عليه و سلم) کی خدمت میں پیش کر دیا۔ہر شخص نے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا تاکہ اس کا حصہ بھی جہاد میں شامل ہو جائے۔

ان تمام لوگوں کے ساتھ قیامت کے روز مجاہدین تبوک کا سامعاملہ ہو گا۔ایک اور حدیث میں رسول اکرم(صلى الله عليه و سلم) نے فرمایا:

”اِنَّ بِال مَدِینَةِ لَرِجَالاً مَاسِرتُم مَسِیراً وَلاَ قَطَعتُم وَادِیاً اِلاَّ کَانُوا مَعَکُم حَبَسَھُمُ المَرَضُ “

”بلاشبہ مدینہ میں کچھ لوگ ہیں کہ تم جس وادی میں سے گزرتے ہو ئے جس راستے کو بھی عبور کرتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہیں ان کومرض نے روک لیاہے۔“

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ اجر میں شریک ہیں ۔

اس سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کو جہاد پر جانے سے کوئی واقعی عذر روکتا ہے جیسے بڑھاپا،کمزوری،غریبی،عورت ہوناوغیرہ تو اس کا اجر کم نہیں ہوتا بلکہ مجاہدین کے برابر ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ معذور لوگوں کو عملاً جہاد کرنے والوں کے ساتھ شامل کرتا ہے۔اللہ ان کو ان کی نیتوں کے مطابق اجر دے گا۔گزشتہ حدیث شریف سے یہی معنی ہمیں سمجھ آتا ہے۔ہم یقین رکھتے ہیں (جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے)کہ یہ ہمارے حق میں دعا ہے۔خاص طور پر آج کے دور میں جبکہ جہاد کو عملاً چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ جس نے بھی مکمل طور پر یا کسی حد تک ایمان و قرآن کی خدمت میں حصہ لیا،وہ مکمل جہاد کا اجرپائے گا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمار ے اس یقین کوکمزور نہ ہونے دے۔